” لب کھول کہ آزاد ہے تو”

(حفصہ الماس)
ہاں واقعی آزادی تو تب ہے نا جب ہمیں کہا جائے کہ جی خاموشی کا وقت ختم ہوا چاہتا ہے وہ قفل جو بڑی بڑی زنجیروں کے ساتھ آپکی زبان پہ لگا دیا تھا اب اس کے کھل جانے کا وقت آگیا ہے۔ جیسے ریوڑ میں موجود جانوروں کو یا پنجرے میں قید پرندوں کو کچھ دیر کے لئے آزاد چھوڑدیا جاتا ہے نا تو کیا انسان کو آزاد نہیں کیا جاسکتا ؟ کیاوہ اپنی مرضی سے کچھ فیصلےکرنے کی ہمت نہیں کرسکتا؟ کیا وہ اپنے حق کے لئے آواز نہیں اٹھا سکتا؟ اگر آپ اس سے تمام حق چھین لیتے ہیں تو پھر زبانوں پرقفل ہی لگتے ہیں، تب انسان کٹ پتلی بن کر ناچتا ہے اور لوگ اسکی خاموشی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بے بسی کا اندازہ کوئی نہیں لگاتا ہاں تماشا ہر کوئی دیکھتا ہے۔ اگر کبھی گمشدہ چابی تلاش کرلی جائے تو پھر قتل ہوتے ہیں خوشیوں کے، ارمانوں کے اور کہیں دور دل میں چھپے جذبات کے لیکن تب ایک ذات کو رحم آتا ہے اور مکافات عمل جنم لیتا ہے، وقت بدلتا ہے، خاموشی کے تمام قفل ٹوٹتے ہیں اور بغاوت عام ہوتی ہے پھر پنجرے کے اندر سے پرندے ، ریوڑ کے جانور اور زنجیروں میں جکڑے انسان کو غلام بنانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتا ہے۔ تو لب کھول کہ آزاد ہے تو
پہ عمل کر کے اگر پہلے ہی آپ اپنوں کو غلامی سے نجات دلاسکتے ہیں تو دیر مت کیجئے ورنہ تاریخ دہرانے میں دیر کہاں لگتی ہے۔
Comments are closed.