بہت ہوگئی مہنگائی کی مار۔۔۔!

 

نازش ہما قاسمی

۲۰۱۴ کے لوک سبھا الیکشن سے قبل این ڈی اے اتحاد کا نعرہ تھا ’’بہت ہوئی مہنگائی کی مار اب کی بار مودی سرکار‘‘۔ عوام جومنموہن حکومت کے دور اقتدار میں ۷۱ روپئے پٹرول اور ۵۷ روپئے ڈیزل سے پریشان ہوگئے تھے، یہ سوچ کر سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نعروں کے جھانسے میں آکر ۲۰۱۴ میں این ڈی اے حکومت کو اقتدار سونپ دیا؛ لیکن آج تک نہ ہی پٹرول کی قیمتیں کم ہوئیں اور نہ ہی رسوئی گیس اور دیگر گھریلو ضروری اشیاء کی قیمتیں. مودی حکومت اپنے دوسرے ٹرم کا تقریباً دوسال پورا کرچکی ہے، اور مہنگائی آسمان چھورہی ہے۔ غریب انسان کا جینا دوبھر ہوگیا، دو سال سے مسلسل لاک ڈائون نے حالت انتہائی خراب کردی ہے۔ آئے دن بڑھتے پٹرول، آسمان چھوتی گیس کی قیمتوں سے عوام تنگ آچکے ہیں اور حکومت اب بھی اپنی کامیابی کا ڈنکا بجا رہی ہے کہ ہم نے کامیاب حکومت کی ہے، اور کامیابی کے ساتھ سات سال مکمل کرچکے ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق جولائی ۲۰۲۱ میں مزید مہنگائی کا امکان ہے ویسے تو پٹرول کی قیمت نے اڈوانی جی کی عمر کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور ۱۰۴ سے لے کر ۱۰۹ تک فی لیٹر فروخت ہورہا ہے، صرف پٹرول کی ہی قیمت نہیں ۲۰۲۱ میں گیس کی قیمت نے بھی گھروں میں آگ لگا دی ہے اور عوام جو پہلے سے ہی مفلوک الحال ہیں کھانے کو ترس رہے ہیں نہ جیب میں پیسہ ہے نہ ہی گھروں میں راشن، پانچ کلو اناج فی ماہ دےکر حکومت حاتم طائی کی قبر پر لات مار رہی ہے۔ یکم جولائی ۲۰۲۱ سے مودی حکومت میں مہنگائی کا ایک اور تحفہ عوام کا منتظر ہے اطلاعات کے مطابق امول دودھ نے اپنے سبھی برانڈ کے دودھ کی قیمتوں میں دو روپئے فی لیٹر کے اضافے کا اعلان کیا ہے جو نافذالعمل ہوچکا ہے۔ رسوئی گیس (ایل پی جی) سلینڈر کے داموں میں ۲۵ روپئے پچاس پیسے کا اضافہ ہوا ہے، دہلی میں ۹۳۴ روپئے پچاس پیسے اور بہار میں ہزار کے پار گیس کی قیمت پہنچ چکی ہے ۔ دودھ اور گیس کے علاوہ عوام کی بچی کھچی ، خون پسینے اور محنت کی کمائی کا جو پیسہ بینکوں میں جمع ہے اس پر بھی اب مزید چارج کا اضافہ کیا گیا ہے ۔

این ڈی اے حکومت نے پتہ نہیں کس طرح مہنگائی کم کی ہے بظاہر تو کمی نظر نہیں آرہی؛ لیکن ڈھنڈوڑا تو اس طرح پیٹ رہی ہے جیسے واقعی عوام کو تمام تر سہولیات میسر ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ کووڈ بحران سے قبل تک تو کہاجاسکتا ہے کہ کچھ راحتیں میسر تھیں؛ لیکن وہ راحتیں آج کے دور کے موازنے میں تھیں منموہن سنگھ حکومت کے دور سے تو بدتر ہی تھیں۔ گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور دیگر ضروری اشیاء کی قیمتوں کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کرنے والی مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی اب کہاں ہیں؟ کیوں نہیں سڑکوں پر چولہا جلا کر عوام کی حمایت میں اتررہی ہیں اتربھی نہیں سکتیں کیوں کہ عوامی محبت نہ منموہن سنگھ کے دور اقتدار میں تھی اور نہ ہی اب ہے۔ بس سیاست تھی، دکھاوا تھا اور حکومت سازی کےلیے راہیں ہموار کرکے عوام کو چونا لگا نا تھا جو لگادیاگیا۔ عوام کو اگر سمجھ ہوتی تو دوسرے ٹرم میں یوں ایک بل سے دوبار نہ ڈسے جاتے؛ لیکن مہنگائی کی مار کے باوجود محض ہندو مسلم کے چکر میں ہیں اور انہیں مندر اور مسجد کے باہر کٹورا لے کر بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ دیاگیا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ کووڈ بحران کی وجہ سے مندرومسجد پر بھی تالا لگا ہے مانگیں تو مانگیں کہاں؟ ۔ اب عوام کا حال یہ ہے کہ جیب انتہائی خالی ہوچکی ہے؛ لیکن پھر بھی گئوکشی، ماب لنچنگ، ہندومسلم ،مندر مسجد، تبدیلی مذہب جیسے شگوفوں میں الجھے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے خون کے دشمن بنے ہوئے ہیں، ادھر سیاست داں جن کا مقصد ہی لڑائو حکومت کرو کی پالیسی ہے آرام سے اپنی ناکامی پر خوش بیٹھے ہیں انہیں علم ہے کہ جب تک یہ آپس میں الجھے ہوئے رہیں گے نہ کوئی ہم سے ناکامی پر سوال پوچھے گا اور نہ ہی ہم جواب دہ ہوں گے یونہی ناکامی کو کامیابی بناکر اس کا جشن مناتے رہیں گے۔ آخر کیاوجہ ہے کہ اتنی شدید مہنگائی کے باوجود بھی نہ کوئی راحت فراہم کی جارہی ہے؛ بلکہ کووڈ بحران کےباوجود عوامی ٹیکسوں سے نئے پارلیمنٹ ہائوس کی کثیر سرمایہ سے تعمیراتی کام جاری ہے۔ ادھر عوام بھکمری کا شکار ہیں۔ نہ ان کے پاس روزی ہے اور نہ ہی روٹی۔ لاک ڈائون نے عوام کی کمر توڑ دی ہے، کورونا کے ڈر سے گھروں میں محصور کیے گئے عوام بھوک سے مر رہے ہیں۔ ہر دن کہیں نہ کہیں سے بھوک سے اہل خانہ سمیت خودکشی کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ حکومت کے پاس نہ کوئی منصوبہ ہے اور نہ ہی اسکیم، بس کھوکھلے وعدے ہیں اور نفرتی ایجنڈے ہیں ۔ اب بھی وقت ہے عوام کو چاہئے کہ ترقیات اور فلاح وبہبود کی بنیاد پر حکومت سازی میں معاون ہوں، نفرت اور دشمنی مسائل کے حل کے لیے موزوں نہیں، مسائل پیارومحبت اور آپسی اخوت سے حل کیے جاتے ہیں۔ ملک میں ہمیشہ ہندو مسلم ساتھ رہے ہیں؛ لیکن آخر کیاوجہ ہے کہ این ڈی اے کے دور حکومت میں نفرت کو فروغ حاصل ہوا اور دونوں ایک دوسرے کے دشمن بن کر ترقی کے دھاروں سے پیچھے ہٹتے جارہے ہیں۔ ملک اسی وقت ترقی کرے گا جب محبت کی فضا عام ہوگی اور آپسی اخوت کا پرچم لہرائے گا۔

Comments are closed.