نماز کی اسپرٹ مار دی گئی ہے۔

 

محمد صابر حسین ندوی

امت اسلامیہ کا امتیاز، معراج اور تمغہ رب ذوالجلال کے سامنے عاجزی و انکساری اور تواضع کے ساتھ دن و رات میں پانچ دفعہ نماز کیلئے کھڑا ہوجانا ہے، جب دنیا مادیت اور الوہیت کی آزمائش میں مبتلا ہو، خود کو دنیا کا مالک و آقا جان کر خود سری پر آمادہ ہو اور سینکڑوں معبودوں کے سامنے اپنی تذلیل کرواتا ہو تو ایسے وقت میں خدائے واحد کے سامنے تذلل و انکساری کا مظاہرہ کرنا، اسے اپنا خالق ومالک کے ساتھ اس کے وجود کا احساس کرنا، اپنی اندرونی کیفیت کو اس کے حوالے کردینا اور اسی پر توکل و اعتماد ظاہر کرنا ایک مسلمان، مؤمن کی شان ہے، نماز جب فرض کی گئی تو اہل مکہ بھی حیران رہتے تھے اور اس طریقہ عبادت پر نہ چاہتے ہوئے بھی رشک کرتے تھے، بہت سی مثالیں موجود ہیں جب خوش نصیبوں نے نماز کی ہیئت اور روحانیت کا دیداد کر کے مشرف بہ اسلام ہوئے، دنیا میں اسلام اور اسلامیت کا پیغام عام کیا، یہ نماز اس عتبار سے بھی قابل ذکر ہے کہ از ابتداء اسلام تا قیامت اسے جوں کا توں رہنا ہے، اس میں ایک رکعت کی بڑھوتری نہیں ہوسکتی، نہ کوئی کمی کی جاسکتی ہے، یہ وہ عملی تواتر ہے جس پر کمی و بیشی کی جرأت کسی فرقے نے نہیں کی اور نہ مستقبل میں کی جاسکتی ہے؛ لیکن اس کی روح پر ہمیشہ ضرب لگانے کی کوشش کی گئی، عہد اول میں منافقین نے اسے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تھا، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے اپنی وفاداری اور ایمانداری ثابت کرنے کیلئے اسے ایک حربہ بنایا تھا، بعد کے ادوار میں معتزلہ، خوارج اور مرجئہ جیسے فرقوں نے نماز کی روح کا استعمال کرتے ہوئے اپنے اپنے فرقے کو تقویت دینے کی کوشش کی تھی، اس کے بعد تاریخی واقعات بتاتے ہیں کہ لگاتار اس سمت پہل کی گئی ہے، آج بھی آپ غور کیجئے! متعدد جماعتوں اور فرقوں نے نماز کی روح کو مات دے کر اپنے اپنے فرقے کی تبلیغ و اشاعت اور اس وقت کو اپنے أغراض و مقاصد حاصل کرنے کا ایک ذریعہ بنا لیا ہے، اور اگر کوئی جماعتی نہ ہو تو پھر انفرادی طور پر بھی یہ فنتہ کم نہیں ہے، آج معاشرے میں یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک شخص نماز کو اپنے تقوی وطہارت، حسن ادائیگی و قراءت اور عوام پر دھونس جمانے؛ نیز اپنی برتری ثابت کرنے کا ایک اچوک ہتھیار بنا چکا ہے، ہمارے اراد گرد ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو نماز کو عبودیت، للہیت اور خشیت کا منبع بنانے کے بجائے اپنی ناموری، شہرت، اور عزت کا حصہ بنانے پر آمادہ ہیں، بعضے اپنی کثرت صلاۃ اور تسبیحات کا یوں تذکرہ کرتے ہیں کہ گویا مدمقابل سے کوئی مقابلہ چل رہا ہے اور اس نے اسے شکست فاش دے دی ہے، یہ روحانیت اور دل کی صفائی کا مرکز کم مادیت کے حصول کا ایک بڑا سبب بنتا جارہا ہے، افسوس صد افسوس! کاش یہ لوگ جانتے کہ نماز کا تعلق دل کے اس تار سے ہے جو براہ راست رب کریم کی کرم فرمائیوں سے جڑتا ہے، اس کی عنایت اور محبت کو کھینچ لاتا ہے –
مولانا وحیدالدین خان مرحوم – نماز کی حقیقت- بیان کی ہے، اس کی روح اور اسپرٹ کا تذکرہ بڑے انوکھے انداز میں کیا ہے جو انسان کو سوچنے پر ابھارتی ہے، آپ رقمطراز ہیں: "یہ عصر کی نماز تهی- امام نے نماز پوری کر کے سلام پهیرا، تهوڑی دیر بیٹهے اور اس کے بعد دعا کر کے اٹهہ گئے- ایک مقتدی نے امام صاحب کو روکا- اور تضحیک کے انداز میں بولے : ” عصر کی نیت کی تهی یا ظہر کی”- یہ سن کر تمام نمازی ہنس پڑے جو پہلے ہی سے امام صاحب کو عجیب معنی خیز نظروں سے دیکهہ رہے تهے- میں نے مزکوره مقتدی سے پوچها کہ کیا بات ہے- انهوں نے جواب دیا ” عصر کے وقت تسبیح (فاطمہ) پڑهی جاتی ہے- مگر امام صاحب نے تسبیح پڑهے بغیر دعا کرلی اور اٹهہ گئے”- خیریت یہ ہے کہ امام صاحب نے کسی قسم کا کوئی جواب نہیں دیا- خاموشی کے ساتهہ اپنے حجره میں چلے گئے- اگر انهوں نے کوئی تیز جواب دیا هوتا تو یقینا بات بڑهتی اور زبانی تنقید باقاعده ہاتها پائی میں تبدیل هو جاتی- یہ ایک مثال ہے جس سے اندازه هوتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان آج کل نماز کا کیا حال ہے- وه نماز کو صرف اس کے ڈهانچے کے اعتبار سے جانتے ہیں- فرق اگر ہے تو صرف یہ کہ کچهہ لوگ ” مسنون ” ڈهانچہ کو نماز سمجهے هوئے ہیں اور کچهہ لوگوں نے مبتدعانہ طور پر اس میں کچهہ غیر مسنون چیزوں کا اضافہ کر لیا ہے- نماز کا بلاشبہ ایک ڈهانچہ ہے- مگر نماز کی اصل حقیقت اس کی اندرونی اسپرٹ ہے، اور یہ اندرونی اسپرٹ خشوع ہے- حتی کہ اگر کسی کی نماز میں ظاہری ڈهانچہ هو مگر اس میں خشوع کی کیفیت نہ پائی جائے تو ایسی نماز حدیث کے مطابق نماز ہی نہیں- ڈهانچہ والی نماز اور خشوع والی نماز کی ایک پہچان یہ ہے کہ جو آدمی ڈهانچہ والی نماز پڑهے، اس کی نظر دوسرے کے نماز پر هوتی ہے- اور جو آدمی خشوع والی نماز پڑهے اس کی نظر اپنی نماز پر- پہلی قسم کا آدمی دوسروں کی نماز میں ” ٹکنکل ” خامی نکال کر ان کے خلاف تقریر کرے گا- اور دوسری قسم کا آدمی خود اپنی نماز کی کمیوں کو سوچ کر چپ رہے گا- وه اپنے احتساب میں اتنا زیاده مشغول هو گا کہ اس کو یہ فرصت ہی نہ هو گی کہ وه دوسروں کی نماز پر تبصره کرے- نماز اللہ کی یاد کا نام ہے، اور اللہ کی یاد کسی آدمی کے اندر جو کیفیت پیدا کرتی ہے اسی کو خشوع کہا گیا ہے- ” (الرسالہ، دسمبر: ٢٠٠٠)

[email protected]
7987972043

Comments are closed.