یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا

محمد نافع عارفی
کارگزارجنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل
موبائل:9304145459
یہودونصاریٰ کی سازشوں،اہل حق سے عداوتوں،توڑجوڑکی کوششوں اوراسلام دشمنی کی داستان سے پوری تاریخ بھری پڑی ہے۔بنوقینقاع،بنونضیرکے ساہوکاریہودیوں ہوں یاخیبرمیں مقیم شاطردماغ بنی اسرائیلی،خودنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمبارک میں شاطردماغ یہودیوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کیں،انصارومہاجرین کوآپس میں دست گریباں کرانے کی ہرممکن جدوجہدکی،قریش مکہ کوبہکاکرمدینہ منورہ پرحملہ کروایا،انہی یہودیوں کی سازشی دماغ کے نتیجے میں غزوہ خندق اوردوسری بہت ساری جنگیں برپاہوئیں،لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفتح سے ہمکنارکیا۔خودقرآن کریم یہودیوں کی نبیوں کے خلاف بغاوتوں،سازشوں نیزاہل حق کے خلاف ریشہ دوانیوں کی شہادت دیتاہے۔عہدرسالت کے بعدخودخلافت راشدہ میں انہی یہودیوں کی سازشوں کے نتیجے میں آپسی جنگیں ہوئیں۔ابن سبایہودی کی ٹولی اسلام کی بیخ کنی اورمسلمانوں کے درمیان عداوت کی تخم ریزی کے لئے ہمیشہ سرگرم عمل رہی ہے اورانہیں کسی بھی قیمت پراسلام اورمسلمانوں کی ترقی،اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حاکمیت قبول نہیں ہے،وہ اس وقت تک ہماری دشمنی سے دست بردارنہیں ہوسکتے جب تک کہ ہم ان کے افکارونظریات اورتہذیب وثقافت میں خود کوضم نہیں کرلیتے ہیں۔اللہ رب العزت نے خودارشادفرمایاہے:’’تم سے یہودونصاریٰ اس وقت تک راضی نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم ان کے طورطریقوں اورشریعت کی پیروی نہ کرو،آپ فرمادیجئیکہ یقیناہدایت تواللہ ہی کی دی ہوئی ہدایت ہے،اوراگرخدانخواستہ آپ نے علم (وحی)کے آجانے کے بعدان کی پیروی کی تواللہ کی جانب سے نہ آپ کاکوئی دوست ہوگااورنہ آپ کامددگار‘‘۔(البقرۃ:120)
ایک مسلمان کے لئے یہ بات بڑی آسان ہے کہ اس کے رگ گلوکو خنجرسے کاٹ دیاجائے،اسے تختہ دارپرلٹکادیاجائییالوہے کے کنگھے سے اس کاگوشت نوچ لیاجائے،لیکن اس کے لئے بڑی مشکل بات ہے کہ وہ ایک لمحے کے لئے اپنے رسول کی پیروی سے روگردانی کرے۔جب ان باتوں کااحساس پورے طورپریہودونصاریٰ کوہوگیااورانہیں سیدھی راہ سے کوئی راستہ نظرنہیں آیاتوانہوں نے فیصلہ کیاکہ دھوکے اورفریب،دغابازی اورچالاکی کے ذریعے ہمارے متاع ایمانی پرڈاکہ ڈالے،چنانچہ کبھی انہوں نے حسین دوشیزاو?ں کے ذریعے مجاہدین اسلام اورعلمائے امت کے ایمان پرڈاکہ زنی کی کوشش کی توکبھی عہدہ اورمال ودولت کیذریعے اپنی مرادحاصل کرنے کی کوشش کی،صلیبی جنگوں کی تاریخ یہودونصاریٰ کی اوچھی حرکتوں سے بھری پڑی ہیجس کے اعادہ کایہ موقع نہیں ہے۔
گذشتہ دوسوسالوں پراگرگہری نگاہ ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوکرسامنے آتی ہے کہ علم اورجمہوریت کے پرفریب نعروں نے ہم سے ہماری اسلامی معاشرت اورطرززندگی چھین لی ہے۔ہمارااسلام اورہماری مسلمانی مسجدوں کی چہاردیواری میں محدودہوکررہ گئی ہے۔جدیدتعلیم کے ذریعے مغرب نے اپنی تہذیب وثقافت اوردین بیزاری،اسلاف کی روایتوں سے بغاوت کوہماری نسلوں کی ذہن وفکرمیں اس طرح پیوست کردیاہے کہ وہ دیوانہ واراپنی ہلاکت کی طرف خوددوڑرہے ہیں۔مشن اسکولوں نے ہمارے نونہالوں کوعلم کالبادہ اوڑھاکران کے دل سے اسلام اورحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کھرچ کھرچ کرنکال دینے کی کوشش کی ہے۔یہ مغرب زدہ دین بیزاراسکول ہمارے بچوں کے ذریعے ہی ہماراسب سے قیمتی سرمایہ ایمان چھین رہاہے اورحیرت ہے کہ ہمیں اس کااحساس تک نہیں ہے۔اپنیبچوں کی ان اسکولوں میں تعلیم پرپھولے نہیں سماتے ہیں۔حکیم شاعراکبرالٰہ آبادی کوغالبااس کابہت پہلے ہی اندازہ ہوگیاتھا،اس لئے اس مردمومن نے کہاتھا:
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا۔۔افسوس کہ فرعون کوکالج کی نہ سوجھی
قرآن کریم کاتعلیم کے معاملے میں موقف بالکل واضح ہے۔اسلام کی نظرمیں دنیاکاکوئی بھی علم جس سے انسانیت کانفع وابستہ ہو،محموداورپسندیدہ ہے۔شرط یہ ہے کہ اس علم کاحصول ربانی بنیادوں پرہو،اوراس کارشتہ اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ ہو۔تکنیکی تعلیم اورٹکنالوجی کے میدان میں ترقی کااسلام مخالف نہیں ہے۔بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو قرآن کریم میں جابجافلکی نظام،تخلیقی اصولوں اورزمین وآسمان اورستاروں کاذکرفرماکراس میں غوروفکراورتدبرکاحکم فرمایاہے۔پہلی وحی جونبی صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئی وہاں صرف پڑھنے کاحکم دیاگیا،کوئی نصاب متعین نہیں فرمایا؛بلکہ پوری کائنات پرغوروفکراوراس کے بارے میں علم کاحصول نصاب قراردیا گیا۔اسلامی تاریخ کی پہلی درس گاہ صفہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے طلباکو کوئی مخصوص اورلگابندھانصاب نہیں پڑھایا جاتا تھا بلکہ اس صفہ میں وہ تمام علوم پڑھائے جاتے تھے ،جس سے انسانیت کا نفع وابستہ ہو اس لیے علم کی دینی اوردنیاوی تقسیم غیر حقیقی اوراسلام کے مزاج کے خلاف ہے،لیکن یہ حقیقت بھی ذہن نشین رہے کہ علم کے فتنے سے محفوظ رہنے کے لیے علم کو ربانی بنیادوں پرحاصل کرنے کا حکم دیا گیا اوروہی علم محمود قرارپایا جو اللہ اوراس کے رسول کی رضا اورخوشنودی کے لیے حاصل کیا گیا ہو،اورجس علم کا مقصد مادیت ،حوس اوردنیا طلبی ہو اس کا انجام جہنم ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :’’تین طرح کے لوگ سب سے پہلے جہنم گھسیٹ کر لے جائے جائیں گے ،ایک ایسا عالم جس نے علم حاصل کیا جسے دنیا عالم کہے ،ایک ایسا فقیہ جس نے فقہی بصیرت حاصل کیاتاکہ دنیا فقیہ کہے ‘‘اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:جس نے طلب دنیا کی غرض سے علم حاصل کیا وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبوبھی نہیں پائے گا۔(ابوداؤدعن ابی ہریرہ)غرض اللہ کی رضا کے لیے حاصل کیا جانے والا ہر علم مبارک ومسعود ہے ،طلب جاہ و دنیا کے لیے جو علم حاصل کیا جائے خواہ اس پر دین لیبل ہی کیوں نہ لگاہوا ہو،وہ محض کار عبث ہے،جس کی حیثیت اللہ کے یہاں کچھ بھی نہیںہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی ہے کہ ایک دورایسا آئے گا کہ لوگوں کے دل عجمیوں کے دل کی طرح ہوجائیں گے ۔(السلسۃ الصحیحۃ :رقم الحدیث3357،المعجم الکبیرللطبرانی:13؍82)اس حدیث میں یا جن روایتوں وآثار میںجہاں عجمی طور طریقے کی مذمت کی گئی ہے،اسے ہم آج کے دورمیں یورپین کلچرسے تعبیر کر سکتے ہیں،اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ غیر عرب دین بیزار ہیں،بلکہ جہاں کہیں بھی ایسی بات کہی گئی ہے اس سے مراد یہود ونصاری کی تہذیب وتمدن کہ اسی مغربی تمدن نوجوان نسلوں کو نہ صرف دین بیزاری ہی نہیں بلکہ بہت سوں کوخدا کامنکر بھی بنادیا،اسی کے بطن سے نیچریت اوردہریت نے جنم لیا ہے،کمیونزم کافرسودہ نظام بھی عجمی بطن کی پیداوار ہے۔
یورپین تہذیب اورمغربی تعلیم کے نتیجہ میں مسلم دنیا میں بے پناہ فتنے پیدا ہوئے،اس نے صالح اسلامی معاشرے کا رخ دہریت اورالحاد کی طرف پھیردیا ،جس کے نتیجہ میں مسلم مسلکوں میں خانہ جنگیاں رو نما ہوئیں،اچھے حکمرانوں کو قتل کیا گیا اوراس کی جگہ مغرب زدہ ،یورپ کے پالتو حکمرانوں کو عالم اسلام پر مسلط کردیاگیا،اسی مغربی تہذیب اورکلچر کے نتیجہ میں شاہ فیصل شہیدکو اس کے بھتیجے فیصل بن مساعد نے قتل کردیا،فیصل بن مساعد شاہ فیصل کے سوتیلے بھائی کے بیٹے ہیں،جن کی تعلیم و تربیت فرانسسکومیںہوئی،کہاجاتا ہے کہ ان کی گرل فرینڈ یہودیہ تھی اوراسی کے دام فریب میں آکر انہوں نے اپنے چچا فیصل بن عبد العزیزکو 25؍مارچ 1975کوگولی ماردی ،پھر انہیں بھی قصاصاً قتل کردیا گیا،گویا شاہ فیصل کی شہادت بھی مغربی تربیت کا عطیہ تھا،عام طورپر شاہان عرب کے بچے امریکہ اوریورپ میں زیر تعلیم ہیں اوران کی دوستی یہودی اورنصرانی حسیناؤں سے ہے اوریہی فتنہ کی جڑہے،جس نے پوری عرب دنیا کو تہذیبی طورپر اسلامی تہذیب و اقدارسے دور کردیاہے اوران ملکوں میں وہ سب کچھ ہورہا ہے ’’جسے دیکھ کے شرمائیں یہود‘‘شاعر مشرق علامہ اقبال نے سچ کہا تھا ۔
وضع میں تم ہو نصاریٰ،توتمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں،جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
اسرائیل کے یارغارامارات کے حکمراں محمد بن زائد بن آل نہیان کی تعلیم وتربیت بھی برطانیہ کے ایک فوجی اسکول میں ہوئی اور 1979میں ان کی وہاں سے فراغت ہوئی ،اسی تعلیم کا اثر ہے کہ آج وہ اسرائیل کی گودمیں بیٹھ کر خود اپنے عرب بھائیوں کی تباہی کاتانابانا بنتے ہیں اورہر محاذ پر اسرائیل کے شانہ بشانہ فسلطین اورامت مسلمہ کے خلاف کھڑے نظر آتے ہیں۔
ضرورت ہے کہ ہمیں ان تاریخی حقیقتوں کو سمجھنا چاہئے اوراپنے نونہالوں کی تعلیم و تربیت کا نظم اسلامی ماحول میں کرنا چاہئے،تاکہ وہ زندگی کے آخری رمق تک اللہ اوراس کے رسول کے حکم کی پاسداری کرتے رہیں،اسی طرح ہمیںاپنے اداروں،ملی جماعتوں،اسکولوں اورکالجوں کا ماحول بھی اسلامی بنانا چاہئے اوراس کی ذمہ داری بھی ایسے ہاتھو ں میں دینی چاہیے جس کی تعلیم وتربیت خالص دینی اورمذہبی ماحول میں ہوئی ہو،تبھی ہم نسل نو کو تہذیبی اورفکری ارتداد سے بچا سکتے ہیں۔

 

 

Comments are closed.