حصول علم میں تنوع ہونا چاہیے!!

 

 

محمد صابر حسین ندوی

 

عبداللہ بن سہل الغرناطی چھٹی صدی ہجری کے عالم ہیں، ان کے بارے میں تذکرہ نویس اخبار غرناطہ میں لکھتے ہیں: "ان کو تفسير، حدیث، نحو میں اختصاص حاصل تھا، اس کے بعد منطق، ریاضیات اور تمام قدیم علوم میں دستگاہ پیدا کرلی تھی، ان علوم میں مہارت کی وجہ سے ان کی بڑی شہرت تھی، اور اس وقت کے نہ صرف مسلمان بلکہ یہود و نصاریٰ کا بھی اتفاق تھا کہ ان کے زمانے میں کوئی ان کے ہم پلہ نہ تھا، نصرانی علماء دور دور سے ان کی خدمت میں ریاضیات اور منطق پڑھنے کیلئے آیا کرتے تھے، کبھی کبھی نصرانیوں کے علماء (قیس – یاء بالتشدید) سے دینی امور پر مباحثہ ہوتا اور مناظرہ کی مجلس ہوتی جس میں شیخ عبداللہ الغرناطی ہمیشہ غالب رہتے” (الاحاطہ:٣/٤٠٤)، شیخ کے علم کا یہ مقام پڑھ کر آنکھوں کے سامنے امت اسلامیہ کے ہونہار علماء کا ماضی دوڑنے لگتا ہے، جب تمام علوم میں انہیں کی قیادت و سیادت ہوا کرتی تھی، وہ مرجع خلائق کی حیثیت رکھتے تھے، کوئی کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو اور کہیں بھی دور دراز علاقے میں رہتا ہو؛ لیکن اس کی علمی تشنگی کا سامان صرف مسلمانوں کے پاس ہوا کرتا تھا، وہ جہاں جاتے علمی قیادت ساتھ لے جاتے، ان کی مجلس جو کوئی بھی بیٹھتا علمی سیادت کے لائق بن جاتا، تاریخ میں ایسے جامع کمالات شخصیت کی کوئی کمی نہیں ہے، چنانچہ یہ بات صد فیصد سچ ہے کہ مسلمانوں نے تعلیمی میدان میں ایسے ہنرمند، صلاحیت مند اور ماہرین زمانہ پیدا کئے ہیں جنہوں نے ماضی میں دنیا کو حیران کردیا تھا، ایک عام شخص بھی اپنی تعلیمی لیاقت کا دائرہ اتنا وسیع رکھتا تھا کہ آج ان کی سوانح پڑھنے والے اسے کہانیوں سے تعبیر کرتے ہیں، بہت سے یکلخت انکار کر دیتے ہیں یا پھر اس زمانے اور ماحول کا عذر لنگ پیش کرتے ہیں، ان کی باتوں سے ایس الگتا ہے کہ گویا وہ کسی دوسرے عالم. کے باشندہ تھے، انہیں کھانے پینے اور حوائج ز دگی کی کوئی ضرورت نہیں ہے، حالانکہ یہ فکر بے بودہ اور بے بنیاد ہے، کیونکہ اگر یہ کوئی اتفاقی معاملہ ہوتا یا پھر انفرادی بات ہوتی تو تاویلیں کی جاسکتی تھیں، مگر عموماً شخصیات کا حال یہ ہے کہ وہ بیک وقت قرآن و حدیث، اسماءالرجال، علم کلام، منطق، طب، سماجیات اور عام سائنس سے لیکر متعدد علوم تک دسترس حاصل ہوتی تھی، پچھلے زمانے میں علم کا مفہوم اتنا وسعت رکھتا تھا کہ کوئی بھی اسے دین و دنیا اور بزرگ و اسلاف کی چھوٹی چھوٹی پابندیوں اور اپنی نادانیوں میں الجھانے کی ہمت نہ کرتا، خلافت عباسیہ کا دور تو اس سلسلہ میں آب زریں سے لکھے جانے کے لائق ہے، اندلس کا دور بھی مسلمانوں کی یہی داستان بتاتی ہے، ائمہ اربعہ کی جامعیت، پھر ابن تیمیہ، ابن قیم، طبری، ابن عساکر، عسقلانی، نووی جیسے علماء کو کون بھول سکتا ہے؟ سلجوقی دور میں بھی مدرسہ نظامیہ کے بارے میں پڑھئے! جہاں طلبہ قرآنی علوم سے بہرہ ور ہوتے تو وہیں علم فلکیات سے بھی روشناس ہوتے، اس سلسلہ خیام کی جدنات کون بھول سکتا ہے، امام غزالی کی جد وجہد کون نہیں جانتا؟ بعض بزرگوں کا حال یہ ہوتا کہ وہ روحانیت کا علاج بھی کرتے اور سائنسی تحقیقات میں اپنا لوہا منگواتے تھے۔

عالم عرب یا ان سے قریبی مسافت والے ممالک نے جو عالی ہمت اور مجمع العلوم افراد پیدا کئے ہیں وہ تو ہے ہمارے سروں کا تاج ہیں، مگر ہمارا ملک ہندوستان (خصوصاً اپنے منقسم دور میں) ایسے علماء کی کمی نہ تھی، صرف شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے متعلق پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ساتھ کئی فن علوم میں مہارت رکھتے تھے، اگرچہ علم اسرار ان کا خاص موضوع تھا، مگر تفسیر قرآن، اصول تفسير، علم حديث ،علم کلام، تاریخی احوال، شخصیات وغیرہ کا موضوع بھی ان کا لازمی حصہ تھا، شاہ عبدالعزیز تو وہ شخص ہیں جنہوں نے علم جہاد بلند کیا، اور ساتھ ہی اپنے والد بزرگوار شیخ محدث دہلوی کی وراثت بھی سنبھالی، علامہ ابوالحسنات فرنگی محلی بھی اپنی کم مدت عمر میں وہ کارنامہ انجام دیا ہے جو قابل رشک ہے، غور کیجئے! یہ مثالیں بہت زیادہ پرانی نہیں ہیں بلکہ تقریباً دو سو سال کا عرصہ ہوا ہے جو قومی تاریخ میں کوئی بڑی اہمیت نہیں رکھتا، اس سلسلہ میں تو مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کا بھی تذکرہ کرنا چاہئے، جنہوں تن تنہا ایک امت کا کام. کیا ہے، کونسا موضوع ہے جس کو ان کے قلم نے نہ چھوا ہو، علوم عقلی سے لیکر نقلی تک ہر میدان میں وہ ایک شہسوار کی طرح نظر آتے ہیں، جو انہیں اپنے زمانے تمام علماء سے منفرد کرتا ہے، مگر حیران کن امر ہے کہ جس طرح تاتاریوں کے حملے کے بعد عالم اسلامی پر سکتہ طاری ہوگیا تھا، زوال کا دور نہ صرف حکومت و سطوت بلکہ اخلاق و علم پر بھی پڑنے لگا تھا؛ اس سے کہیں زیادہ آج مسلمانوں کے مابین علمی انحطاط پایا جاتا ہے، تحقیق و تالیف میں ندرت، حصول علم میں تنوع اور جامعیت نادر ہوگئی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ زمانہ تخصص کا ہے، بقول سیدی أبوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ تخصص اور اخلاص کامیابی کی ضمانت ہے؛ لیکن تنوع بھی ایک مطلوب شئی ہے، قوم میں ایسے عالی اذہان اور اشخاص کا ہونا بے حد ضروری ہے جو ایسی جامعیت کے حامل ہوں جو ایک ساتھ دین و دنیا کی باتیں کریں، قرآن مجید کی تفسیر نہ صرف مرویات سے بلکہ منطقی، سائنسی اور جدید تحقیقی لحاظ سے بھی کریں، احادیث کی روشنی میں زمانے کی باگ ڈور سنبھالیں، ملحد و منکرین کو بتائیں کہ کس طرح سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ ممکن ہے، زمانہ کو کیسے ان سنن کی حاجت ہے، اسی طرح ان میں یہ صلاحیت بھی ہو کہ جدید طبقہ کو مخاطب کر سکیں، ان کے دماغ و فکر اور طریقہ کار کو اپیل کریں، ان کے معیار پر کھرا اتریں، ایک. جزیرے میں بند ہونے کے بجائے وسعت افلاک پیدا کریں، افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں نے ایسا جمود اختیار کر لیا ہے جس میں دین و دنیا کی تقسیم ہے، نافعیت بھول کر وہ چند نصوص اور الفاظ و معانی کے حصول تک مقید ہو کر رہ گئے، حال یہ ہے کہ ان کے تعلیمی ادارے ایسے افراد مہیا کرانے سے قاصر ہیں جو وقت کی نبض تھام سکے، ان کا مداوا کر سکے اور زمانہ کی ستم ظرفی میں ان کی رہنمائی کر سکے، آمنت کی ہچکولے کھاتی کشتی کو کنارے لگا سکے، باطل کا علمی جواب دے سکے، حق کا علم. بلند کر سکے اور یہ بتا سکے کہ اسلام کی ضرورت پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے، اس پر قدامت اور بوسیدگی کا الزام بھونڈا ہے، تعصب اور تشدد کی علامت ہے۔

 

 

[email protected]

7987972043

Comments are closed.