اولیاۓمظاہر کے آستانوں پر

محمد انس بجنوری
آج کا پورا دن عالم اسلام کے عظیم دینی مرکز مظاہر علوم سہارن پور کے سحر میں گزر گیا…..مظاہر علوم سہارن پور بر صغیر کے چند بڑے مذہبی اداروں میں ایک نہایت ممتاز دینی ادارہ ہے….اس ادارے کی تاریخ بھی نہایت شان دار و تابناک ہے… مولانا سعادت علی فقیہ سہارن پوری کا لگایا ہوا یہ پودا حضرت شیخ زکریا کے زریں تدریسی دور میں اس قدر پھلا اور پھولا کہ گویا پورے عالم کے لیے سایہ فگن ہوگیا…..دارالعلوم دیوبند کے بعد "مظاہر علوم سہارن پور” سے بر صغیر کی مسلم عوام کا جو قلبی اور روحانی تعلق ہے وہ کسی بھی دانش مند پر مخفی نہیں….اپنے قیام کے روز اول سے اس ادارے نے اپنی گود میں جن نونہالوں کو پروان چڑھایا اور جن بے مثال شخصیات کو جنم دیا ہے وہ سب اپنی مثال آپ ہیں….مظاہر علوم دیکھنے اور شوق سے دیر تک اس کا معائنہ کرنے کی تمنا ایک عرصے سے تھی….اگرچہ اس آستانے پر یہ میری پہلی حاضری نہیں اس سے قبل بھی دو مرتبہ میں اس ادارے میں حاضر ہوچکا ہوں مگر صرف واجبی طور پر….برق رفتاری کے مانند دو مرتبہ یہاں سے گزر ہوا…..میں چیزوں کو سطحی طور پر پرکھنے کا عادی آج تک نہیں ہوا….میں خوب صورت منظر دیر تک اپنے وجود میں قید کرتا ہوں…منظر کے سامنے بچھ جانا میری ایک خامی ہے…..حرمین شریفین اور قبلہ اول کے بعد میرے دل میں جو عشق اپنے مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے لیے ہے وہ شاید کسی پر مخفی نہیں….مگر دارالعلوم دیوبند کے بعد مظاہر علوم سہارن پور سے میری جو قلبی وارفتگی ہے وہ بھی کسی پر مخفی نہیں ہونی چاہیے…اپنے اسی روحانی مرکز کو قریب سے دیکھنے اور اس چمنستان کی خوشبو سے مشام جان معطر کرنے کے لیے میں سالوں سے بیتاب تھا….اولیاء کے اس شہر میں میرا کوئی قریبی دوست نہیں تھا,نہ کسی سے اتنی بے تکلفی تھی کہ اسے اپنے اس عاشقانہ سفر کا رہبر بنایا جاسکے….مگر آج یہ حقیقت میرے سامنے کھل گئی کہ جب عشق صادق ہو, کسی چیز کو حاصل کرنے کا سچا جذبہ ہو تو رب کریم اس تک رسائی کے اسباب پیدا فرما دیتے ہیں…اتفاق دیکھیے لاک ڈاؤن سے قبل پچھلے دوسال پہلے میرا رابطہ سہارن پور کے ایک طالب علم سے ہوا…..دارالعلوم دیوبند میں گرچہ وہ میرے ہم جماعت نہیں تھے ؛ مگر ایک خاص واقعے نے ان سے ایسا متعارف کرایا کہ ہم میں دوستی کی راہ ہموار ہوگئی….وہ اگرچہ ایک تحریکی طالب علم ہیں اور میں ٹھہرا فقط قلمی میدان میں گھوڑے دوڑانے والا…سو قلم تلوار سے زیادہ طاقت ور نکلا اور ہمارے سادہ حروف و واضح نقوش ہمارے سہارن پوری دوست کے دل میں اثر انداز ہوگئے اور گویا ہم نے اپنے قلم کی طاقت سے ان کے دل کو فتح کرلیا….. سچی بات یہ ہے کہ مجھے اس بندے سے اس کے عزم و ہمت فکری استقامت اور قول و فعل کی یکسانیت کی بنا پر بڑی دل لگی ہے محبت تو ہر اس شخص سے ہو جاتی ہے جو اللہ کے دین کا دفاع کرے…جو قافلہء حجاز کے ان شہسواروں کا وارث ہو جو عرب و عجم پر چھا گئے…دراصل یہ کلمے کا رشتہ ہی کچھ ایسا ہے….ایک اللہ کو پوجنے والے،ایک نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جان وارنے والے،ایک قرآن کی عظمت کے لیے لڑنے والے کروڑوں لوگ جو بغیر رنگ و نسل کی تفریق کے توحید کی لڑی میں پرو دیئے گئے….لیکن بعض اشخاص ایسے ہوتے ہیں جو ہمارے لیے اندھیرے میں روشنی کا کام کرتے ہیں….جن سے انسان خصوصی طور پر متاثر ہوتا ہے…..میرے دوست مولوی بکیر جمیل ایک ایسے ہی نڈر نوجوان ہیں…ایک بات یہ بھی ہے کہ جب آپ کامیاب ہوتے ہیں بہت سارے لوگ اس خوشی کو منانے میں آپ کے ساتھ رقص کرتے ہیں لیکن جب آپ ناکام ہوتے ہیں تو اسے منانے کو ایک آدھ ہی آپ کو اپنے برابر میں کھڑا نظر آتا ہے..۔۔۔ اور میں اس حوالے سے خود کو بے حد خوش نصیب پاتا ہوں کہ دونوں صورتوں میں "بکیر جمیل” کو اپنے گرد پاتا ہوں۔
بکیر جمیل ہی کی دعوت پر آج سہارن پور آنا ہوا اور کھانے وغیرہ دیگر ضروریات پوری کرنے کے بعد ہم عصر سے قبل اس تاریخی قبرستان میں پہنچے جہاں گنج ہائے گراں مایہ دفن ہیں….جہاں مظاہر کی علمی شخصیات,محدثین اور وقت کے سعدی و رومی محو خواب ہیں….مولانا احمد علی محدث سہارن پوری کے مزار پر بھی حاضری ہوئی….مظاہر کے بانیِ اول فقیہ سہارن پوری کی مسجد میں مغرب پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی….خانقاہ یحیوی کے موجودہ منتظم مولانا محمد عثمان صاحب سے بہت مختصر مگر پر اثر ملاقات ہوئی مولانا محمد عاقل صاحب شیخ الحدیث مظاہر علوم جدید کے دولت کدے پر بھی جانا ہوا……یہ سب باتیں تفصیلات کی متقاضی ہیں سو اپنے احساسات قسط وار بیان کرنے کا عزم کرچکا ہوں….دعا ضرور فرمائیں کہ کام بہ حسن و خوبی انجام پاسکے…
یہ بات میں تحریر کرچکا کہ اس سفر کے داعی ہمارے بہت پیارے دوست بکیر جمیل تھے,بکیر جمیل کے پیہم اسرار پر میں نے دارالعلوم دیوبند سے کڑکتی دھوپ میں سہارن پور کے لیے رخت سفر باندھا اور پورے دوبجے دوپہر اپنی قیام گاہ پر جا اترا…..یوں تو مظاہر علوم سہارن پور سے غائبانہ عقیدت کا رشتہ اس وقت سے ہے جب میں "نورانی قاعدہ” کا طالب علم تھا….اس نورانی قاعدے کے مرتب بزم اشرف کے سب سے آخری چراغ, محی السنہ حضرت الشاہ ابرار الحق ہردوئی علیہ الرحمۃ و الرضوان تھے…جنھیں کمال احترام سے ہمارے یہاں "حضرت ہردوئی” کہا جاتا ہے…اباجی مدظلہ سے مولانا کا نام پہلی مرتبہ کب سنا اس کا تو درست علم نہیں ہاں اتنا ضرور یاد ہے کہ مولانا کا نام بہت سنا بار بار سنا اور اتنا سنا کہ حضرت ہردوئی سے منسوب ہر ایک چیز میرے لیے توجہ کا مرکز اور التفات کی آماجگاہ بن گئی…اباجی چوں کہ حضرت ہردوئی والے سلسلے سے بیعت و ارشاد کا تعلق رکھتے ہیں اور حضرت ہردوئی کے آخری ایام میں زیادہ تر خانقاہ ہی میں مقیم رہے ہیں اس لیے حضرت ہردوئی کے اس علمی مرکز مظاہر علوم سے گھریلو طور پر اس راقم کا جو تعلق ہے وہ بالکل ظاہر ہے….
دوسری چیز جس نے تعلقات کی راہ ہموار کی اور مظاہر علوم کی روشن تاریخ سے مزید قربت بخشی وہ محدث جلیل مولانا نسیم غازی رحمہ اللہ کی شخصیت تھی…مولانا نسیم غازی ایک باکمال محدث,خطابت کے ماہر اور علمی رموز کا گہرائی سے درک رکھنے والے جید عالم دین تھے…وہ علمی طور پر جتنے بلند پایہ محدث تھے اتنے ہی بڑے متکلم و مناظر بھی…اپنے علاقے میں ان سے زیادہ متوازن,بااثر اور گرج دار عالم دین میں نے نہیں دیکھا…وہ بھی مظاہر علوم سہارن پور کے فارغ التحصیل اور حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب مہاجرمدنی کے خصوصی تلامذہ میں تھے….یہ دو وجوہات ہیں جنھوں نے مظاہر علوم کے تعلق سے عشق کی آگ میرے سینے میں پیوست کردی تھی….پھر جب مزید شعور کی زندگی میں قدم رکھا اور حالات کے تیز بہاؤ نے ہمیں دارالعلوم دیوبند کا طالب علم بنایا تو سہارن پور کے بارے میں ہماری معلومات کا دائرہ بھی تدریجی طور پر وسیع ہوتا رہا…..البتہ مظاہر علوم کی بنیادی اور حقیقی تاریخ سے واقفیت اس وقت ہوئی جب دارالعلوم دیوبند کی ممتاز اور مقبول عام انجمن "مدنی دارالمطالعہ” کی طرف سے حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارن پوری رحمہ اللہ کی حدیثی خدمات پر تحریری مسابقہ کرایا گیا…..جس میں ہم نے بھی نہایت دلچسپی سے حصہ لیا اور مظاہر علوم کے حوالے سے ہر دستیاب کتاب کو ہم نے خوب پڑھا….پھر کیا تھا حدیث کے میدان میں مظاہر علوم کا پلڑا بہت بھاری نظر آیا….تاریخ کے صفحات گھنگالتے ہوئے ہماری نظر عظیم محدث مولانا احمد علی سہارن پوری پر پڑی,مولانا احمد علی سہارن پوری کے بارے میں پڑھ کر ان کے حالات سے رسمی واقفیت کے بعد جو تأثر ذہن میں ابھرا وہ بلامبالغہ یہی تھا "أولئک آبائی فجئنی بمثلھم” اتنا بڑا محدث کہ جس کے شاگردوں میں بریلوی مکتب فکر کے بڑے بزرگ پیر مہر علی شاہ کا نام آتا ہے…. مظاہر علوم کے بانیان میں سے مولانا مظہر نانوتوی بھی آپ ہی سے تلمذ کا رشتہ رکھتے ہیں اور اسی پر بس نہیں خود دارالعلوم دیوبند کے بانی حضرت نانوتوی رحمہ اللہ نے آپ سے علم حاصل کیا ہے….اس تازہ سفر میں اس عظیم محدث کی مرقد پر بھی حاضری لگوانا مقصود تھا….بکیر جمیل کے ہمراہ ہم نے وہاں کا بھی سفر کیا….شوق کے قدموں سے چل کر ہم مظاہر علوم سے تین کلو میٹر دور سہارن پور سے ملحق ایک بستی میں پہنچے جہاں ہم نے اس بزرگ کو شہر خموشاں میں مقیم پایا….اتنی عظیم نسبتیں رکھنے والا یہ بزرگ…ہندوستان میں کتب حدیث کا اولین کتب خانہ قائم کرنے والا یہ ناشر….دہلی کے عروج و زوال کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والا یہ فنکار…سہارن پور اور دیوبند کے بزرگوں کا یہ استاذ اس قدر بے التفاتی کا شکار کیوں ہوگیا؟ وہ جس نے دوسروں کی بزم میں روشنی کے قمقمے جلائیں اسے اتنے اندھیرے میں کیوں رکھا گیا….بکیر جمیل نے بتایا کہ اب سے دوسال قبل تک یہاں کباڑا پڑا رہتا تھا….چاروں طرف وحشت و خموشی کا راج تھا…ان کے بہ قول مسلسل توجہ دلانے پر پچھلے سال وہاں پر کتبہ لگا ہے….لوگ آس پاس سے یوں ہی گزر جاتے ہیں اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ یہاں وہ عظیم انسان محو خواب ہیں کہ جس کے فیض سے دارالعلوم دیوبند,مظاہر علوم سہارنپور اور گولڑہ شریف کے چراغ روشن ہیں….ہم نے اگرچہ اس محدث کو بھلادیا لیکن اس کا روشن کیا ہوا چراغ صبح قیامت تک جلتا رہے گا
مغرب کا وقت ہو چلا تھا..ہم نے اپنے رفیق کو ساتھ لیا اور نم آنکھوں کے ساتھ مولانا سعادت علی فقیہ سہارن پوری والی مسجد کی طرف چل پڑے….
جاری….
Comments are closed.