امید کی ایک نئی کرن حضرت مولانا سید احمد ولی فیصل رحمانی خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشین، جامعہ رحمانی کے سرپرست ،جانشین امیر شریعت سابع، حضرت مولانا سید احمد ولی فیصل رحمانی صاحب دامت برکاتہم سے کل پٹنہ میں ایک خوشگوار ملاقات ہوئی۔

 

اسلم رحمانی

مقام: مجھولیا، ڈاکخانہ پارو،ضلع مظفرپور ،بہار

دنیا میں کچھ ایسی نابغۂ روزگار شخصیتیں بھی ہیں ان میں سے کسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ میں ایک انجمن ہیں، کسی کے لئے کہا جاتاہے وہ اپنی ذات میں ایک مکمل ادارہ ہیں، کس کی ذات میں یہ بات صادق آتی ہےکہ وہ چلتی پھرتی اکیڈمی ہیں کس کو علم و دانش کا بحر ذخّار قرار دیاجاتا ہے، کس کی شخصیت کو سراپا تنظیم کانام دیاجاتاہے اور کس کو میدان عمل کا شہسوار، مثالی شخصیت اور نمونہ قرار دیا جاتاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جانشین امیر شریعت سابع مفکر ملت حضرت مولانا سید احمد ولی فیصل رحمانی صاحب دامت برکاتہم سجادہ نشین خانقاہ رحمانی مونگیر کی کثیر جہتی شخصیت اور ہمہ گیری کے تعلق سے یہ تمام الفاظ اپنے آپ میں ناقص اور ادھورے نظر آتے ہیں اپنی تمام تر جامعیت اور وسیع معنویت کے باوجود یہ تمام الفاظ مل کر بھی حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کی خوبیوں کا احاطہ نہیں کر سکتے۔

مولانا سے راقم کی روایتی ورسمی نظر سے نہیں، بلکہ خوش اعتقادی اور نگاہ شوق و اشتیاق سے پہلی مرتبہ مورخہ 7/ جولائی 2021 کو بہار کی دارالسلطنت پٹنہ میں دید وزیارت ہوئی۔یکا و تنہا نہیں۔ بلکہ امیر شریعت سابع مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب نوراللہ مرقدہ وقدس سرہ العزیز کے عزیر خادم خالد رحمانی مظفرپوری، احتشام رحمانی مونگیری اور انصاف منچ بہار کے ریاستی نائب صدر ظفر اعظم بھی موجود تھے۔

راقم نے ان کو دیکھا۔جیسا سنا تھا اس سے بڑھ کرپایا۔ آپ بڑے باپ کے بیٹے ہی نہیں ہیں خود بھی بڑے ہیں۔بہت بڑی بڑی نسبتوں کے مالک،بڑے قدآور،بڑے حوصلہ منداور بہت بہادر اور نڈر ہیں، آپ ان بڑوں میں سے نہیں ہیں جو چھوٹوں کو بڑا نہیں بننا دینے چاہتے بلکہ آپ ان مایہ ناز لوگوں میں سے ہیں جو مس خام کو کندن بنانے کا گُر جانتے ہیں۔ان کا ایک بڑا وصف یہ بھی ہے کہ مسائل میں مصالحت کے قائل نہیں ہیں۔سیاہ کو سفید کہنا ان کی فطرت کے خلاف ہے۔بات کہنے کا انداز وہی ہے جو اہل حق کا ہوتا ہے۔میری خوش قسمتی ہےکہ مجھے ان کی زیارت کی سعادت نصیب ہوئی۔
مولانا نے اس حقیر سے جس حسن اخلاق کے ساتھ گفتگو کی میں اسے لفظوں میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔

اسوۂ بنوی کی سچی تصویر

اخلاق کسی بھی قوم کی زندگی کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہو۔اخلاق دنیا کے تمام مذاہب کا مشترکہ باب ہے جس پر کسی کا اختلاف نہیں ۔ انسان کو جانوروں سے ممتاز کرنے والی اصل شئے اخلاق ہے۔اچھے اور عمدہ اوصاف و ہ کردار ہیں جس کی قوت اور درستی پر قوموں کے وجود، استحکام اور بقا کا انحصار ہوتا ہے۔ معاشرہ کے بناؤ اور بگاڑ سے قوم براہ راست متاثر ہوتی ہے۔ معاشرہ اصلاح پذیر ہو تو اس سے ایک قوی، صحت مند اور با صلاحیت قوم وجود میں آتی ہے اور اگر معاشرہ بگاڑ کا شکار ہو تو اس کا فساد قوم کو گھن کی طرح کھا جاتا ہے۔جس معاشرہ میں اخلاق ناپید ہو وہ کبھی مہذب نہیں بن سکتا، اس میں کبھی اجتماعی رواداری، مساوات،اخوت و باہمی بھائی چارہ پروان نہیں چڑھ سکتا۔

اسلام میں ایمان اور اخلاق 2 الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔ ایک مسلمان کی پہچان ہی اخلاق سے ہے ۔ اگر اخلاق نہیں تو مسلمان نہیں۔یہ ہو نہیں سکتاکہ ایک مسلمان ایمان کا تو دعویٰ کرے مگر اخلاقیات سے عاری ہو۔ہمارے پیارے نبی کریم کائنات میں اخلاقیات کاسب سے اعلیٰ نمونہ ہیں جس پر اللہ کریم جل شانہ کی کتاب ِ لاریب مہرتصدیق ثبت کر رہی ہے۔

اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ ( القلم4)۔
’’بے شک تم بڑے عظیم اخلاق کے مالک ہو۔‘‘
اورایسا کیوں نہ ہو آپ مکارم اخلاق کے اعلیٰ معارج کی تعلیم و تربیت اور درستگی کے لیے مبعوث فرمائے گئے ۔جیسا کہ خودآپ مالک ِ خلق عظیم فرماتے ہیں ۔’’میں اعلیٰ اخلاقی شرافتوں کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں۔‘‘(حاکم ، مستدرک)۔
یعنی میں اعلیٰ اخلاق کی تمام قدروں کو عملی صورت میں اپنا کر، اپنے اوپر نافذ کر کے تمہارے سامنے رکھنے اور ان کو اسوہ حسنہ بنا کر پیش کرنے کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں۔
ہمارے آقا و مولا کی پوری زند گی پیکر ِ اخلاق تھی کیونکہ آپ نے قرآنی اخلاقی تعلیمات سے اپنے آپ کو مزین کر لیا تھا۔ آپ کا اخلاق قرآن کے احکام و ارشادات کا آ ئینہ تھا، قرآن کا کوئی خلق ایسا نہیں ہے جس کو آپ نے اپنی عملی زندگی میں نہ سمو لیا ہو۔اسی لیے قرآن کریم میں اللہ عزوجل نے ہمیںنصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب21)۔
’’بے شک تمہارے لیے اخلاق کے اعلیٰ معارج کی تکمیل کرنے کیلئے رسول اللہ کی پیروی کرنے میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘
ایمان و عبادت کی درستگی کی عملی نشانی صحت اخلاق ہے بلکہ عبادات و تعلیمات اسلامی کا لب لباب اخلاق کو سنوارنا اور نکھارنا ہے جس کی تائید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی سے ہوتی ہے۔
اَکْمَلُ الْمُوْمِنِیْنَ اِیْمَانًا اَحْسَنُہُمْ خُلُقًا۔
’’مسلمانوں میں کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جس کا اخلاق سب سے بہترین ہو۔‘‘
ایک اور حدیث مبارکہ ہے ۔
’’تم میں بہتر وہ ہے جو تم میں اخلاق کے ا عتبار سے بہتر ہے۔‘‘
الحمدللہ آپ کی زندگی اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ اور اَکْمَلُ الْمُوْمِنِیْنَ اِیْمَانًا اَحْسَنُہُمْ خُلُقًا کی عملی تفسیر ہے۔

مولانا کی گفتگو سے یہ محسوس ہواکہ آپ ایک عظیم اسلامی مفکر، صاحب طرز ادیب، وتجزیہ نگار، عربی زبان وادب کے رمز شناس، حکیم ،ومغربی فکروفن اور معاصر تہذیب وتمدن کے ماہر وناقد،اسلام اور یورپ کی قدیم وجدید تاریخ کے واقف کاراور مغربی ومادی افکار ونظریات ، اسلام مخالف رجحانات وتحریکات اور مسلمانوں کولاحق خطرات ومشکلات کو سمجھنے والے اسلامی اسکالر اور مصلح ہیں، فکر میں ان کی سلامتی ہے، عمل میں استقامت ہے ، رائے میں اصابت ہے، طریقہ کار میں اعتدال وتوازن ہے،حالات وواقعات کی تحلیل وتجزیہ میں فراست ایمانی کارفرما ہے، اسلامی فکرودعوت، تعلیم وتربیت، تحریروکتابت، عربی زبان وادب ،صحافت، تاریخ، نقد ادبی، فکری وتہذیبی یلغار، عربی زبان وادب کے مراجع ومصادراور معاصر تاریخ پرمولانا کی گہری نظر ہے،اسی طرح مغربی فکروفن،مغربی تہذیب وتمدن، مغرب کی تخریبی تحریکات ورجحانات اور افکار ونظریات پر عقابی نظر رکھتے ہیں اور مغرب کو براہ راست دیکھا ہے اور مطالعہ کیا ہے، مولانا کی فکری، دعوتی، اصلاحی اور تجزیاتی گفتگو اس کا بین ثبوت ہے۔

مختصریہ کہ مولانا کی شخصیت علم وعمل، عقل وحکمت،فکروتدبر، حسن اخلاق اور حسن عمل کی جامع شخصیت ہے،علم وحکمت،فکروثقافت، دانش وآگہی اور ادب وصحافت مولانا کی دلچسپی کا سامان ہے،مولانا کے اوقات ذکروتلاوت میں مشغول رہتےہیں، فضول گوئی، مجلس آرائی سے پاک ہیں، یا پڑھنے پڑھانے اور استفادہ وافادہ میں مصروف یا پھر تحریر اور دوسروں کی تربیت ورہنمائی سے مطلب ہے، دوسروں کی عیب جوئی تو بہت دور کی بات ہے، آپ کے یہاں تو ان مباح امور کی بھی گنجائش نہیں ہے، جو نہ دنیا میں سود مند اور نہ ہی آخرت میں کارآمد ہو۔
مولانا کی زندگی مثالی ہے، زہد وتقوی شعار ہے، تواضع وانکساری مزاج پر غالب ہے، کم آمیزی وکم گوئی طبیعت ثانیہ ہے، عیب جوئی کا گزر نہیں، ریا کاری اور نام ونمود سے کوسوں دور ہیں اوراسوۂ نبوی کی سچی تصویر ہیں ۔

Comments are closed.