آج کا جوان آخر کیوں پریشان

 

از قلم: علیشاء بٹ

ڈپریشن اور اینزائٹی پاکستان میں تیزی سے پھیلنے والے امراض یا مسائل میں شامل ہیں،جن کا سب سے زیادہ شکار نوجوان نسل ہے ـ پاکستانی معاشرے میں ذہنی امراض کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے، جس کی ایک بڑی وجہ ہمارا فرسودہ سماجی نظام ہے ،جہاں اولاد یا رشتوں سے زیادہ روایات، رسوم اور باہر والوں کی آرا کو اہمیت دی جاتی ہے اور معمولی سے لے کر شدید نوعیت کے نفسیاتی امراض کو گھروں میں ہی دبادیا جاتا ہے۔
وقتاً فوقتاً ہم سب اداسی، مایوسی اور بیزاری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ عمو ماً یہ علامات ایک یا دو ہفتے میں ٹھیک ہو جاتی ہیں اور ہماری زندگیوں میں ان سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ کبھی یہ اداسی کسی وجہ سے شروع ہوتی ہے اور کبھی بغیر کسی وجہ کے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ عام طور سے ہم خود ہی اس اداسی کا مقابلہ کر لیتے ہیں۔بعض دفعہ دوستوں سے بات کرنے سے ہی یہ اداسی ٹھیک ہوجاتی ہے اور کسی علاج کی ضرورت نہیں ہوتی۔لیکن طبّی اعتبار سے اداسی اس وقت ڈپریشن کی بیماری کہلانے لگتی ہے جب اداسی کا احساس بہت دنوں تک رہے اور ختم ہی نہ ہو اور اداسی کی شدت اتنی زیادہ ہو کہ زندگی کے روز مرہ کے معمولات اس سے متاثر ہونے لگیں۔
پاکستان میں بہت سی وجوہات ہیں، جس کی بنا پر نوجوان نسل اس ذہنی دباؤ کا شکار ہوتی ہے۔ مثلاً:
آج پاکستان میں ذہنی دباؤ کا شکار نوجوان نسل کو یہ بات اندر ہی اندر ختم کر دیتی ہے کہ ان کے ماں، باپ ان کی بات سے زیادہ باہر والوں کی باتوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ ان پر اعتبار نہیں کرتے، اعتماد، بھروسہ سب چکناچور ہو جاتا ہے۔
• اپنی اولاد کا ہمیشہ دوسروں سے معائنہ کرنا
یہ وجہ بھی آج پاکستان میں 100 میں سے 90 فیصد ماؤں میں ہے کہ وہ ہر وقت ہر دوسری چیز پہ اپنے بچوں کو دوسروں کی مثالیں دے کر انہیں احساسِ کمتری کا شکار بناتی ہیں۔ وہ دیکھو پروین کے بیٹے نے تم سے زیادہ مارکس لیے ہیں ، تمہارا اس سے ایک پورا ایک نمبر کم ہے تف ہے بھئ محنت نہیں کرنی، کیا کروں میں اللّٰہ اللّٰہ، وہ دیکھو شبانہ کی بیٹی کیسے لشکارے مارتی ہے انہیں تو لائٹ جانے پر کسی لالٹین کی ضرورت ہی نہیں پڑتی، تم بھی کوئی فائزہ بیوٹی کریم لگاؤ، کوئی ٹیکے شیکے لگواؤ تاکہ تم بھی لشکارے مارو بھئ، نصرین کی بیٹی دیکھی ہے کیسے سارا گھر سنمبھالا ہوا ہے وہ بھی تو پڑھتی ہے تم یہ چند کتابیں پڑھ کر کوئی تمغا امتیاز نہیں حاصل کرلو گی اور یہاں میں آپ کو بتاتی چلوں کہ دوسری طرف آنٹی نصرین کی بیٹی کوئی اسپیشل قسم کی کاہل دوشیزہ ہوتی ہے۔
• ماں باپ کے باہمی تعلقات کا بگڑنا
"یا اللّٰہ! میری ماں کو بس یہی پاگلوں کا خاندان دکھا تھا”
یہ جملہ اکثر آپکو اپنے گھروں میں سننے كو مِلتا ہے جب بھی آپکی امّا حضور غصے میں اپنے سسرالیوں سے تنگ آکر کسی نہ کسی بات پے اپنے شوہر کے سامنے قصیدے پڑرہی ہوتیں ہیں۔ اور اسی بات سے شروع جگھڑے آسمانوں کو چھونے لگتے ہیں۔ زرا سوچیے! بچہ ابھی ماں کی آغوش میں ہی پل رہا ہے، سیکھ رہا ہے، وہ ایسے گھر کے ماحول کو دیکھ کر کیا سیکھے گا اُس کا ذہن تو چھوٹا ہوتا ہے ،اُس پہ دباؤ تو پڑے گا، لیکن ایک دن ایسا آئےگا، اُس کی برداشت سے باہر ہوگا اور وہ نفسیاتی مریض کہلاۓ گا۔ پاگل پن کے دورے پڑے گے، اپنے آپ میں نہیں رہے گا وہ، ڈپریشن میں جائےگا، ذہنی بحران کا شکار بن جائیگا۔ گھر کا ماحول بچوں کو بہت متاثر کرتا ہے، اگر ماحول پُر امن، خوش گوار ہوگا تو آگے بچے میں بھی برداشت، خوشیاں اور امن و امان کے عنصر دکھائی دیں گے اور وہی دوسری طرف اگر ماحول جہاں صبح اُس کی آنکھ گالی گلوچ سے کھلے اور رات اونچی اونچی چیخ و پکار سے سنتے بند ہو تو وہ خود بخود چڑچڑا، غصے والا، سکون کو برباد کرنے والا اور امن و امان سے بہت دور ہوگا۔
سقراط نے آج سے 2500 سال پہلے مشورہ دیا تھا کہ جسمانی اور ذہنی بیماروں کو رومانوی تعلقات کی اجازت ہونی چاہیے، لیکن بچے پیدا کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، تا کہ ایک صحت مند ریاست میں صحت مند بچے ہی پیدا ہوں۔ ایران کی حکومت میاں بیوی سے یہ تقاضا کرتی تھی کہ وہ شادی سے پہلے ڈاکٹر سے ٹیسٹ کروائیں کہ وہ جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند ہیں۔ یہ بات بتانے کا مقصد یہی ہے کہ آج بیٹی ہو یا بیٹا کوئی بھی بیماری ہو ذہنی یا جسمانی اُسکا علاج کروانے میں کتراتے ہیں، شرم محسوس کرتے ہیں کے ” لوگ کیا کہیں گے” لیکن اُس بیماری کو رکھتے ہوئے کسی اور کی زندگی کو برباد کرتے ذرا تنکا برابر بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔
بیٹی اگر ذہنی بحران کا شکار تو اُسکا علاج کروانے کے بجائے اُسکی شادی کروا دینا زیادہ مناسب سمجھا جاتا ہے، اور اسی طرح اگر مرد ذہنی یا جسمانی بیماری میں مبتلا ہو تو وہ بھی اُسکا علاج کروانے میں شرم محسوس کرتا ہے جب کے شرم و جھجک اس کا علاج نہ کروانے میں آنی چاہیے۔ اس طرح کے مرد کے اہل و عیال والے اُس کا علاج کروائیں بغیر اُس کی شادی کروا دیتے ہیں "چلو کوئی گل نئی آپی شادی تو بعد سئ ہوئیے گا” اور دوسری طرف لوگ اپنی بیٹی آرام سے ایسے لوگوں کو دے دیتے ہیں یہ جانے بغیر کے آگے یہ بیٹی اپنا گزارا کیسے کرے گی؟ جب آئے دن وہاں لڑائی جھگڑے، مار پیٹ یہ سب ہوگا تو کیسے چلے گا اور آگے آنی والی نسلیں اِس سے کتنا متاثر ہونگی۔ یہی وجوہات ہوتی ہیں کہ شادی اپنی خوشیوں کی بہار دکھانے سے پہلے ہی مرجھا جاتی ہے۔
آج اگر کوئی اپنی اس کیفیت کا اظہار کسی دوست یہ گھر میں ہی کسی سے کرے تو ۱۰۰ میں سے ۹۰ فیصد اسے مذاق کا رنگ دے دیتے ہیں اور مریض اس کی وجہ سے اور زیادہ اپنی اس بیماری کی گہرائ میں گھستا چلا جاتا ہے، کیوں کے اسے کوئی بھی نہیں مل رہا ہوتا جو اُسے سنے، اُسے سمجھے، اسی لیے نفسیات کے ڈاکٹر سے رابطہ لازمی ہے، کہ وہ آپکو سنتا ہے، سمجھتا ہے اور اس کا علاج آپ کو بتاتا ہے۔ پاکستان میں نفسیات کے ڈاکٹر کو پاگلوں کا ڈاکٹر سمجھا جاتا ہے ،اسی بنا پر پھر اُس ڈاکٹر کے پاس جانے سے سب کتراتے ہیں، کہ جی لوگ کیا کہیں گے، میں پاگل ہوگیا ہوں، جو نفسیات کے ڈاکٹر کے پاس جا رہا ہوں۔ خدارا! بات کو سمجھیں، لوگوں سے زیادہ آپ کے لیے اپنی جان قیمتی ہونی چاہیے۔ یہ لوگ ہر موڑ پر، ہر چوراہے پہ کھڑے طعنے کستے آپکو ملیں گے۔ ان کا کچھ نہیں جائے گا وہ وہی کھڑے رہیں گے، آپ جائیں گے، آپ کے بعد کسی اور پر اُن کی نظر کرم ہوجائےگی۔ لیکن آپ کی زندگی برباد ہوجائےگی۔ ماہر نفسیات کے پاس جانے کی کیا شرم، وہاں آپ نے اپنے دل کو ہلکا کرنا ہوتا، وہاں آپکو سننے والا موجود ہوتا، آپ کو سمجھانے والا موجود ہوتا، خدا نخواستہ وہاں وہ آپ کو جھٹکے نہیں دیتے ،جو آپ ڈاکٹر کے پاس جانے سے جھجک محسوس کرتے ہیں۔
اس چیز کو یہ سیشنز لینے کو اگر ہم ہی عام نہیں کریں گے تو کون کرے گا ؟اگر آپ سے کوئی بھی اس بارے میں بات کرے یہ نفسیات کے ڈاکٹر کا پوچھے تو اسے کوئی عجوبہ نہ سمجھے، بلکہ اُس کی رہ نمائی کرے ،تاکہ کل کو وہ بھی کسی کی رہ نمائی کرے اور اس طرح قوم بہتری کی طرف جا سکتی ہے۔
اللہ ہم سب کو اس ڈپریشن نامی چیز سے دور رکھے، اپنے حفظ و امان میں رکھے آمین یارب العالمین۔

Comments are closed.