لہو الحدیث سے کیا مراد ہے؟

محمد صابر حسین ندوی
اللہ تبارک و تعالی مسلمانوں کو ایک ایسی زندگی دینا چاہتے ہیں جس میں وہ لایعنی باتوں سے بھی پرہیز کریں، ان کے اخلاق و اطوار پر نشتر چلانے والی ہر چیز کند ہوجائے، ذہنی فتور، دماغی خلل پیدا کرنے والی تمام چیزیں دور ہوجائیں، وہ ایک پاک صاف اور ستھرے معاشرے میں زندگی بسر کرے، فکر میں جوانی اور عادات میں تابانی ہو، ان کے ہر عمل و قول سے یہی جھلکتا ہو کہ وہ ایک اللہ کے بندے، اس کے حکم و اطاعت کے پابند اور انسانیت کیلئے رحمت ہیں، ان کے کسی بھی اقدام سے رب ذوالجلال کی توہین تو دور اس سے غافل کرنے والی بات وجود میں نہ آیے، وہ ایک بہتر اور اعلی مسلمان ہے، اسلامی احکام میں بھی اس کا خیال رکھا گیا ہے کہ ایک مسلمان کیلئے ایسے اعمال سرزد نہ ہوں جو انہیں مجروح کردیتے ہوں، وہ اگرچہ فی نفسہ جائز بھی ہیں تب بھی وہ اس لئے نامناسب قرار دے دیے جاتے ہیں کہ وہ اللہ تعالی سے انسان کو غافل کرتے ہیں اور ایک مسلمان کی شخصیت کو گرد آلود کردیتے ہیں، قرآنی زبان سے اسے لہو الحدیث کہا جاتا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ ٭ۖ وَّ یَتَّخِذَہَا ہُزُوًا ؕ اُولٰٓئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّبِیْنٌ – (لقمان:٦) "اور بعض لوگ ( اللہ سے ) غافل کردینے والی باتیں خرید کرتے ہیں ؛ تاکہ بغیر سمجھے بوجھے اللہ کے راستہ سے ہٹادیں اور اس کا مذاق اُڑائیں ، ایسے ہی لوگوں کے لئے رُسوا کن عذاب ہے ۔” دراصل لہو کے معنی ایسی بات یا چیز کے ہیں ، جو انسان کو غافل کردے ؛ اسی لئے وہ تمام باتیں اس میں شامل ہیں ، جس میں دین و دنیا کا کوئی فائدہ نہ ہو ’ یشتری‘ کے معنی تو خریدنے کے ہیں ؛ لیکن چوں کہ خریدار قیمت ادا کرکے ایک چیز کی ملکیت کو اختیار کرتا ہے ؛ اس لئے اس کے معنی اختیار کرنے کے بھی ہوسکتے ہیں ، قرآن میں بعض جگہ یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے : ’’ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰی‘‘ (البقرۃ : ۱۶) یہاں بھی یہی معنی مراد ہے کہ بعض لوگ غفلت میں ڈال دینے والی چیزوں یا باتوں کو اختیار کرلیتے ہیں ، اس آیت کے نازل ہونے کا پس منظر یہ ہے کہ نضر بن حارث ایران کے بادشاہوں کے واقعات پر مشتمل کتابیں خرید کر لاتا ، اسے اہل مکہ کو سناتا ، اور کہتا کہ یہ اس کلام سے بہتر ہے ، جو محمد پیش کرتے ہیں ، کبھی ان کو اسلام سے دور کرنے کے لئے اپنی باندیوں سے گانے وغیرہ بھی سنواتا اور سب کا مقصد یہ ہوتا کہ لوگ قرآن مجید کی طرف سے بے توجہ ہوجائیں ، (تفسیر قرطبی : ۱۴؍۵۲) چنانچہ ’’ لہو الحدیث ‘‘ (غفلت میں ڈالنے والی بات) میں گانا بجانا شامل ہے ، جیساکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ نے فرمایا -( قرطبی : ۱۴؍۵۳)
مگر اس کے علاوہ وہ تمام طریقے جو انسان کو غفلت میں ڈال دینے والے اور خواہش پرستی کی طرف لے جانے والے ہوں ، سب اس میں شامل ہیں ، خواہ یہ گانے بجانے کی شکل میں ہو ، جھوٹی کہانیوں ، فرضی افسانوں اور ناولوں کی شکل میں ہو ، یا ڈراموں ، نفسانی جذبات کو اُکسانے والی فلموں ، عشقیہ اشعار یافحش لطائف کی شکل میں ، یہ تمام باتیں اور ان کے لئے منعقد کی جانے والی مجلسیں ’’ لہو الحدیث ‘‘ میں شامل ہیں اوردرجہ بدرجہ اپنے نقصانات کے اعتبار سے حرام یا مکروہ ہیں ، مفسرین اور فقہاء نے اس سلسلہ میں جو کچھ لکھا ہے ، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر اشعار یاکتاب یا گانے بجانے میں دین کا مذاق اُڑایا جائے تو کفر ہے ، دوسرے : مزامیر یعنی باجوں کے ساتھ گانا اور ان کو سننا بھی حرام ہے اور وہ بھی اس میں شامل ہے ، ( کتاب الاختیار للموصلی : ۴؍۱۶۵) تیسرے : ایسی کہانیاں ، اشعار ، مشاعرے ، اور کھیل جو فرائض سے بےتوجہ کردینے والے ہوں مکروہ تحریمی ہیں ، چوتھے : غیر محرم عورتوں سے گانا سننا حرام ہے ، (عنایہ شرح ہدایہ : ۷؍۴۰۸) پانچویں : ایسے اشعار کا سننا یا سنانا جس میں اچھی باتیں ہوں جائز ہے : ’’ ولو فیہ وعظ وحکمۃ فجائزاتفاقاً‘‘ ( روح المعانی : ۲۱؍۶۹) چھٹے : اگر آدمی اپنے آپ میں سکون خاطر کے لئے گنگنالے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں : ’’ وفی الدر المختار التغنی لنفسہٖ لدفع الوحشۃ لا بأس بہ عند العامۃ علی ما فی العنایۃ وصححہ العینی وإلیہ ذھب شمس الأئمۃ السرخسی‘‘ (ردالمحتار : ۶؍۳۴۸) ساتویں : صوفیاء کا مزامیر کے بغیر نعتیہ یا اصلاحی اشعار کا پڑھنا اور سننا تو درست ہے ؛ لیکن آج کل بعض خانقاہوں میں جو عرس کی مجلسیں منعقد ہوتی ہیں اور اس میں ہارمونیم اور طبلہ کے ساتھ قوالی گائی جاتی ہے ، یہ بھی حرام ہے :’’وأما ما ابتدعہ الصوفیۃ فی ذلک فمن قبیل ما لا یختلف فی تحریمہٖ‘‘ ( روح المعانی : ۲۱؍۷۰) بلکہ علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ چوں کہ اس کو عبادت سمجھ کر انجام دیا جاتا ہے ؛ اس لئے دوسرے گانوں کے مقابلہ اس کا گناہ بڑھ کر ہے : ’’ بل ھذا أشد من کل تغن ، لأنہ مع اعتقاد العبادۃ ‘‘ ( روح المعانی : ۲۱؍۶۸) — جو حکم کسی فعل کا ہے ، وہی حکم اس فعل کو انجام دینے والے آلات ووسائل کا ہے ؛ اس لئے جو آلات گانے بجانے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں ، جیسے : طبلہ ، سارنگی وغیرہ ، یاجو اشیاء حرام کھیلوں کے لئے استعمال کی جاتی ہیں ، ان کا خریدنا اور بیچنا بھی حرام ہوگا ، جن چیزوں کا استعمال مکروہ کاموں کے لئے ہو ، ان کا خرید و فروخت کرنا بھی مکروہ ہوگا اور جو جائز کام ہیں ، ان کے آلات کی خرید و فروخت بھی جائز ہوگی ؛ کیوں کہ اُصول یہ ہے کہ جو حکم مقصود کا ہوتا ہے ، وہی حکم ذریعہ کا بھی ہوتا ہے ۔ (آسان تفسير قرآن مجید)
7987972043
Comments are closed.