یونیفارم سِوِل کوڈ؛ پلان بی

?️ مفتی محمد نوید سیف حسامی ایڈووکیٹ
کریم نگر، تلنگانہ
دہلی ہائی کورٹ کی فاضل خاتون جج "پرتبھا سنگھ” نے مرکزی حکومت کو یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کی تجویز بھیج کر اسلامیانِ ہند میں کچھ دیر کے لئے ہی سہی ایک بار پھر بے چینی پیدا کردی ہے، امید ہے کہ اس باربھی اہل قلم کی جانب اغیار پر طعن و تشنیع سے لیکر اپنوں کی گستاخی و توہین تک تحاریر و مضامین کا سلسلہ شروع ہوکر ماحول کو گرمائے رکھے گا، خیر یہ لکھنا لکھانا بھی غنیمت ہے کہ کچھ تو زندگی کی رمق بتاتا ہے ورنہ اگر یہ بھی معدوم ہوجائے تو پھر حیات مسلمین کا ثبوت کہاں تلاش کرتے پھریں گے…
دہلی ہائی کورٹ کا مطالبہ ملک کی کسی ہائی کورٹ کی جانب سے یو سی سی ( یونیفارم سول کوڈ) کے نفاذ کا کوئی پہلا مطالبہ نہیں ہے، اس سے پہلے بھی مختلف ریاستوں کی عدالتیں مرکزی حکومتوں کو یہ عرضی بھیج چکی ہیں ، یہاں تک کہ عدالت عظمی ( سپریم کورٹ) نے بھی ایک سے زائد مرتبہ حکومت کو یو سی سی کے نفاذ کے تئیں غفلت برتنے کے الزام میں پھٹکار لگائی ہے، *”سَرلا مُدگل کیس” انیس سو پچانوے، "جان وَلّا موتّم کیس” دو ہزار تین، اکتوبر دو ہزار پندرہ، ستمبر دو ہزار انیس* میں متعلقہ مقدمات کی سماعت کے دوران مذکورہ عدالت نے مرکز سے یو سی سی کے متعلق سکوت پر سوالات اٹھائے ہیں، تین ماہ قبل مارچ دو ہزار اکیس میں سپریم کورٹ میں بی جے پی کے رکن اور سپریم کورٹ کے وکیل "اشونی اُپادھیائے” نے پانچ ایسی عرضیاں داخل کیں ہیں جنہیں یو سی سی کی جانب بڑھتے قدم بتلایا گیا ہے، عدالت نے ان پانچ عرضیوں کی سماعت منظور کرتے ہوئے مرکز سے ان پر جواب مانگا ہے…
ملک میں مسلم پرسنل لا کے علاوہ انڈین کرسچین میریج ایکٹ 1872ء، انڈین ڈیوورس ایکٹ 1869ء، پارسی میریج اینڈ ڈیوورس ایکٹ 1936ء وغیرہ مختلف پرسنل قوانین کارکرد ہیں، ججس کو ان سبھی قوانین کی رعایت رکھتے ہوئے مقدمہ کی نوعیت سمجھنے اور نتیجہ تک پہونچنے میں دشواری پیش آتی رہتی ہے، جس کے نتیجہ میں وقتاً فوقتاً اس کڑی میں ابال اٹھتا رہتا ہے، معاملہ مزید اس وقت بگڑ جاتا ہے جب فریقین دو متضاد مذہب یا مسلک کے ماننے والے ہوں اور ان کا پرسنل لا ملک میں مانا بھی جاتا ہو، جیسے عیسائی اور پارسی جوڑے کے درمیان اگر طلاق اور علیحدگی کا مقدمہ زیر سماعت ہو یا اس جوڑے کی اولاد؛ وراثت کی تقسیم اپنے اپنے پرسنل لا کے تحت کرنے کا مطالبہ عدالت میں کرے تو متعلقہ جج کے سر میں درد کا ہونا فطری امر ہے…
مسلم پرسنل لا کے تعلق سے یہ الفاظ ممکن ہیں کسی کو کڑوے لگیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ملکی عدالتوں میں مسلم پرسنل لا برائے نام ہی باقی رہ گیا ہے، رواں سال ماہِ اپریل میں ملک کی مسلم اکثریتی ریاست "کیرالہ” کی ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ جاری کیا کہ مسلم خواتین بھی اپنے شوہروں کا طلاق دے سکتی ہیں، اس جیسے کئی فیصلے ہیں جو مختلف ریاستوں کی عدالتیں جاری کرتی رہتی ہیں، یہاں اُن سب کا نہ احاطہ مقصود ہے اور نہ تذکرہ، طلاق ثلاثہ کا بدنامِ زمانہ قانون ملک میں مسلم پرسنل لا کے خاتمے کی جانب ایک بڑا قدم تسلیم کرلیا گیا ہے، راقم الحروف نے گذشتہ ڈھائی تین سالوں میں اغیار سے زیادہ مسلم وکلاءکو ہی مسلم پرسنل لاء کی دھجیاں اڑاتے دیکھا ہے، مطلقہ کے نفقہ پر غیر اسلامی فیصلے یعنی مطلقہ کے نکاح ثانی تک شوہرِ اول پر مطلقہ کے اخراجات کی ذمہ داری کے مقدمات اکثر و بیشترمسلم وکلاءہی لڑتے ہیں، شوہر کے الفاظِ طلاق کی سہ بار ادائیگی کے باوجود عدالت میں اس کے کالعدم کروانے میں بعض مسلم وکلاء کو کوئی پس و پیش نہیں ہوتا، عوام میں آپسی رنجش کے بعد ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی چاہ میں جھوٹے سچے مقدمات کے ذریعہ ایک دوسرے کا پیسہ، وقت، صلاحیت برباد کرنے کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے، اہل اسلام کی مزاجِ اسلام سے دوری اور دانشوارانِ ملت کی غفلت، لاپرواہی، سستی و کاہلی کے نتیجہ میں مسلم پرسنل لا بورڈ سمیت مختلف ملکی و ریاستی تنظیموں کی پرسنل لا کو زندہ رکھنے کی تقریبا تمام کوششیں ناکام ہوتی جارہی ہیں…
ملک میں پرسنل لا کا نفاذ برسر اقتدار بی جے پی کے منشور میں دو ہزار چودہ سے پہلے ہی شامل ہے، لیکن یہ سوال کہ کیا ملک میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ ممکن ہے؟ اگر دائرہ امکان میں ہے تو آسان ہے یا مشکل؟ تو اس کے دو جواب ہوسکتے ہیں، اگر مرکزی حکومت تمام رولس اینڈ ریگولیشنس (قوانین و ضوابط) کی پاسداری کرتے ہوئے یو سی سی لاناچاہے تو یہ کافی مشکل امر ہے، یو سی سی کے متعلق رہنمایانہ خطوط (گائیڈ لائینس) کے مطابق تمام اقوام کی نفسیات اور طبائع نیز ملک کی سلامتی و خوشحالی اور بقائے امن باہمی کو مد نظر رکھ کر پہلے ایک قوانین کا مجموعہ (ڈرافٹ) تیار کیا جائے گا جسے ایک متعین مدت تک شہریوں کہ دسترس میں رکھ کر ان کی رائے لی جائے گی اور اُن آراء کی روشنی میں مذکورہ ڈرافٹ میں تبدیلی و ترمیم کے بعد اسے لاگو کیا جائے گا، اس کے بر خلاف موجودہ مرکزی حکومت آرٹیکل 370 کی طرح اپنی من مانی کرتے ہوئے ملک میں ہر قسم کے پرسنل لا کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بیک نشست یو سی سی کے احکام جاری کردے تو اسباب کے دائرے اور ظاہری حالات کی روشنی میں کوئی امر مانع نہیں ہے، نہ اپوزیشن میں وہ دم خم باقی ہے اور نہ ہی کسی اور میں چوں و چرا کی ہمت…
ایسے میں پلان اے تو ازل سے ابد تک یہی رہا ہے کہ مخالفت کی جائے، پرزور انداز میں کی جائے، بے تحاشہ کی جائے، مسلسل کی جائے، احتجاج درج کروائے جائیں، دھرنے دیئے جائیں، میمورنڈم دیئے جائیں، عدالت عظمی میں پیٹیشن فائل کی جائے لیکن ساتھ ہی اس پر بھی غور کیا جائے کہ یہ کاروائیاں کہاں تک سود مند ہوسکتی ہیں؟ حالیہ زرعی قوانین اور اس سے قبل سی اے اے مخالف احتجاجات کے نتائج ہمارے سامنے ہیں، حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے، پتہ نہیں کونسا تیل استعمال کرتے ہیں…
پلان بی؛ ہمیشہ کامیاب افراد کے منصوبوں میں شامل رہا ہے، کامیابی کے تمام راستے وا ہوتے ہوئے بھی وہ لوگ متبادل طریقہ کار سوچ کر رکھتے ہیں، ہمارے سامنے تو ناکامیوں کے تمام وسائل موجود ہیں پھر بھی پلان بی پر گفتگو جرم سمجھی جاتی ہے، پانچ اگست دو ہزار انیس کو آرٹیکل 370 کے خاتمہ کے بعد اسی پلان بی کے تعلق سے راقم نے ایک مضمون تحریر کیا تھا جسے صرف اسی بنیاد پر بعض احباب نے ناپسند کیا کہ اس مضمون سے تسلیم و رضا کی بو آرہی ہے حالانکہ ہمارا وطیرہ صرف مخالفت ہی ہونی چاہئے، خیر دو سال ہونے کو ہیں، مخالفت سے تو کچھ حاصل نہیں ہوا، موافقت کے بجائے بطور پلان بی کچھ منصوبہ بندی ہوجاتی تو شاید کچھ فوائد حاصل ہوجاتے…
نیو ایجوکیشنل پالیسی کے تئیں بھی ہمارا رویہ صرف کاغذوں کی حد تک محدود رہا، اکابر علماء ہوا کے اس رخ کو بہت پہلے ہی محسوس کرچکے ہیں اور اُن کی جانب سے مکاتب کا قیام اور نئی نسل کی دینی تعلیم کے بنیادی نظم کی مسلسل پکار یہی پلان بی ہی ہے لیکن جس رخ و انداز پہ یہ کام مطلوب تھا یا ہے اُس مقدار میں نتائج حاصل نہیں ہورہے ہیں، سی اے اے کے موقعہ پر پلان اے دھرنے اور احتجاج تھے جس پر بخوبی عمل کیا گیا لیکن پلان بی کہ کاغذات درست کرلئے جائیں اس اعلان کی مخالفت کی گئی کہ جب کاغذ بتانا ہی نہیں ہے تو بنا کر کیا فائدہ؟؟ نتیجہ میں ہم سی اے اے کے نام پر ایسے تاریک غار کی طرف دن بدن بڑھتے چلے جارہے ہیں جہاں پہونچنے کے بعد نفسی نفسی کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دے گا…
یو سی سی کے تعلق سے بھی ہمیں مخالفت کے ساتھ ساتھ متبادل منصوبہ پر کام کرتے رہنا چاہئے، غیر شرعی قوانین کی اخلاقی برائیاں، مقدمات کی طوالت کے فریقین پر طویل مدتی نقصانات، شرعی احکام پر عمل آوری کی برکتیں، ان امور پر بیانات کے بجائے علاقہ کے مخصوص ذمہ دار افراد کے ساتھ بیٹھکیں اور ان کی ذہن سازی، ان سب کی جڑ خوفِ خدا اور خوفِ آخرت کی تلقین، معاشرہ میں مابعد نکاح مظلوم طبقہ (چاہے وہ لڑکے والے ہوں یا لڑکی والے) کی دلجوئی اور شرعی کمیٹیوں کے ذریعہ انہیں کماحقہ حق دلانے کی کوشش و کاوش، مسلم وکلاء کی ذمہ داری ان معاملات میں مزید بڑھ جاتی ہے کہ وہ ان مقدمات کی حوصلہ افزائی نہ کریں، رزق کی ذمہ داری اللہ پاک نے لے رکھی ہے، آپ اپنا متعین رزق کھا کر ہی جائیں گے، نہ ایک دانہ کم نہ ایک دانہ زیادہ، ایک قطرۂ آب بھی آپ کو اپنے حصے سے زیادہ نہیں مل سکتا…
مذکورہ امور پر اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے اور اکابر و اصاغر پر لعن طعن، ماضی و حال کی ناکامیابیوں کے فضول و لایعنی تذکرہ کے بجائے ہر فرد اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے ادائیگی کی فکر کرے تو خاکم بدہن یو سی سی آ بھی جائے تب بھی ہندوستان کے مسلمانوں کو کچھ فرق نہیں پڑے گا…
مضمون نگار سے رابطے یا اپنی رائے کے اظہار کے لئے:
9966870275
Comments are closed.