یکساں سول کوڈ کی دستک!!

محمد صابر حسین ندوی
موجودہ حکومت کی منشا صاف ہے، زعفرانی فکر کے حاملین اور ہندوازم کے پروردہ اپنے منصوبوں اور دعوؤں میں تیزگام بڑھتے جارہے ہیں ،فلاح و بہبودی کو ایک جملہ قرار دے کر ملک کی نیرنگی میں یک رنگی کو نقصان پہنچانے اور اکثریت کو فوقیت دے کر سبھی کو ایک رنگ میں رنگ دینے میں کامیابی کے ساتھ پیش قدمی کر رہی ہے، کشمیر سے ٣٧٠ ہٹانے کے بعد سی اے اے اور این آر سی کے نفاذ کی کوششوں کے دوران ہی یہ آواز بلند ہونے لگی تھی کہ اب یکساں سول کوڈ کی باری ہے، اس وقت بی بی سی نے ایک رپورٹ بھی شائع کی تھی اور کہا تھا کہ یکساں سول کوڈ اگلی منزل ہوسکتی ہے، ان سب کے دوران دلچسپ کی بات یہ ہے کہ حکومت سب کچھ دوسرے کے شانے پر بندوق رکھ کر کام کر رہی ہے، کشمیر میں وہاں کی عوام، تین طلاق کے وقت خواتین، سی اے اے کے وقت بھی عوامی مانگ کو ہی بہانا بنا کر کام کیا گیا تھا، مگر یکساں سول کوڈ کیلئے تو عدالتیں بھی اکسا رہی ہیں، ابھی تازہ ترین واقعہ دہلی ہائی کورٹ کا ہے، دہلی ہائی کورٹ نے ملک میں یونیفارم سول کوڈ کی ضرورت پر زور دیا، طلاق کے ایک معاملے میں فیصلہ دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ملک میں یونیفارم سول کورڈ کی ضرورت ہے؛ کیونکہ جسٹس پرتبھا ایم سنگھ کے مطابق ملک مذہب، ذات پات، برادری سے اوپر اُٹھ چکا ہے، جدید ہندوستان میں مذہب، ذات برادری کے بندھن تیزی سے ٹوٹ رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بین المذاہب اور بین ذات پات شادی یا پھر علاحدگی یعنی طلاق میں بھی پریشانیاں آرہی ہیں، آج کی نوجوان نسل ان پریشانیوں میں مبتلا نہ ہو اس لحاظ سے ملک میں یونیفارم سول کوڈ نافذ ہوناچاہئے،چنانچہ آرٹیکل ٤٤/ میں یونیفارم سول کورڈ کی جو امید جتائی گئی تھی اب اسے صرف امید نہیں رہناچاہئے؛ بلکہ اسے حقیقت میں بدل دیناچاہئے۔ دراصل ایک طلاق کے معاملے میں دہلی ہائی کورٹ کی جسٹس پرتبھا ایم سنگھ نے یہ تبصرہ کیا؛ کیونکہ ان کے سامنے یہ سوال کھڑا ہوگیا تھا کہ طلاق کو ہندو میرج ایکٹ کے مطابق ماناجائے یا پھر مینا قبیلے کے قواعد کے مطابق تسلیم کیا جائے، شوہر ہندو میرج ایکٹ کے مطابق طلاق چاہتا تھا جبکہ بیوی کا کہنا تھا کہ وہ مینا ذات سے تعلق رکھتی ہے اس لئے اس پر ہندو میرج ایکٹ نافذ نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے اسے شوہر کے ذریعے دائر فیملی کورٹ میں طلاق کی عرضی خارج کی جائے۔ شوہر نے ہائی کورٹ میں بیوی کی اسی دلیل کے خلاف عرضی دائر کی تھی۔ عدالت نے کورٹ میں بیوی کی اپیل کو قبول کرتے ہوئے یونیفارم سول کوڈ نافذ کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہاکہ اس فیصلے کو وزارت قانون کے پاس بھیجاجائے تاکہ وزارت قانون اس پر غورکرسکے۔ بات صرف دہلی ہائی کورٹ کی نہیں ہے؛ بلکہ اس سے پہلے خود عدالت عظمیٰ اس پر تبصرہ کر چکی ہے، دی وائر اردو نے ١٦/ستمبر ٢٠١٩ء کو ایک خبر نشر کی ہے، اس کے مطابق سپریم کورٹ نے ملک کے شہریوں کے لئے یونیفارم سول کوڈ تیار کئے جانے پر زور دیا اور افسوس ظاہر کیا کہ سپریم کورٹ کی ‘ حوصلہ افزائی ‘ کے بعد بھی اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی، جسٹس دیپک گپتا اور جسٹس انیرودھ بوس کی بنچ نے کہا کہ یہ غور کرنا دلچسپ ہے کہ ریاست کی پالیسی کے ڈائریکٹو پرنسپل سے جڑے حصہ چار میں آئین کی دفعہ ٤٤ میں آئین سازوں نے امید کی تھی کہ ریاست پورے ہندوستان میں یونیفارم سول کوڈ کے لئے کوشش کرےگی؛ لیکن آج تک اس بارے میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ بنچ نے ٣١/ صفحہ کے اپنے فیصلے میں کہا: حالانکہ ہندو قوانین کو سال ١٩٥٦ء میں کوڈیفائیڈ کیا گیا تھا، مگر اس عدالت کی حوصلہ افزائی کے بعد بھی ملک کے تمام شہریوں کے لئے یونیفارم سول کوڈ نافذ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے۔
تو وہیں دی ہندو اخبار کے مطابق فیصلے میں کہا گیا کہ ١٩٨٥ء میں شاہ بانو کے معاملے میں اس عدالت کے اکسانے کے باوجود حکومت نے یونیفارم سول کوڈ لانے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ سپریم کورٹ نے صرف اسی پر بَس نہیں کیا بلکہ مثالیں بھی پیش کیں تاکہ بات مزید پختہ ہوں، چنانچہ کورٹ نے توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ گووا ایک ‘ بہترین مثال ‘ ہے جہاں یونیفارم سول کوڈ ہے اور مذہب کی پرواہ کئے بغیر سب پر نافذ ہے، ‘ سوائے کچھ محدود حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے۔ ‘ گووا میں مروجہ اس کوڈ کے تحت ریاست میں رجسٹرڈ شادی کرنے والا ایک مسلم شخص ایک سے زیادہ شادی نہیں کر سکتا ہے، ایک شادی شدہ جوڑا یکساں طورپر جائیداد شیئر کرتا ہے، شادی سے پہلے سمجھوتے ضروری ہوتے ہیں اور طلاق کے بعد مرد اور خاتون کے بیچ جائیداد یکساں طورپر تقسیم ہوتی ہے۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ایک ایسے معاملے میں آیا ہے جس میں یہ سوال اٹھا تھا کہ گووا کے باشندوں کا حق پرتگالی سول کوڈ ١٨٦٧ء سے منضبط ہوگا یا Indian Succession Act ،1925 سے منضبط ہوگا۔ جسٹس دیپک گپتا اور جسٹس انیرودھ بوس کی بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ملک میں کہیں بھی رہ رہے گووا کے باشندوں کی جائیداد سے متعلق وراثت دینے اور ریاست کا باشندہ ہونے سے متعلق حق پرتگالی سول کوڈ ١٨٦٧ء سے منضبط ہوگا۔ ان سب کے دوران حقیقت یہ ہے کہ یکساں سول کوڈ ملک کی جڑ کاٹنے اور اسے ہندوازم کا رنگ دینے کی ایک کوشش سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے، اس ملک میں صرف مسلمان نہیں بلکہ سینکڑوں مذاہب اور دیوی و دیوتاؤں کو ماننے والے ہیں، یقیناً مسلمانوں کیلئے یہ بجلی بن کر گرے گی اور ممکن ہے کہ یہ ان کی نشات ثانیہ کا باعث بن جائے؛ لیکن عمومی طور پر بھی خانہ جنگی ہوسکتی ہے، خود ہندو آپس میں دست گریبان ہوسکتے ہیں، متشدد نارتھ ایسٹ کے لوگ ملک سے بغاوت کر سکتے ہیں، ساؤتھ بالخصوص کیرلا اور تمل ناڈو بھی سخت اقدام کر سکتے ہیں، نکسلائٹ علاقے پہلے ہی پرخطر ہیں اس فیصلے کے بعد وہ بھی آبادیوں کو خاصا نقصان پہنچا سکتے ہیں، یہ بات بھی درست ہے کہ یکساں سول کوڈ کا مطالبہ کوئی بھی منصف اور سمجھدار شخص نہیں کرسکتا؛ کیونکہ ٢٠١٨ء میں ہندوستان کے ایک لاء کمیشن کے consultation paper نے کہا تھا کہ اس سطح پر ملک میں یونیفارم سول کوڈ نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی کوئی اس کی مانگکر رہا ہے۔ کمیشن نے کہا تھا کہ سیکولرزم ملک میں موجود اکثریت کی تردید نہیں کر سکتا ہے،ظاہر سی بات ہے کہ سب بعض اعلی متعصب ہندو اور زعفرانی فکر کے حاملین کی چالبازیاں ہیں، جو بلاشبہ انہیں پر لوٹ آئیں گی؛ البتہ ضرورت اس بات کی ہے کہ واویلا کرنے کے بجائے ایسے لٹریچر تیار کئے جائیں جو یکساں سول کوڈ کے نقصانات اور ملک کی نیرنگی اور خوبصورتی کو واضح کریں، دو/دو چار کی طرح بات سمجھائی جائے کہ یہ کوئی مسلمانوں کا ہی معاملہ نہیں بلکہ ملک کے وجود اور فکر گاندھی کو سولی پر چڑھانے کی بات ہے۔
7987972043
Comments are closed.