کیا موجودہ حالات میں قربانی کے بجائے قیمت صدقہ کی جاسکتی ہے؟

 

 

 

مفتی خلیل الرحمن قاسمی برنی 9611021347

 

مولائے حقیقی کا قرب حاصل کرنے کی نیت سے مخصوص ایام میں مخصوص اوصاف کے حلال جانور ذبح کرنے کوقربانی کہاجاتاہے۔قربانی محبت خداوندی،عشق الٰہی اورجذبہئ اطاعت و بندگی کا ایک خوبصورت مظہر ہے۔ذات الٰہی کا قرب حاصل کرنے کے لئے قربانی کا یہ سلسلہ ابتدائے آفرینش انسان سے ہی جاری ہے۔

سب سے پہلے قربانی کا عمل انجام دینے والے حضرت آدم علیہ السلام کے دوفرزند ہابیل اورقابیل تھے۔سورہ مائدہ میں ارشاد خداوندی ہے۔اذقربا قربانا فتقبل من احدھما ولم یتقبل من الآخر۔

ترجمہ:اوریاد کیجئے اس وقت کو جب آدم کے دوبیٹوں میں سے ہرایک نے اللہ کے لئے قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی دوسرے کی قبول نہیں کی گئی۔

قربانی کے اس واقعہ سے یہ واضح ہے کہ یہ عبادت حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے ہی مشروع ہے،اوراس کی حقیقیت تقریبا ہر ملت میں تسلیم کی گئی ہے۔! البتہ اس کی خاص شان اورپہچان حضرت ابراہیم خلیل اللہ اورحضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہما السلام کے قربانی والے واقعہ سے ہوئی اوراسی کی یادگار کے طورپر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے امتِ محمدیہ علی صاحبھاالصلٰوۃ والتسلیم پربھی اس عظیم عبادت (قربانی)کو واجب قراردیا گیا ہے۔

قربانی کے وجوب پرپہلی دلیل آیت قرآنی؛فصل لربک وانحر سے بیان کی جاتی ہے۔جس کا ترجمہ ہے،نماز پڑھیے اپنے رب کے لئے اورقربانی کیجئے۔ آیت کریمہ میں نماز پڑھنے اورقربانی کرنے کا حکم صیغہئ امر سے دیا گیا ہے۔نماز سے مراد بقرعید کی نماز اور”وانحر“ راجح قول کے مطابق قربانی کرنے کے لئے حکم ہے۔

وجوب قربانی پردوسری دلیل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛من وجد سعۃ ولم یضح فلایقرب مصلانا۔

ترجمہ:جو شخص قربانی کی وسعت رکھتاہو اورپھر بھی قربانی نہ کرے تو ایسا شخص ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔

ظاہر ہے کہ اس طرح کی سخت وعید ترک سنت پر نہیں آتی بلکہ ترک واجب ہی پر وارد ہوتی ہے۔

قربانی کے بے شمار فضائل میں سے یہ فضیلت بہت اہم ہے کہ ان دنوں میں اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل یہی قربانی ہے۔ایک حدیث میں قربانی کی یہ فضیلت آئی ہے کہ قربانی کے جانور کے ہر بال کے عوض ایک نیکی اوراجر ہے۔اس پر صحابہ نے عرض کیا کہ اون والے جانور،جن پر بکثرت بال ہوتے ہیں،ان میں بھی یہی ثواب ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بکل شعرۃ من الصوف حسنۃ“جی ہاں! اون والے جانور میں بھی ہر بال کے عوض ایک نیکی اوراجر ہے۔

*موجودہ حالات میں قربانی کا مسئلہ*

آج کل ملک میں ذبیحہ پر کافی سختی اورپکڑدھکڑ کا معاملہ خوب زوروں پر ہے اورجابجا روک ٹوک کا ماحول ہے۔اگر عید الاضحی تک اسی طرح کا ماحول رہاتو کیا قربانی کے حکم میں کوئی تخفیف والی بات ہوگی اورکیا ان حالات میں قربانی کی جگہ اس کی قیمت دی جاسکتی ہے؟ آج کل یہ سوال بہت زور و شور سے اٹھایاجارہاہے جب کہ بعض لوگ اس طرح کی بات بھی بہت عام کررہے ہیں کہ موجودہ حالات میں قربانی نہ کرکے قیمت صدقہ کردی جائے تو یہ قربانی کا بدل ہوجائے گا حالانکہ یہ بات غلط ہے۔اورمزاج شریعت کے خلاف ہے۔

یہ بات سمجھ لینی ضروری ہے کہ اسلام کی نظر میں قربانی ایک مستقل عبادت ہے۔اوراس عبادت میں روپیہ پیسہ خرچ کرنا اصل چیز نہیں ہے،بلکہ اس عبادت کامنشاءاللہ کے نام پر مخصوص ایام میں مخصوص جانوروں کو قربان کرنا اوران کا خون بہاناہے۔یہ اسلام کی ایک مستقل خصوصی عبادت ہے۔جو انہیں لوگوں پر واجب ہوتی ہے جو ایام قربانی میں بقدر نصاب مال کے مالک ہوں۔قربانی کے تین دن متعین ہیں۔10/11/12/ذی الحجہ۔انہیں تین دنوں میں قربانی دی جائے گی۔ان دنوں میں کوئی اورعمل کرنا قربانی کا بدل نہیں ہوسکتا۔لہذا یہ کہنا (کہ قربانی کے بجائے موجودہ حالات میں صدقہ دے دیاجائے اورغریبوں کے کھانے پینے کا انتظام کردیا جائے تو زیادہ بہتر ہے)بالکل غلط ہوگا۔مددکرنا بہت اچھی بات ہے۔کسی کے راشن پانی کاانتظام کرنا بڑا اونچا عمل ہے لیکن یہ عمل قربانی کا بدل نہیں ہوسکتاہے۔قربانی کے دنوں میں صاحب استطاعت لوگ قربانی ہی کریں گے۔ہاں اگر تمام کوششوں کے باوجود وقت پر قربانی نہ دی جاسکے اورایام قربانی بالکل نکل جائیں تو اگر جانور خرید لیاتھا تو وہی جانور کسی غریب کو صدقہ کردیا جائے گا اوراگر جانور خریدا نہیں گیا تو ایک بکرا یا بکری کی قیمت صدقہ کردی جائے گی۔لیکن یہ بات پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ وقت کے رہتے ہوئے یا وقت سے پہلے صدقہ کرنے سے قربانی کا ذمہ ساقط نہیں ہوگا۔ خلیل الرحمن قاسمی برنی 9611021347

Comments are closed.