اور یہ کہہ کر رقم واپس کردی

 

 

محمد قمرالزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ

 

ایک بار خلیفہ ہارون رشید کوفہ میں آئے، انہوں نے وہاں کے قاریوں اور اہل علم کی ایک فہرست مرتب کرائی، تاکہ ان سب کو دو دو ہزار درہم دئے جائیں ،یہ عطیہ تقسیم کرنے کے لئے فہرست پڑھی جا رہی تھی ۔

حضرت داؤد بن نصیر ابوسلیمان رح کا نام بھی پڑھا گیا ،مگر یہ غیر حاضر تھے ، خلیفہ ہارون رشید نے جب ان کی عدم موجودگی اور غیر حاضری کی وجہ دریافت کی تو معلوم ہوا کہ ان کو اطلاع نہیں دی گئی، خلیفہ ہارون رشید نے حکم دیا کہ یہ رقم ان کی خدمت میں پہنچا دی جائے ۔

حضرت داؤد بن نصیر رح بڑے زاہد درویش صفت اور قناعت پسند بزرگ تھے ۔ اور وہ کبھی بھی کسی رئیس چودھری اور دنیا دار کی مجلس میں نہیں گئے تھے ۔ ان کی خدمت میں دور ہزار پہنچانے کے لئے ابن سماک اور امام حماد کو مامور و متعین کیا گیا ۔ یہ حضرات دواد طائی کی خوداری و بے اعتنائی سے واقف تھے ،انہیں خدشہ ہوا کہ شاید وہ یہ عطیہ اور ہدیہ قبول نہ کریں ۔ اس لئے دونوں نے صلاح کی کہ نادار شخص پر زرو و جواہر کی کثرت و بہتات بڑا اثر کرتی ہے، لہذا یہ رقم تھیلی میں پیش کرنے کی بجائے ان کے سامنے بکھیر دی جائے اور رقم کو پھیلا دیا جائے ۔ چنانچہ ان حضرات نے داودبن نصیر ابوسلیمان رح کی خدمت میں پہنچ کر تھیلی الٹ دی ،ان کے سامنے درھم بکھیرے تاکہ آنکھ سے دیکھنے کا دل پر اثر پڑے اور یہ نادار بزرگ ان کو قبول کرلیں ۔

حضرت داؤد سمجھ گئے اور فرمایا ۰۰ یہ چالیں تو بچوں کے ساتھ کھیلی جاتی ہیں اور میں بچہ نہیں ہوں ،افسوس کہ میں رقم لینے سے معذور ہوں ۔ یہ کہہ کر رقم واپس کر دی ۔ (یاد ماضی صفحہ ۵۷/ بحوالہ انسانی عظمت کے تابندہ نقوش صفحہ ۲۱۸)

محترم قارئین باتمکین!

اسلاف کی زندگیوں کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک نمایاں چیز جو ان کی زندگی میں تقوی و طہارت ،عبادت و ریاضت اور حق گوئی جرآت کے بعد سب سے زیادہ نمایاں نظر آتی ہے، وہ ہے ان کی خود داری،خودی و خود اعتمادی اور بادشاہوں حکمرانوں،اور ارباب اقتدار و سلطنت کے ہدایا و احسان اور ان کی طرف سے مالی مدد لینے سے انکار ۔ ہمارے اسلاف نے بڑے بڑے عہدے، منصب اور جاگیر و داد دہش کو محض اس وجہ سے ٹھکرا دیا کہ کہیں ان کو قبول کرلینے سے اظہار حق اور اظہار جرآت نیز احقاق حق اور ابطال باطل کے عزائم اور جذبہ میں کمی نہ آجائے ۔ اگر اسلاف کے ان واقعات کو جمع کیا جائے اور صرف ان کی خود داری و خودی اور عہدہ و منصب سے دوری کے موضوع پر جو مواد مختلف کتابوں میں بکھرے ہیں ان کو اکٹھا کیا جائے تو کئی ضخیم جلدیں ترتیب دی جاسکتی ہے ،اور الحمدللہ اس پر کام ہوا بھی ہے ۔ راقم کی کتاب ،،انسانی عظمت کے تابندہ نقوش،، میں بھی اس سلسلے کے سینکڑوں واقعات موجود ہیں ۔

مجھے اسلاف کے حیات و خدمات ،ان کی زندگیوں کا مطالعہ، ان کے حالات و واقعات، اور ان کی سیرت و سوانح پڑھنا بہت اچھا لگتا ہے یہ میرا محبوب مشغلہ اور موضوع ہے ۔ میں ان اکابر علماء اور اہل اللہ کے نقش پا کے دھول اور گرد و غبار کے برابر نہیں ہوں ،لیکن ان سے مجھے بے پناہ محبت،انس و تعلق اور شغف ہے ۔

 

احب الصالحين و لست منھم

لعل اللہ یرزقنی صلاحا

 

میں نیک اور صالح لوگوں سے محبت کرتا ہوں اگر چہ میں خود نیک و صالح نہیں ہوں ،بعید نہیں کہ اس محبت کی بناء پر اللہ تعالٰی مجھے بھی صلاح و تقوی سے نواز دے ۔

اور ایک دوسرے شاعر کا یہ شعر بھی ہمیشہ نگاہوں کے سامنے گردش کرتا رہتا ہے کہ

 

تشبھوا ان لم تکونوا مثلھم

فان التشبہ بالکرام فلاح

 

اہل اللہ اور صلحاء کی مشابہت اختیار کرو اگر چہ تم ان کے مشابہ نہیں ہو ،بیشک اہل اللہ اور نیک لوگوں کی مشابہت اختیار کرنے میں بھی کامیابی و کامرانی اور فلاح و سعادت ہے ۔

سیرت و سوانح اور مذھبی شخصیات کی تاریخ ،کارنامے اور ان کے حالات و واقعات پڑھنے کے بعد اس نتیجہ پر آپ اور ہم آسانی سے پہنچ جائیں گے کہ جن علماء کرام اور اہل اللہ نے اپنے آپ کو سرکاری امداد اور بادشاہوں کی نوازشات اور ہدایا و تحائف سے بچایا ،ان کی زندگی اور ان دعوت و عزیمت کے اثرات دیرپا ثابت ہوئے اور آج بھی وہ نمایاں طور پر قابل تقلید و عمل بنے ہوئے ہیں اور جنہوں نے حکومت کے ان شاہانہ عطیات و جاگیر اور داد دہش کو قبول کر لیا، ان کی دعوت، ان کا مشن اور ان کی تاثیر بعد کے دنوں میں کمزور اور دھیمی ہوگئی ۔ البتہ اسلاف میں بہت سے ایسے علماء عظام اور فقہاء کرام بھی ہیں، جنھون نے امت کے وسیع تر مفاد اور احکام شریعت کی ترویج و اشاعت اور تنفیذ کی غرض سے ان عہدوں کو زینت بخشی اور اپنی شان خود داری و خودی و خود اعتمادی پر آنچ نہ آنے دیا ۔ امام شہاب الدین زہری رح اور امام یوسف رح کی خدمات کارنامے اور ان کی قربانیوں کو اخر کون بھلا سکتا ہے ۔

آج سب سے زیادہ ضرورت ہے، کہ ہم جدید نسل کے علماء اور فارغین مدارس حکومت و اقتدار کی نوازشات سے اپنے دامن کو حتیٰ الوسع بچا لیں ورنہ بقول حضرت مولانا علی میاں ندوی رح ہمارے خریدار بازار میں موجود ہیں اور بھاو تاو لگانے کے لئے تیار ہیں ۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ آج بعض فارغین مدارس اور جامعات کی صلاحیتوں سے باطل طاقتیں ان کو ان کی صلاحیتوں کی قیمت دے کر اپنا کام لے رہی ہیں۔

Comments are closed.