قربانی کے فضائل و مسائل

 

ضیاءالرحمٰن امجدی-

مدرسہ اصلاح معاشرہ، تعلیم آباد ،علی گڑھ

6397230955

اسلام وہ پا کیزہ مذہب ہے،جس کی ابتدا اور انتہا قربانی پر ہے ۔جس نے اپنے پیروکاروں کو قربانی کا سبق دیا اور حقیقت تو یہ ہےکہ اسلامی عبادات وتعلیمات میں قربانی کا درس بکثرت موجود ہے، اسلام کے فرائض پر بھی اگر غور کیا جائے تو ان میں بھی قربانی کے اسباق مضمر نظر آ ئیں گے،چناں چہ نماز میں وقت جیسے انمول شئ کی قربانی ،روزے میں اپنے محبوب و مرغوب غذاؤں اور مشروبات کی قربانی ،حج میں اپنے وطن اور آلِ اولاد کی محبت کی قربانی ،اور زکوٰۃ میں مال عزیز کی قربانی ۔غرض یہ کہ اسلام نے اپنے پیروں کاروں کو قدم قدم پر قربانی کا درس دیا ،مگر جس عبادت کو ،،قربانی ،، کے نام سے شہرت ملی وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا محبوب عمل ہے۔جس کے بارے میں حضور ﷺنے فرمایا ،”قربانی تمھارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے “۔
لیکن قربانی کا مقصد صرف اورصرف جان دینا نہیں، بلکہ حقیقت میں قربانی اپنے مالک ِحقیقی کاقرب اور یا دِ الہٰی کا ایک بہترین ذریعہ اور وسیلہ ہے۔جیسا کہ قرآن مجید میں رب ِقدیر نے صاف لفظوں میں قربا نی کا مقصد بیان فرمادیا۔
ترجمہ :’’اللہ کو ہرگزنہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ ان کے خون ،ہاں تمہاری پرہیزگاری اس تک باریاب ہوتی ہے‘‘۔(سورہ حج،آیت،۳۷)
ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب پا ک سے ارشاد فرمایا :
ترجمہ:’’تم فرماؤ بے شک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کےلئے ہے جو رب سارے جہان کا‘‘(سورۃالانعام،آیت،۱٦۲)

قربانی کیا ہے؟

مخصوص جانوروں کومخصوص دن میں بہ نیت تقرب ذبح کرنے کانام قربانی ہے(فتاویٰ عالم گیری ،ج۵،ص:۲۹۱،زکریا بکڈپو،دیوبند)
قربانی دین کی شان اور اسلام کا ایک نشان ہے،قربانی اللہ تعالیٰ کے دربارمیں بندوں کی بہترین عبادت ہے،حضورﷺکو قربانی کاحکم دیاگیا۔
چنانچہ ارشاد ِربانی ہے :
’’فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَ انْحَرْ ‘‘(سورۃ الکوثر ،آیت ،۲)
ترجمہ :تو تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔(کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن)
رسول اللہﷺ نے بنفس نفیس قربانی کی ۔
قربانی کے فضائل:
قربانی کی فضیلت کے تعلق سے بے شمار احادیث کریمہ موجود ہیں ـ
(۱)امام ترمذی (متوفی:۲۹۷ ھ)اپنی جامع اورامام ابن ماجہ (متوفی:۲۷۳ھ)اپنی سنن میں ،حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ،ابن ادم کا کوئی عمل قربانی کے دن اللہ کے نزدیک خون بہانے سے (جانور ذبح کرنےسے)زیادہ پیارا نہیں ،وہ قیامت کے دن اپنے کھروں اور بالوں اور سینگوں کےساتھ آئے گا ۔ بے شک اللہ کے نزدیک اس کا خو ن مقام ِقبول میں پہنچ جاتا ہےزمین پر گرنے سے پہلے ،لھذا اس کو خوش دلی سے کرو۔ (ترمذی شریف ،ص ۴۳۶،مکتبہ داراحیاء التراث العربی ،بیروت،و سنن ابن ماجہ ،ص ۵۳۵ مظبوعہ دار احیاءالتراث العربی ۔بیروت)
(۲) امام ابن ماجہ (متوفی:۲۷۳ھ)قربانی کے اجرو ثواب پرمشتمل یہ حدیث اپنی سندوں کے ساتھ نقل فرما تے ہیں۔
ترجمہ :زید ابن ارقم رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ قربانیاں کیا ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمھارے باپ ابرھیم علیہ السلام کی سنت ہے تو صحابہ نے عر ض کیا ،یا رسول اللہ ﷺ ہمارے لیے اس میں کیا ہے ؟ فرمایا ہر بال کے بدلےنیکی ملی گی۔(ابن ماجہ، ج۲ ،حدیث نمبر ۹۱۳ ،ترمذی، ج۱، حدیث نمبر ۱۵۳۲)
(۳)امام احمد نے روایت کی کہ حضورﷺنے ارشاد فرمایا کہ افضل قربانی وہ ہے جو قیمت کے اعتبار سے اعلیٰ ہو اور خوب فربہ ہو ۔(مسند امام احمد بن حنبل ،حدیث،نمبر:۱۵۴۹۴،ج:۳،ص:۱۲۷،دارالمعرفہ ۔لبنان )
(۴)حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ،وہ فرماتے ہیں کہ حضورﷺنے ارشاد فرمایا جوروپیہ، بقرعید کے دن قربانی میں خرچ کیا گیا،اس سے زیادہ کوئی روپیہ پیارانہیں (المعجم الکبیر،حدیث نمبر،۱۱،ص:۱۵،دارالکتب العلمیہ،بیروت)
(۵)حضرت امِ سلمہ رضی اللہ عنہا(جو حضور ﷺ کے زوجئہ مطہرہ ہیں )روایت کرتی ہیں کہ
اللہ کے نبی نے ارشاد فر مایا کہ، جو شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو (یعنی جس پر قربانی واجب ہو )اور وہ چاہتا ہے کہ قربانی کروں ،تو وہ جس دن چاند دیکھ لے (ذی الحجہ کا چاند) اس دن سے دس ذی الحجہ تک بال ،ناخن وغیرہ نہ کٹوائے ۔ جب دس ذی الحجہ کو قربانی کرے تو پہلے قربانی کرے پھر بال،ناخن وغیرہ کٹوائے ،
تو اس کو ہر بال ،اور ناخن کٹوانے کے عوض اللہ تعالی اجر و نیکی عطا فرمائے گا ،اور قربانی کا ثواب عطا فرمائےگا(سنن امام دارمی میں ج ۱، حدیث نمبر ۱۹۸۵)
لیکن اس عمل کے بارے میں علماء فرماتے ہیں کہ واجب نہیں ہے ،بلکہ سنت ہے۔مگر ہم اس پر عمل کر لیں تو ہمیں ایک قربانی کے ساتھ ساتھ کئی قربانیوں کا ثواب ملے گا ۔
حضور ﷺ کے طرف سے قربانی :
حضورﷺ نے جس طرح صحابہ کو قربانی کرنے کا حکم دیا ۔ویسا ہی آپ نےبھی قربانی کیا۔اب گویا یہ قربانی تین نبیوں کی سنت ہوگئی (۱) حضرت ابراھیم علیہ السلام (۲) حضرت اسمٰعیل علیہ السلام (۳) حضور ﷺ کی۔
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی نےایک مینڈھا لانے کا حکم دیا ، اور فرمایا کہ جس کی ٹانگیں کا لی ،آ نکھیں کالی ،اور پیٹھ بھی کالی ہو ،توایک مینڈھا لایا گیا ،اس کےبعد اللہ کے نبی نےاپنے دست اقدس سےاس کو ذبح فرمایا ،پھر آپ نے یہ دعا کی ،ائے اللہ یہ میری اور میری آل ،اور میری اس امتی کے جانب سے ہے جس نے قربانی نہ کی‘‘ ۔( امام مسلم علیہ الرحمہ نے ،ج ۲ حدیث نمبر ، ۴۹۷۶ ،امام ابواؤد علیہ الرحمہ نے،ج ۲ حدیث نمبر ۱۰۱۹)
اس سے قربانی کرنے کا بھی ثبوت ہوتا ہے ،ایصال ثواب کا بھی ثبوت ہوتا ہے ـ
قربانی کا وجوب:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہےکہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔
ترجمہ:’’جس کے اندر قربا نی کی استطا عت ہو، اور قربانی نہ کر ے ، وہ ہماری عید گا ہ کے قریب نہ آئے ‘‘۔(سنن ابن ماجہ ،ص۵۳۴،دارالا حیاءالتراث ،بیروت)
حضرت جند ب ابن سفیان بجلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔
ترجمہ :’’میں عید الاضحیٰ کے دن حضور ﷺ کے ساتھ تھا ،آپ نے فرمایا جس نے نمازِ عید سےپہلے قربانی کی ہے ،وہ اس کی جگہ دوسری قربانی کرے اور جس نے ابھی تک قربانی نہیں کی ہے ،وہ اب قربانی کرے‘‘ ۔(بخاری شریف ،ص ۱۱۶۱،دارالکتاب العربی ،بیروت )
تشریح:
ان دونوں حدیثوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ قربانی واجب ہے، اگر قربانی واجب نہ ہوتی تو حضور ﷺ قربانی نہ کر نے والوں کے حق میں اتنا سخت حکم نہیں فرماتے ’’صاحب استطا عت ہونے کہ باوجود قربانی نہ کرنے والا ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے ‘‘
نیز اگر قربانی واجب نہ ہو تی تو نماز عیدالاضحیٰ سے پہلے قربانی کرنے والوں کو حضور ﷺ دوبارہ قربانی کا حکم ہر گز نہ دیتے ۔
یہ زجرو توبیخ اس بات کی دلیل ہے کہ قربانی واجب ہے ۔
قربانی کا وقت :
ترجمہ:’’قربانی کا وقت تین دن ہے ۔دسویں ،گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ تک (جسے ایام نحر کہا جاتا ہے)اور یہ وقت دسویں ذی الحجہ طلوع صبح صادق کے بعد شروع ہوتاہے اوربارہویں ذی الحجہ سورج غروب ہونے تک باقی رہتا ہے، قربانی کے لیے سب سے افضل پہلا دن ہے اور سب سے آخر ی دن (۱۲ذی الحجہ) ہے ،ان تین ایام کے اندر قربانی کسی وقت بھی ہوسکتی ہے ،دن میں بھی اوررات میں بھی مگر رات میں قربانی کرنا مکرہ ہے‘‘۔(فتاویٰ عالمگیری، ج۵/ص۲۹۵،زکریا بکڈپو)
دسویں ذی الحجہ کی رات میں (جس کی صبح عیدالاضحیٰ ہوتی ہے) قربانی جائز نہیں، کیو نکہ یہ وقت سے پہلے قربانی کی ادائیگی ہے۔
فتاویٰ قاضی خان میں ہے :(فتاویٰ قاضی خان علی ھامش الھندیۃ ،ج ۳/ص ۳۴۵)
امام مالک(متوفی،۱۷۹ھ)رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ حدیث نقل فر ماتے ہیں :
(۱)ترجمہ :’’حضرت نافع سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں’’ قربانی کا وقت دس ذی الحجہ(بقرعید )کے بعد دو دن ہے‘‘۔(المؤطا الامام مالک ،حدیث نمبر ۱۰۵۲،ص ۲۷۶،المکتبۃ العصریۃ، بیروت)
(۲)’’عن مالک انہ بلغہ عن علی بن ابی طالب مثل ذالک‘‘(المؤطا الامام مالک ،حدیث ۱۰۵۲،ایضاََ )
ترجمہ : ’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے بھی اسی کے مثل روایت منقول ہے ۔یعنی قربانی کےو قت کی مقدار ۱۰/تا۱۲/ذی الحجہ ہے۔‘‘
علامہ جلال الدین سیوطی (متوفیٰ:۹۱۱ھ)رحمۃ اللہ علیہ نے ’’تنویرالحوالک شرح مؤطّا امام مالک ‘‘کے ص:۸/پر لکھا ہے ’’الصواب اطلاق أن المؤطا صحیح لا یستثنیٰ منہ شئی‘‘یعنی موطا امام مالک کی احادیث ،،صحیح ،، ہیں ،صحت سے کوئی بھی حدیث مستثنیٰ نہیں اور موقف درست اور صواب ہے۔
مشہور محدث حافظ ابن عبدالبَر (متوفیٰ:۴۶۳ھ)تحریر فرماتے ہیں :
ترجمہ:آیت کریمہ :’’واذکروااللہ فی ایام معدودات‘‘میں ایام معدودات سے قربانی کے ایام مراد ہیں اور قربانی کے ایام ۳/دن ہیں ،۱۰ ذی الحجہ اور اس کے بعد ۲/دن ۔حضرت علی ،ابن عمر،ابن عباس اور اکثر اہل ِعلم کا یہی مذہب ہے کہ قربانی ۳/دن ہے، امام مالک ،امام اعظم اور ان کے اصحاب کے علاوہ سفیان ثوری ،امام احمدبن حنبل اور اکثر اہل علم کا یہی مذہب ہے کہ قربانی کا وقت ۳/دن ہے۔(فتح المالک شرح المؤطاامام مالک ، ج۷ص۲۰، دارالکتب العلمیہ،بیروت)
صرف ۳/دن تک قربانی جائز کے قائل حضرت عمر،حضرت علی،حضرت عبد اللہ بن عباس،حضرت ابو ہریرہ،حضرت عبداللہ بن عمر ،حضرت عبداللہ بن مسعود،حضرت انس رضی اللہ عنہم ہیں ۔
صحابئہ کرام کی عدالت و ثقافت پر پوری امت کا اجماع ہے۔ائمہ و محدثین کا فیصلہ ہے :
’’الصحابۃ کلھم عدول عند اھل السنۃ والجماعت‘‘
(الباعث الحثیث فی اختصار علوم الحدیث ،ص ۱۵۰،مکتبہ دارالتراث،بیروت)

شہر اور دیہات میں قربانی کا وقت:
شہر میں قربانی کے لیے شرط ہے کہ وہ نماز عید کے بعد ہو ،نماز عید سے پہلے شہر میں قربانی نہیں ہو سکتی اور دیہات میں چوں کہ نماز ِعید نہیں ہوتی ، اس لیے یہاں طلوعِ فجر کے بعد قربانی ہوسکتی ہے ۔شہر میں بہتر یہ ہےکہ عید کا خطبہ ہو نے کے بعدقربانی کی جائے اور دیہات میں بہتر یہ ہے کہ طلوع ِآفتاب کے بعد قربانی کی جائے۔(بہارِ شریعت ،ج۳/حصہ ۱۵ ،المجمع الاسلامی، مبارک پور )
اگر شہر میں متعدد جگہ عید کی نماز ہوتی ہو تو پہلی جگہ ہوجانے کے بعد قربانی جائز ہے ۔یعنی یہ ضروری نہیں کہ عید گاہ میں نماز ہوجائے جب ہی قربانی کی جائے ۔بلکہ کسی مسجد میں عید کی نماز ہو گئی اور عید گاہ میں نہیں ہوئی تب بھی قربانی جائز ہے۔(بہارِشریعت،ج۳،ص:۳۳۷،مکتبہ المدینہ دھلی)
کن جانوروں کی قربانی جائز ہے اور کن کی نہیں؟:
قربانی کا جانور نہایت فربہ،تندرست اورخوبصورت ہوناچاہیے،اس لئے کہ ارشادِربانی ہے.
ترجمہ: تم ہر گز بھلائی کو نہ پہنچو گے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز خرچ نہ کرو(سورہ الِ عمران،آیت :۹۲)
قربانی کے جانورکو عیب سے خالی ہونا چاہیے ،اگر تھوڑا سا عیب ہے تو قربانی ہو جائیگی مگر مکروہ ہوگی۔اگر زیادہ عیب ہے تو سرے سے ہی قربانی نہیں ہوگی ۔
پیدائشی طور سے جس جانور کی سینگ نہ ہو ں، اس کی قربانی جائز ہے ۔سینگ تھا مگر ٹوٹ گیا تو اگر سینگ گدی تک ٹوٹا تو نا جائز ہے اور اس سے کم ٹوٹا ہےتوجائز ہے ۔جو جانور اس حد تک پاگل ہوکہ چربھی نہیں سکتا ہے تو اس کی قربانی جائز نہیں اور اس حد تک نہ ہو تو جائزہے ۔جس جا نور کو خصی کردیا گیا ہو اور وہ مجبوب ہو (یعنی جس کے خصیے اور عضو تناسل کا نٹ دیے گئے ہوں) ،ان کی قربانی جائز ہے ۔(بہارِ شریعت ج ۳/حصہ،۱۵،المجمع الاسلامی)
اسی طرح جس جانور کے دانت نہ ہو ں،یا جس کے تھن کٹے ہوں یا خشک ہوں ،جس کی ناک کٹی ہو اور خنثیٰ جانور جس میں نر اور مادہ دونوں کی علامتیں ہوں اور جلالہ جو صرف غلیظ کھاتا ہو ،ان سب کی قربانی ناجائزہے۔(بہا رِ شریعت ج ۳ ، ص ۱۴۰)

مسئلہ:قربانی کے جانورتین قسم کے ہیں :اونٹ،گائے،بکری۔
ہرقسم میں اس کی جتنی نوعیں ہیں سب داخل ہیں۔نر،مادہ،خصی غیر،خصی سب کاایک حکم ہے۔یعنی سب کی قربانی ہوسکتی ہے ،بھینس یہ گائےمیں شمار ہے،اس کی بھی قربانی ہوسکتی ہے،بھیڑاور دنبہ،بکری میں داخل ہیں،ان کی بھی قربانی ہوسکتی ہے۔(فتاویٰ عالمگیری،ج۵/ص۲۹۷زکریا بکڈپو،دیوبند)
مسئلہ:وحشی جانور(نیل گائے،ہرن)کی قربانی نہیں ہوسکتی ہے۔۔(بہارِشریعت،ج۳،ص:۳۴۰مکتبہ المدینہ دھلی)

قربانی کے جانوروں کی عمرکتنی ہونی چاہیے؟

اونٹ پانچ سال کا ۔گائےدوسال کی۔بکری ایک سال کی ۔اس سےعمر کم ہو تو قربانی جائز نہیں،زیادہ ہوتو جائزہے ؛ بلکہ افضل ہے۔ہاںدنبہ یا بھیڑ کا چھ ماہ کا بچہ اگر اتنا بڑاہوکہ دورسے دیکھنے میں سال بھرکامعلوم ہوتاہوتواس کی قربانی جائزہے۔(بہارِشریعت،ج۳،ص:۳۴۰مکتبہ المدینہ دھلی)

چرم قربانی:
قربانی کے چمڑے کو اپنے لیے نہیں بیچ سکتے ،اگر بیچ دیں تو اس کی قیمت کو صدقہ کردیں ۔چرم قربانی کی رقم مسجد میں لگا سکتے ہیں ،
اسی طرح مدارس دینیہ کی تعمیر میں لگا نا جائز ے۔
”اعلیٰ حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :چرم قربانی مسجد ومدرسہ دینیہ اہل سنت میں دینا بھی ثواب کا کام ہے‘‘۔
(فتاوی رضویہ ،ج ۸/ص۴۸۴،رضا اکیڈمی، ممبئی)

قربانی کس پر واجب ہے؟
ہرآزاد،مقیم،صاحب نصاب مسلمان مردوعورت پرہرسال اپنی طرف سےقربانی واجب ہے۔اگرنہیں کرےگا تو سخت گنہگار،قہرقہارمیں گرفتاراور عذاب جہنم کاسزاوار ہوگا۔(بہارِشریعت،حصہ،۱۵ج۳ص:۳۳۲)

مقیم پر قربانی واجب ہے اور مسافر پر نہیں ہے۔(تنویرالابصارمع ردالمحتار،ج۹،ص:۴۵۴،مکتبۃ المدینہ،بیروت)

صاحبِ نصاب کون ہے؟

درِ مختار میں یہ ہیکہ قربانی صاحبِ نصاب پر واجب ہے ۔صاحب درِ مختار اور دیگر فقہا ء کرام فرماتے ہیں کہ جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی ہو ،یا ساڑھے سات تولہ سونا ہو ،یا اتنی ملکیت کے برابر روپیہ ہو ،یا اتنی ملکیت کی چیز ہو ،جو حاجتِ اصلیہ کے علاوہ ہو ،اس شخص پر قربانی واجب ہے ۔دوسرا یہ ہے کہ قربانی واجب ہو نے کے لیے چار شرطیں ہیں ۔(۱) بالغ مسلمان (۲)مالک نصاب (۳) آزاد ہو (یعنی غلام نہ ہو ،)(۴) مقیم (یعنی مسا فر نہ ہو،کیو نکہ صاحب درِ مختار فرماتے ہیں کہ :حاجی پر قربانی واجب نہیں ہے )۔(درِمختار ج۹،ص ۳۸۲۔ بہارِشریعت،حصہ،۱۵ج،۳ص:۳۳۳)
مسائل قربانی:

مسئلہ : قربانی کے وقت میں جانور قربانی کرناہی لازم ہے۔کوئی دوسری چیز اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتی۔مثلا بجائے قربانی کے بکری یا اس کی قیمت صدقہ کردی تو یہ ناکافی ہے۔ اس میں نیا بت ہوسکتی ہے یعنی خود قربانی کرنا ضروری نہیں بلکہ دوسرے کو اجازت دیدی اور اس نے کردی تو یہ ہوسکتا ہے۔
(فتاویٰ عالم گیری ،ج۵،ص:۲۹۳،زکریا بک ڈپو،دیوبند)
مسئلہ :باپ اگر ہر سال مالک نصاب ہے تو اس کو ہر سال اپنے نام سے قربانی واجب ہوگی ،اور باپ کے ساتھ بیٹا،بیوی ،یا دوسراکوئی مالک نصاب ہو ،اس پر بھی اپنے نا م سے الگ قربانی واجب ہوگی ،اگر باپ نےچند سال اپنے نام کی قربانی کی اور مالک نصاب ہوتے ہوئے بھی کسی سال بیٹے ،بیوی کے نام کی قربانی کی اور اپنے نام کی نہ کی وہ گنہگار ہوگا ۔ (فتاویٰ فیض الرسول ج۲،ص ۴۳۹)
خلا صہ یہ کہ گھر میں جو مالک نصاب ہوگا اسی کے نام پر قربانی واجب ہوگی ، اگرچہ کئی سالوں سے اپنے نام سے قربانی کر رہاہو،اور اگر گھر میں کئی مالک نصاب ہوں تو ہر ایک پر قربانی واجب ہوگی۔
مسئلہ:شرکت میں گائے کی قربانی ہوئی تو ضروری ہے کہ گوشت وزن کرکے تقسیم کیا جائے ۔اندازے سے تقسیم نہ کریں ؛ کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ کسی کو زائد یا کسی کو کم ملے اور یہ ناجائز ہے ۔(بہارِشریعت ،حصہ:۱۵،ج۳،ص:۳۳۶،مکتبہ المدینہ،دھلی )
مسئلہ: بہتر طریقہ ہے کہ قربانی کے گوشت تین حصے کیے جائیں ،ایک حصہ غریب و مسکین کےلیے ،ایک حصہ دوست و احباب کےلیے اور ایک حصہ گھر والوں کےلیے۔اگر اہل و عیال اور بال بچے زیادہ ہوں تو بہتر ہے کہ سارا گوشت اپنے گھر کے لیے رکھ لیں ۔قربانی کا گوشت کفارومشرکین کو نہ دیں۔(بہار ِشریعت ،ج۳)
قربانی میں شرکت کے مسائل :
جب قربانی کی شرطیں پائی جائیں ،تو اونٹ ،گائے،بھینس ،کا ساتواں حصہ واجب ہے، اس سے کم نہیں ہو سکتا ہے ،یہاں تک کہ اگر کسی شریک کا حصہ ساتویں سے کم ہو تو کسی کی قربانی صحیح نہیں ہوگی ۔

Comments are closed.