سنت ابراہیمی کیا ہے؟

 

از: مجاہد حسین پہراوی ایڈیٹنگ ایڈیٹر بصیرت آن لائن

9760142374

 

ذی الحجہ کے مہینے میں دو خاص عبادتیں ادا کی جاتی ہیں،حج اور قربانی ۔ اسلام کی یہ دونوں عبادتیں اللہ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم خلیل اللہ ؑ کی یادگار ہیں۔ ان دونوں عبادتوں کے ایک ایک رکن میں حضرت ابراہیمؑ کی اداؤں اور وفاؤں کی جھلک ہے، ان کی دعوت و انابت،اطاعت و فرمانبرداری، صبر و استقامت اور رشد و ہدایت کا پہلو مؤجزن ہے۔ قربانی کی مشروعیت بھی اسی لیے ہوئی تاکہ یہ ساری صفاتِ عالیہ ،اور یہ سارے نیک جذبات ہر ایک مومن کے قلب و جگر میں پیوست ہو،مسلمانوں کے دل ہر لمحہ ہر آن تسلیم و رضا کے جذبے سے سرشار ہو،ہر ایک کے دلوں میں ابراہیم سا ایماں پیدا ہو جائے، اسی لیے جب صحابہ کرامؓ نے پوچھا کہ یہ قربانی (کی حقیقت) کیا ہے ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھارے (روحانی) باپ حضرت ابراہیم ؑ کی سنت (اور طریقہ )ہے۔ (سنن ابن ماجہ ، باب ثواب الاضحیہ)

‌جناب نبی کریمﷺ نے قربانی کو ’’سنت ابراہیم،،فرمایا۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ حضرت ابرہیمؑ کا طریقہ کیا تھا ؟وہ کون سے اعمال و افعال تھے کہ جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے آنے والے مسلمانوں کے لیے ان کی یادپر مبنی اس عبادت کو واجب قرار دے دیا؟ وہ کیسی ادائیں رہی ہوں گی کہ خدا کو اتنا پسند آیا کہ ہر سال پوری امت مسلمہ کو ان کی یاد دہانی کرائی جاتی ہے؟ سنت ابراہیمی کیا ہے؟ پھر جب ان سوالوں کے جواب پانے کے لیے ہم سیرت سیدنا ابراہیم ؑ کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ سنت ابراہیمی یہ ہے کہ جب بھی کبھی دعوت دین کی خاطر گھربار چھوڑنا پڑے تو خندہ پیشانی سے اسے قبول کیا جائے، جب کبھی وقت کے ظالم بادشاہ اور حکمرانوں کے خلاف کھڑے ہونے ضروت پیش آئے تو پائے ثبات متزلزل نہ ہو، زندگی کے کسی مقام پر دین اسلام کے لیے اپنے آپ کو آگ کے حوالے کرنے کی نوبت آجائے تو عزم و حوصلہ میں کمی نہ آنے پائے۔ دکھ، مصیبت اور پریشانی کے عالم میں کبھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ رب تعالیٰ سے امید و آس کی ڈور نہ ٹوٹے گرچہ انتظار کی مدت ٨٤ سال کی طویل مدت کیوں نہ ہوجائے۔ جب بھی کبھی آل و اولاد کی محبت اور حکم الہی کا تقابل ہو جائے تو حکم الٰہی کو ترجیح دینا آسان ہو۔ رب تعالیٰ کی رضا اور دین اسلام کی سربلندی کے لیے اگر اپنی جان، اپنا مال اور وقت کی قربانی دینی پڑے تو ہم بہ خوشی تیار ہوں۔ سنت ابراہیمی یہ بھی ہے کہ دنیا جہاں کی تمام تر نیک اعمال کی توفیق مل جانے پر بھی کبھی بڑائی اور تکبر کا دل میں شائبہ تک نہ گزرے بلکہ شکر و حمد باری کے ساتھ اس کی قبولیت کے لیے ہر وقت سراپا دعا گو ہوں۔ جیسا کہ قرآن نے تذکرہ کیا ہے کہ یاد کرو اس وقت کو جب حضرت ابراہیم علیہ السلام بیت اللہ کی بنیادیں کھڑی کر رہے تھے، حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی ساتھ تھے ( ایسے عظیم الشان عبادت کے ادا کرتے وقت بھی عاجزی و انکساری کے ساتھ دعا کر رہے تھے) اے ہمارے رب! ہماری اس عبادت کو قبول فرما۔

 

مجاہد حسین پہراوی

[email protected]

Comments are closed.