میں نے یہ کتاب ان کے لیے نہیں لکھی تھی۔

محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
عصر حاضر کے ایک عظیم اسکالر، محقق اور عالم دین نے علامہ اقبال مرحوم کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے:
‘یورپ دیدہ مگر کعبہ رسیدہ، دماغ فلسفی، دل صوفی، رازی کے پیچ و تاب سے واقف، رومی کے سوز و گداز سے بھی آشنا، گفتار میں جوش، کردار میں ہوش، اسلوب شاعرانہ، طبیعت واعظانہ، شاعر مگر عارض و گیسو کے قصوں سے نفور، صوفی مگر مجاہدانہ حرارتوں سے معمور، علوم جدید کا سہشوار مگر ایمان و یقین سے سرشار، خود یورپ کے الحادانہ میں مگر دل حجاز کے خدا خانہ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس مجموعئہ اضداد کو ”اقبال“ کہا جاتا ہے۔
( بحوالہ وہ جو بیچتے تھے دوائے دل)
علامہ اقبالؒ کی پوری زندگی اور ان کی پوری شاعری عمل صالح کی دعوت، منکرات و بے حیائی سے روکنے کی کوشش اور مسلمانوں کو مغربی تہذیب و تمدن کی یلغار سے بچانے کی سعی و کوشش سے عبارت ہے، تعلیم کے سلسلہ میں ان کا نظریہ یہ تھا کہ علم ایک اکائی ہے، جس کی تقسیم ممکن نہیں، وہ علم کی تقسیم جدید و قدیم کے اعتبار سے درست نہیں مانتے تھے، وہ اس کے خلاف تھے، ان کے نزدیک علم کی تقسیم نافع اور غیر نافع کے اعتبار سے ہے نہ کہ قدیم و جدید کے اعتبار سے، وہ فرمایا کرتے تھے کہ
دلیل کم نظری ہے قصئہ قدیم و جدید
اقبال مرحوم مغرب کی علمی ترقی اور جدید اکتشافات کے معترف و قدر داں تھے، اور ان کے شوق علم کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے، وہ چاہتے تھے کہ یہی شوق علم اور جذبئہ حصول علم اس امت (مسلمہ) کے ایک ایک فرد میں پیدا ہو جائے، جو امت تعلیمی انقلاب لے کر اس دنیا میں مبعوث کی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔اقبال مرحوم چاہتے تھے کہ مسلمان مغرب کے میخائہ علم سے بھی استفادہ کریں، اور ان کے پاس جو علوم نافع ہیں ان کی سرمستیوں سے لذت یاب ہوں۔ وہ مسلمانوں کی بے راہ روی اور علم سے دوری، جوانوں کی تن آسانی و عیش پسندی پر کڑھتے تھے اور نوجوانوں کو خاص طور پر مخاطب کرکے کہتے تھے۔۔۔۔۔
تیرے صوفے ہیں افرنگی تیرے قالیں ہین ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن اسانی
علامہ اقبال مرحوم کے ایک دوست نے ان کے بارے میں ایک واقعہ لکھا ہے ، جس میں ہم سب کے لیے سبق اور پیغام ہے، اور جو واقعہ ہر ایک کے لیے درس عبرت ہے۔ علامہ اقبال مرحوم کے دوست ہی کے الفاظ میں یہ واقعہ ہم اپنے قارئین باتمکین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں: ”میں ایک دن ڈاکٹر صاحب سے ملنے گیا تو کیا دیکھتا ہوں، اکیلے بیٹھے زار و قطار رو رہے ہیں، انہوں نے کہا: خیر باشد! گھر میں سب بخیریت ہیں؟ علامہ اقبال نے جواب دیا، ہاں سب خیریت سے ہیں، میں نے پوچھا، تو پھر آپ اس طرح رو کیوں رہے ہیں؟ علامہ اقبال نے جواب دینے کے بجائے میری طرف ایک خط بڑھا دیا جو لندن ولایت سے اسی دن ان کے نام آیا تھا، یہ خط انگلستان کے ایک پروفیسر کی طرف سے تھا، جس میں علامہ اقبال سے ان کی ایک فارسی کتاب کا ترجمہ کرنے کی اجازت مانگی تھی، میں نے تعجب سے کہا، اس خط میں ایسی کون سی بات ہے کہ آپ نے یوں رونا شروع کردیا؟ آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ دوسرے ملکوں کے اہل علم اپ کے کلام کو قدر کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور یورپ کے لوگوں کو بھی آپ کے افکار و نظریات جو درحقیقت اسلام کی تعلیمات اور افکار و نظریات ہیں سے واقف کرانا چاہتے ہیں،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علامہ اقبال نے جو اس وقت تک سر جھکائے بیٹھے تھے، سر اٹھا کے میری طرف دیکھا اور پھر کہنے لگے۔۔ مجھے اس بات پر رونا آگیا کہ جس قوم کے دل میں احساس خودی پیدا کرنے کے لیے یہ کتاب لکھی تھی، وہ نہ تو پوری طرح اس کا مطلب سمجھ سکی ہے اور نہ ہی اس کی قدر کرسکی ہے ، دوسری طرف ولایت والوں (انگلستان اور لندن کے رہنے والوں ) کا حال یہ ہے کہ وہ میرے پیغام کو اپنے ملک کے لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ "حالانکہ میں نے یہ کتاب ان کے لیے نہیں لکھی تھی۔“ (ماہنامہ ندائے اعتدال، اپریل ٢٠١٥ء)
مذکورہ واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ علامہ اقبالؒ اس امت کی زبوں حالی اور علمی پستی و انحطاط پر کس قدر فکر مند تھے، اور وہ امت مسلمہ کو کس مقام و مرتبہ پر دیکھنا چاہتے تھے اور امت کے نوجوانوں کو کس طرح شاہین صفت بننے کی دعوت دیتے تھے۔ کاش یہی فکر مندی اور کڑھن ہمارے اندر پیدا ہو جائے۔ آمین
لیکن آج امت مسلمہ تعلیم کے میدان میں غیروں سے کس قدر پیچھے ہے اور علوم و فنون میں وہ کس قدر دوسروں کی محتاج ہے، یہ کسی سے مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے۔ علم سے دوری اور اصحاب علم کی ناقدری کا رجحان امت میں دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ آج اگر یہ امت زوال و پستی کے قعر مذلت سے نکلنا چاہتی ہے تو اقراء کے پیغام اور مشن کو اپنانا ہوگا اور زیور علم سے آراستہ ہوکر امت کی قیادت کرنی ہوگی۔
Comments are closed.