اسلام زبردستی مذہب تبدیلی کو قبول نہیں کرتا ہے۔

 

مفتی محمد تعریف سلیم ندوی
جامعہ صدیقیہ عین العلوم
ہوڈل روڈ، نوح (میوات)

میرے وطنی و انسانی بھائی!
اشوک کمار صاحب! آپ میرے دوست ہیں اور میرا آپ سے سالوں کا رشتہ ہے.
میرا سوال ہے آپ سے!

کیا آپ کو کبھی میں نے زبردستی، دھمکا کر، لالچ دیکر یا کسی اور حربے سے اسلام قبول کرنے کو کہا ہے..!؟
کیا آپ نے کبھی ایسا احساس کیا ہے؟
جواب نفی میں ہوگا، پتہ ہے کیوں؟؟ کیونکہ مذہب کا تعلق روح و نفس سے ہوتا ہے، اسی لئے انسان سب سے زیادہ مذہب کی جانب مائل ہوتا ہے چونکہ اس کا تعلق روح سے ہوتا ہے. جذباب و خیالات سے ہوتا، دل و دماغ سے ہوتا ہے.
اور مذہب میں اسے سکون ملتا ہے، راحت نصیب ہوتی ہے، دنیا میں مختلف مذاہب ہیں، سب کا طرزِ عبادت بھی مختلف ہے،

اب مجھے کوئی بتائے کہ زبردستی کسی کے ضمیر پر اپنا سکہ کیسے جمایا جا سکتا ہے؟
کیا لالچ دیکر، بہلا پھسلا کر جذبات و افکار پر قابو کیا جا سکتا ہے؟
ہرگز نہیں.. بالکل نہیں…!
جب کوئی بندہ مسلمان ہوتا ہے تو اسے کچھ الفاظ عربی میں پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرنا ہوتا ہے.
اور زبان کے ساتھ دل سے قبول کرنا ضروری و لازمی ہے ورنہ اس کے اسلام و ایمان کا اعتبار نہیں، اسے اقرار باللسان و تصدیق بالقلب کہا جاتا ہے.
Confession with the tongue and affirmation with the heart
اسی کو علامہ اقبال نے کہا ہے

خِرد نے کہہ بھی دیا ’لااِلہ‘ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

اگر ہم مان بھی لیں کہ اسے دھمکا کر یا بہلا پھسلا کر تبدیلی مذہب پر آمادہ کر بھی لیا جائے تو وہ موقع ملتے ہی بپھر جائے گا اور تھوپا ہوا مذہب ترک کر دیگا.
اب ہم آتے ہیں ہندوستان میں تبدیلیء مذہب کے حساس موضوع پر…! بھارت ایک جمہوری ملک ہے یہاں پانچ بنیادی حقوق میں ایک بنیادی حق اپنے مذہب کی پیروکاری و تابعداری سے بڑھ کر مکمل تشہیر و پرچار کی عام اجازت ہے، یہ قانونی و آئینی حق تمام شہریوں کو یکساں طور پر حاصل ہے .
اسی لئے تمام مذاہب کے لوگ اپنے طریقے سے اپنے معابد میں عبادت کرتے ہیں.
اسلام بھی انہیں مذاہب میں سے ایک ہے، اس کے ماننے والے مسجد بناتے ہیں اور بغیر کسی واسطہ کے سیدھا دنیا کے پورے نظام کے پالنہار سے روبرو ہوتے ہیں، وہ کسی زمین والے کے آگے نہیں جھکتے، عبادت کے لئے صرف مسجد میں جاکر اوپر والے رب کے لیے سجدہ کرتے ہیں اور اور مدد طلب کرتے ہیں.
اسلام مسلمانوں کو بھی کسی لڑکی کو دامِ فریب میں الجھا کر شادی کرنے اور مسلمان بنانے کی ترغیب نہیں دیتا اور اگر ایسا ہو رہا ہے تو یہ پھر دونوں کمیونٹی کے اندر ہے، جہاں کِرن راؤ عامر خان سے شادی کر لیتی ہے تو وہیں نصرت جہاں نِکِھل جین سے شادی کر لیتی ہیں.
پھر اسے لو جہاد قرار دینا کہاں کا انصاف ہے.
جبکہ ملک کے دسیوں غیر مسلم بھائیوں نے اسلام کا غلط استعمال کیا بلکہ توہین کی صرف اپنے مفاد و خواہش کی تکمیل کے لیے اسلام کا لبادہ اوڑھا. اور یہ صرف دوسری شادی کے لئے کیا،چونکہ ہندو مذہب میں دوسری شادی کی اجازت نہیں ہوتی اور اسلام میں چار تک کی اجازت ہے، لہٰذا قانونی چارہ جوئی سے تحفظ پانے کے لیے ایسا کرتے ہیں،
فلمی دنیا کے مشہور اداکار دھرمینرا سے دلاور ہوئے تو ہیما مالنی عائشہ ہو گئی،دھرمیندر نے دوسری شادی کی ہے اور سنجے دیول و ابھے دیول ان کی پہلی بیوی کی سنتان ہیں.
سیاسی دنیا میں وزیر اعلیٰ ہریانہ بھجن لال کے بیٹے چندر موہن چاند ہو گئے تھے اور ان کی معشوقہ کا نام فضا رکھ لیا تھا اس واقعہ نے اپنے وقت میں بڑی شہرت پائی تھی، آس طرح کے دسیوں کیسز وطنِ عزیز میں آئے دن ہوتے رہتے ہیں.
بات آئی لالچ دیکر مسلمان بنانے کی تو ہندوستان کے مسلمان کو کہیں تو پَنچر پوتر کہا جاتا ہے وہیں دوسری جانب روپوں کی ریل پیل سے مذہب تبدیلی کا الزام سر مڈھا جاتا ہے…!

حالانکہ قرآن مجید میں صاف طور پر ہدایت دی گئی ہے کہ ” لااکراہ فی الدین”(بقرہ) دین میں کوئی زبردستی نہیں. دوسری جگہ مزید بڑھ کر کہا گیا "لکم دینکم ولی دین” (کافرون) تمہارا دین تہمیں مبارک،ہمارا دین ہمیں عزیز.
دوسری جانب یہ بھی کہا گیا کہ کوئی حق کا متلاشی اور اسلام کی پناہ میں آنا چاہتا ہے تو پھر کھلے ہاتھوں اس کا استقبال کرو، اسے عزت دو، اس کے معاون بنو.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابھی آگرہ میں راشن کارڈ دیکر مذہب تبدیلی کی مہم ہمارے ہندو بھائیوں نے شروع کی اور اسے گھر واپسی کا خوبصورت ٹائٹل دیا گیا.
اور اگر کوئی اسلام قبول کرے تو اسے دھرمانترن کہہ کر بدنام کیا جائے اور مجرمانہ فعل قرار دیا جائے، یہ تو سراسر ناانصافی ہے، آپ کریں تو گھر واپسی مسلمان کریں زبردستی…!یہ تو ظلم ہوا، جانب داری ہوئی، بے انصافی ہوئی.
اور کوئی بھی حق پسند اسے قبول نہیں کرے گا.

Comments are closed.