احکام عید الاضحٰی وقربانی

سید محمد میاں مدنی
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے عشرہ ذی الحجہ سے بہتر کوئی زمانہ نہیں ان میں ایک دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر اور ایک رات میں عبادت کرنا شب قدر کی عبادت کے برابر ہے، قرآن مجید سورہ والفجر میں اللہ تعالیٰ نے دس راتوں کی قسم کھائی ہے وہ دس راتیں جمہور کے قول میں یہی عشرہ ذی الحجہ کی راتیں ہیں خصوصاً نویں یعنی عرفہ اور عید کی درمیانی رات ان تمام ایام میں بھی خاص فضیلت رکھتے ہیں یوم عرفہ یعنی نوویں ذی الحجہ کا روزہ رکھنا ایک سال آئندہ اور ایک سال گزشتہ کا کفارہ ہے اور عید کی رات میں بیدار رہ کر عبادت میں مشغول رہنا بہت بڑی فضیلت اور ثواب کا موجب ہے۔نویں ذالحجہ کی صبح سے تیرہویں ذالحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد بآواز بلند ایک مرتبہ تکبیر تشریق پڑھنا واجب ہے فتویٰ اسی پر ہے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے والا اور تنہا پڑھنے والا برابر ہیں مرد اور عورت دونوں پر واجب ہے البتہ عورت آہستہ تکبیر کہے۔
عید الاضحی کے روز یہ چیزیں مسنون ہیں صبح سویرے اٹھنا غسل اور مسواک کرنا پاک صاف اور عمدہ کپڑے جو اپنے پاس ہوں پہننا خوشبو لگانا عید کی نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا عید گاہ کو جاتے ہوئے تکبیر بآواز بلند پڑھنا قربانی ایک اہم عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے زمانہ جاہلیت میں بھی اسکو عبادت سمجھا جاتا تھا مگر بتوں کے نام پر قربانی کرتے تھے اسی طرح آج تک دوسرے مذاہب میں قربانی مذہبی رسم کے طور پر ادا کی جاتی ہے بتوں کے نام پر یا مسیح کے نام پر قربانی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ جس طرح نماز اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی نہیں ہوسکتی اسی طرح قربانی بھی خالصتاً اسی کے نام پر ہونی چاہیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کے بعد دس سال مدینہ طیبہ میں قیام فرمایا ہر سال برابر قربانی کرتے تھے، جس سے معلوم ہوا کہ قربانی صرف مکہ مکرمہ کے لئے مخصوص نہیں بلکہ ہر اس شخص پر ہر شہر میں بعد از تحقیق شرائط واجب ہے (ترمذی) اور جمہوراسلام کے نزدیک قربانی واجب ہے (شامی)
قربانی ہرمسلمان،عاقل،بالغ،،مقیم پر واجب ہوتی ہے جسکی ملک میں ساڑھے باون تولے چاندی یا اس کی قیمت کا مال اسکی حاجات اصلیہ سے زائد ہو،یہ مال خواہ سونا،چاندی،یا اسکے زیورات ہوں یا مال تجارت یا ضروریات سے زائد گھریلو سامان یامسکونہ مکان سے زائد کوئی مکان وغیرہ (شامی) قربانی کے معاملے میں اس پر سال گزرنا بھی شرط نہیں بچہ اور مجنون کی ملک میں اگر اتنا مال ہو بھی تو اس پر یا اس کی طرف سے اسکے والی پر قربانی واجب نہیں،اسی طرح جو شخص شرعی قاعدے کے موافق مسافر ہو اس پر بھی قربانی واجب نہیں۔
مسئلہ:جس شخص پر قربانی واجب نہ تھی اگر اس نے قربانی کی نیت سے کوئی جانور خرید لیا تو اس کی قربانی واجب ہوگئی قربانی کی عبادت صرف تین دن کے ساتھ مخصوص ہے دوسرے دنوں میں قربانی کی کوئی عبادت مخصوص نہیں پہلے دن قربانی افضل ہے اگر قربانی کے دن گزر گئے ناواقفیت یا غفلت یا کسی عذر سے قربانی نہیں کر سکا تو قربانی کی قیمت فقراء اور مساکین پر صدقہ کرنا واجب ہے, مگر عید کے دنوں میں قربانی کی بجائے صدقہ کرنے سے یہ واجب ادا نہ ہوگاہمیشہ گنہگار رہے گا کیونکہ قربانی ایک مستقل عبادت ہے جن بستیوں اور شہروں میں جمعہ وعیدیں جائز ہیں وہاں نماز عید سے پہلے قربانی جائز نہیں اگر کسی نے نماز عید سے قبل قربانی کر لی تو اسکو دوبارہ قربانی لازم ہے البتہ چھوٹے گاؤں میں جہاں جمعہ اور عیدین کی نماز نہیں ہوتی تو یہ لوگ دسویں تاریخ کی صبح کے بعد قربانی کرسکتے ہیں، ایسے ہی اگر کسی وجہ سے نماز عید پہلے دن نہ ہو سکے تو نماز عید کا وقت گزر جانے کے بعد قربانی درست ہے۔مسئلہ: قربانی رات کو بھی جائز ہے،مگربہتر نہیں، (شامی)
اپنی قربانی کو خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل ہے،اگرخود ذبح کرنا نہیں جانتا تو دوسرے سے ذبح کرسکتا ہے مگر ذبح کے وقت وہاں خود بھی حاضر رہنا افضل ہے،
مسئلہ: قربانی کی نیت صرف دل سے کرنا کافی ہے اور ذبح کے وقت دعا پڑھنا سنت ہے جس جانور میں کئی حصہ دار ہوں تو گوشت وزن کر کے تقسیم کریں اندازے سے تقسیم نہ کریں۔ افضل یہ ہے کہ قربانی کا گوشت تین حصے کر کے ایک حصہ اپنے اہل و عیال کے لیے رکھے،ایک حصہ احباب واعزا میں تقسیم کرے،ایک حصہ فقراء اور مساکین میں تقسیم کرے اور جس شخص کے عیال زیادہ ہوں وہ تمام گوشت خد بھی رکھ سکتا ہے قربانی کا گوشت فروخت کرنا حرام ہے ذبح کرنے والے کی اجرت میں گوشت یا کھال دینا جائز نہیں،اجرت علیحدہ دینی چاہئے۔
ائمہ اربعہ کے مذاہب میں قربانی کی حیثیت،حنفیہ کا مذہب”قربانی واجب ہے ہر مسلمان،حر،مقیم،مالدار،پر قربانی کے دن اپنی طرف سے بھی دے،اوراپنی نابالغ اولاد کیطرف سے بھی”شافعیہ کا مذہب”قربانی سنت ہے،اسکے چھوڑنے کو میں پسند نہیں کرتا”مالکیہ کا مذہب”امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ کوئی قربانی کی قدرت رکھتے ہوئے اسے چھوڑ دے(یعنی قربانی نہ کرے)حنابلہ کا مسلک”ابنِ قدامہ لکھتے ہیں کہ اکثر اہل علم کے نزدیک قربانی سنت مؤکدہ ہے واجب نہیں ہے اور امام ربیعہ،مالک،ثوری،اوزاعی،لیث،اور امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ واجب ہے”
ہر عبادت میں ثواب کے علاوہ کچھ مخصوص آثار بھی ودیعت رکھے گئے ہیں جیسے نماز میں تواضع وانکساری،ذکوۃ میں حب مال سے قلب کی صفائی،روزہ اور حج میں اللہ جل جلالہ کی محبت میں ترقی حاصل ہوتی ہے،اسی طرح قربانی سے ایمان و اخلاص میں قوت،اعمال شاقہ کے لیے عزم وہمت پیدا ہوتی ہیقربانی کی حقیقت سے ناآشنا مسلمان سوچیں اور غور کریں،قربانی کو ایک رسم یا عید کی تفریح کی حیثیت سے نہیں بلکہ اس کی حقیقت کو سامنے رکھ کر سنت ابراہیمی کے اتباع کے طور پر ادا کریں تو ایمان وعمل میں قوت اور اخلاص کی برکات کا مشاہدہ ہونے لگے اللہ تعالیٰ توفیق عمل نصیب فرمائیں۔آمین
Comments are closed.