ماہ ذی الحجہ: اہمیت اور خصوصیات(١)

محمد صابر حسین ندوی
نظام الہی ہے کہ سخت گرمی، تپش اور چلچلاتی دھوپ کے بعد برسات کا موسم آئے، رِم جھم بارش سے جھلستی جلدیں، انسانی دل و دماغ کو ٹھنڈک پہنچائی جائے، تھکے ہارے انسان کیلئے یہ بھی اس رحیم و کریم. کا بندوبست ہے کہ خاص مشروبات سے اس کی آنتیں ٹھنڈی اور روح پرسکون کر دی جائیں، تنگی بعد آسانی کا فارمولا اسی نے بنایا ہے، بندوں کو گناہوں سے بچانے اور اگر دامن عصیاں سے لگ جائے تو اسے پاک و صاف کرنے کیلئے توبہ و استغفار کا دروازہ بھی اسی نے کھولا ہے؛ جس میں بسااوقات ایسے مواقع بھی فراہم کر دیتا ہے کہ انسان کی معراج ہوجائے اور عبدیت کے فرائض انجام دیتا ہوا رب ذوالجلال کا سب سے قریبی بندہ بن جائے؛ چنانچہ یہ اللہ تعالی کا کرم و احسان ہے کہ وہ جس کو چاہے منتخب کرے اور جس کو چاہے ترک کرے، کسی کو افضل تو کسی کو مفضول قرار دے، وہ اللہ حاکم اور قادر مطلق ہے، مالک الملک اور سبھوں کا پالنہار ہے، اس سے کوئی سوال نہیں کیا جاسکتا، اس کے حکم کو کوئی رد نہیں کر سکتا؛ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی تخلیق اور عدل کے ساتھ اس نے بعض کو بعض پر فوقیت و اہمیت بھی دی ہے، فرشتوں میں روح الامین، انسانوں میں انبیاء اور ان میں بھی سردار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو ممتاز کیا ہے، تو وہیں ہفتے میں جمعہ کو اور مہینوں میں رمضان المبارک کو برتری عنایت کی ہے، مگر ایک روایت میں رمضان کے ساتھ ساتھ سید الشھور ذوالحجہ کو بھی قرار دیا گیا ہے، خاص طور پر ذی الحج کے ابتدائی دس دن کی فضیلت اور ان میں بھی یوم عرفہ کی اہمیت کو دوچند بیان کیا گیا ہے، بسااوقات یہ خیال آتا ہے کہ یوم عرفہ ہی سب سے افضل ترین دن ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ علماء کرام نے ان دونوں ماہ کا تقابلی جائزہ لیا ہے، اور اس بارے میں اختلاف نقل کیا ہے کہ ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن افضل ہیں یا رمضان شریف کے آخری دس دن؟ کچھ علماء نے عشرہ ذی الحجہ کو افضل مانا اور کچھ اہل علم نے رمضان شریف کے آخری عشرے کو افضل بتایا۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا اوریہی مختار مذہب بھی ہے کہ عشرہ ذی الحجہ کے دن رمضان کے آخری دنوں سے افضل ہیں؛ کیوں کہ انہی دنوں میں یومِ عرفہ ہے اوررمضان کے آخری عشرے کی راتیں ذوالحجہ کے ابتدائی عشرے سے افضل ہیں؛ کیوں کہ انہی راتوں میں شب قدرہے۔(حاشیہ مشکوٰۃ صفحہ:١٢٨) بہرحال اسلامی مہینوں میں آخری مہینہ ذو الحجہ کا ہے، چاند کی تاریخ اور شب و روز کے بعد یہی وہ ماہ ہے جس پر سال کی انتہاء ہے، انسان کی عمر سے ایک سال کی اینٹ اسی ماہ کے مطابق کھینچی جاتی ہے، قرب قیامت کی گھڑی مزید قریب ہوتی جاتی ہے، ہر ماہ ذی الحج قیمت کی گھڑی، یوم جزا، یوم حشر اور یوم حساب و کتاب کو قریب کر جاتی ہے-
کہتے ہیں کہ اعمال کا دارومدار اختتام پر ہوتا ہے، ایک شخص اگر زندگی بھر للہیت و تقشف میں گزارے لیکن خدا نہ خواستہ آخری لمحہ بدنصیبی نے آپکڑا تو اس سے سارے اعمال ریت کے ڈھیر کی طرح ڈھہ جاتے ہیں، حدیث میں بھی یہ بات آئی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:انما الأعمال بالخواتيم – (مسند احمد :٣٧/٤٨٨- طبرانی کبیر :٦/١٤٣) ایسے میں سمجھا جاسکتا ہے کہ آخری ماہ کی کیا اہمیت ہوگی، ایسا بھی نہیں ہے کہ اس مہینہ کا احترام صرف اسلام کی بعثت کے بعد ہو؛ بلکہ یہ ان مہینوں میں سے ہے، جس کو ہمیشہ قابل احترام سمجھا گیا ہے، اس کی تعظیم کا سدا خیال رکھا گیا ہے؛ حتی کہ اس کا احترام شروع زمانہ سے چلتا آرہاہے، چنانچہ ذوالحجہ کا مہینہ زمانہ جاہلیت میں بھی محترم و متبرک سمجھا جاتا تھا، وہ بدو عرب جو جنگ و قتال کے عادی تھے جن کے پاس زندگی کا سب سے بہترین مشغلہ لوٹ پاٹ کرنا تھا، یہی ان کی معیشت اور روزگاری کا ذریعہ تھا، اور جو احترام و عزت کے نام پر صرف اپنی ذات اور معبودوں کو ہی مقدم رکھتے تھے؛ بلکہ اکثر تو اپنے نفس سے اوپر ہی نہیں اٹھ پاتے تھے، ہوا و ہوس ان کی فطرت میں سرایت کر گئی تھی، تلوار، گھوڑے کے سوا کل جائیداد کچھ اور نہ تھی، اور بات بات پر صدہا سال کی جنگ مول لے لیا کرتے تھے، وہ جہال بھی ذی الحجہ کو عظمت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، مؤرخین نے لکھا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں چوں کہ اشہر حرم میں جنگ و جدال اور قتل و قتال سے لوگ باز رہتے تھے تو اس اہتمام اس قدر ہوتا تھ کہ ان کے سامنے سے اگر باپ کا قاتل بھی گذرتا تو وہ ان مہینوں کی تعظیم میں اس کو چھوڑدیتے، غصہ و غم کا گھونٹ پی جاتے، کلیجہ کی ابلتی نفرت پر مٹی ڈال دیتے مگر دست بستہ رہتے، اگرکسی نے اس مہینے کی حرمت پر قدغن لگایا اور اس نے اپنے غصے و انتقام کو فوقیت دی تو وہ پورے معاشرے کے سامنے ذلیل و خوار سمجھا جاتا تھا، ہر کوئی اس پر لعن وطعن کرتا، معبودوں کا ناراض کرنے والا اور راندہ درگاہ جانا جاتا، اسے ایک عظیم گناہ کا مرتکب اور گستاخ جانا جاتا جس کی کوئی تلافی نہیں، خود قرآن کریم نے جن چار مہینوں کو اشہر حرم قرار دیا ان میں سے ایک ذوالحجہ ہے، اشہر حرم کو حرمت والا دو معنی کے اعتبار سے کہاگیا، ایک تو اس لئے کہ ان میں قتل و قتال حرام ہے، دوسرے اس لیے کہ یہ مہینے متبرک اور واجب الاحترام ہیں، ان میں عبادات کا ثواب زیادہ ملتا ہے، ان میں سے پہلا حکم تو شریعت اسلام میں منسوخ ہوگیا، مگر دوسرا حکم احترام و ادب اور ان میں عبادت گذاری کا اہتمام اسلام میں باقی ہے۔ (معارف القرآن: ٤/٣٢٧) نبی کریم ﷺ نے ایک موقع پر اس مہینے کو اشہر حرم قرار دیتے ہوئے عظیم و برتر کا لفظ ذکر کیا ہے،آپ کا ارشاد ہے :سَیِّدُ الشُّھُوْرِ شَھْرُ رَ مَضَانَ وَاَعْظَمُھَا حُرْمَۃً ذُوْالْحِجَّۃِ۔ ( فضائل الاوقات للبیہقی: ٨٩)
[email protected]
7987972043
Comments are closed.