میرے ہمدم میرے رفیق  نامور فاضل نوجوان حضرت مولانا حافظ اظہارالحق قاسمی علیگ کا سانحہ ارتحال۔۔۔۔

 

مفتی محمد احمد نادر القاسمی

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

 

ایک انمول ہیرا، شگفتہ مزاج، بااخلاق، ہنس مکھ، ہمہ جہت خوبیوں کامالک، اپنوں میں اپنا اورغیروں میں اس کا، یاروں کا یار، اپنوں اورپرایوں کا غمخوار، شاندارشعلہ بیان مقرر، مناظر، بہترتین یاداشت رکھنے والا حافظ قران، دارالعلوم دیوبند اورعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی سےاپنی تعلیم کی تکمیل کرنے والا، محدث جلیل مفتی سعید احمد پالن پوری نوراللہ مرقدہ کا خاص تربیت یافتہ، عالم باعمل، باشعور اورایماندار تاجر، بے باک اورایمانی وملی حمیت سے سرشارنوجوانوں کاقاٸد، متحمس اورحق گو، آج اپنے ہزاروں شیداٸیوں، دوستوں اور اہل خانہ کو ہمیشہ کے لٸے داغ مفارقت دے کر اپنے عنفوان شباب میں ہی عارضہ قلب کی تکلیف سے جنگ لڑتے ہوۓ مورخہ ١٢ جولاٸی ٢٠٢١ مطابق یکم ذی الحجہ ١٤٤٢ھج بروزدوشنبہ کو بھڑوچ گجرات سے بذریعہ ٹرین دہلی آتے ہوٸے متھرایوپی کے قریب صبح کی کسی ساعت میں ہمیشہ کے لٸے اس دارفانی کوخیرباد کہ گیا۔إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ۔تغمداللہ بغفرانہ واعطی مثواہ فی جنة النعیم۔

ان کے انتقال سے قرانی سوجھ بوجھ رکھنے والاملت کاایک درخشندہ ستارہ غروب ہوگیا۔

ان کے رخصت ہوجانے سے ملت کااور بالخصوص نٸی سوچ کی حامل ملت کی اس نٸی نسل کا اورمیراذاتی عظیم خساراہواہے۔اس صالح انقلابی اورمخلص دوست کے جانے سے میں ایک پختہ فکر رکھنے والے مشیر اوربات بات پہ حوصلہ دینے والی شخصیت سے محروم ہوگیا، ان کا اس طرح بچھڑنا اپنے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ مجھے بھی بڑے صدمہ سے دوچار کرگیاہے ۔ان کی کمی ہمیشہ اوربرسوں ثڑپاۓ گی، سب کچھ ہوگا مگر وہ نہیں ہوں گے ۔اب توصرف ان کی یادیں باقی رہیں گی۔ان کے بغیر مجلسیں اداس اور محفلیں سونی رہیں گی۔ابھی کم عمر تھے، نشیط تھے، عزم وحوصلہ بھی پرجوش اور جوان تھا، بلند ہمت تھے، زبان میں بڑی مٹھاس اورطاقت تھی، ابھی ان کو بہت کچھ دیکھنا اورکرناتھا ۔ابھی تو زندگی کی زیادہ سے زیادہ٤٠۔٤١ بہاریں ہی دیکھیں تھیں، بار بار ذہن میں آتاہے

”وہ پھول اپنی لطافت کی دادپانہ سکا ۔

کھلا ضرور مگر کھل کے مسکرا نہ سکا۔

دل نہیں مان رہاہے کہ ان کو مرحوم کہوں مگر رب کی مرضی اور اسکے فیصلے کے آگے ہر ایمان والے کو یہ کہناپڑتاہے ۔ربنا انک علی کل شیٸ قدیر۔۔

جب اس نے چاہا جس کی گود اور آنگن میں چاہا ہم آگٸے، جب وہ اپنے پاس بلاٸے گا واپس چلے جاٸیں گے۔۔بقول ۔حضرت ابراہیم ذوق کے۔:

”لاٸی حیات ۔آٸے ۔قضا لے چلی چلے۔

اپنی خوشی نہ آٸے نہ اپنی خوشی چلے

ہوعمر خضر بھی تو کہیں گے بوقت مرگ۔

ہم کیارہے یہاں ابھی آٸے ابھی چلے۔

دنیانے کس کاراہ فنا میں دیاہے ساتھ ۔

تم بھی چلے چلو یوں ہی جب تک چلی چلے۔

اللہ تعالی نے ہر انسان کے آنے اور جانے کانظام اور وقت مقرر کررکھاہے، اس سے نہ آگے ہوسکتاہے اور نہ پیچھے۔”لایستأخرون ساعة ولایستقدمون“

اس احساس اور ایمان کے ساتھ اللہ رب کریم سے دعاکرتے ہیں کہ اللہ تعالی مولانا اظہارالحق قاسمی علیگ صاحب کو غریق رحمت فرماۓ اور پسماندگان کو صبر جمیل اور ان کے جانے سے جو ملک وملت اور افراد خانہ کاخساراہواہے ۔اللہ ان کا نعم البدل عطافرماۓ ۔ایں دعا ازمن وجملہ جہاں آمین باد

Comments are closed.