ماہ ذی الحجہ: اہمیت اور خصوصیات -(٢)

محمد صابر حسین ندوی
ماہ ذی الحجہ کی اہمیت:
ماہ ذی الحجہ ایک روشن، تابناک سیارے اور ستارے کے مانند ہے، اس کی روشنی شمار کرنے اور زمانے کے سامنے چیخ چیخ کر بتانے کی نہیں ہے؛ بلکہ ہر آنکھ اس کی جانب کھنچی چلی جاتی ہے اور دل اس پر فدا ہوئے جاتے ہیں، سورج کو بھلا کس تعارف کی ضرورت؟ خوشبو کسی کی طرفداری کی کیا حاجت؟ بلکہ سورج کی گرماہٹ محسوس ہوتی ہے، خوشبو مسام جان کو معطر کردیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات تلے بہت سے محققین، معلمین اور قلمکاروں نے اس کی اہمیت پر روشنائی صرف کی ہے، اس کی جامعیت اور خصوصیات کو لوگوں کے سامنے رکھا ہے، جنہیں پڑھ کر عقل کی گرہیں کھل جاتی ہیں اور دل اس ماہ کی جانب اڑ اڑ کر چلتا جاتا ہے، اس کی عظمت سینے میں بیٹھتی ہے، اور عمل کی رغبت بھی نصیب ہوتی ہے، ایک تحریک پیدا ہوتی ہے اور فضل الہی کے جستجو میں پروانے آتش عشق میں کودے پڑتے ہیں، انہیں میں عصر حاضر کے شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ بھی ہیں جنہوں اس موضوع پر بڑی وقیع تحریر لکھی ہے، جنہیں پڑھ کر اس ماہ سے عشق ہوا جاتا ہے، غافلين بھی آنکھوں ملتے ہیں اور کمربستہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں؛ تاکہ اس مہینے کی کوئی گھڑی ہاتھوں سے چھوٹ نہ جائے، آپ بھی اسے پڑھئے اور عمل کی حرارت محسوس کیجئے! شیخ الاسلام ایک جگہ رقمطراز ہیں: "ذی الحجہ کے مہینے کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک عجیب خصوصیت اور فضیلت بخشی ہے؛ بلکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ فضیلت کا یہ سلسلہ رمضان المبارک سے شروع ہورہا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے عبادتوں کے درمیان عجیب و غریب ترتیب رکھی ہے کہ سب سے پہلے رمضان آیا اور اس میں روزے فرض فرمادیے، پھر رمضان المبارک ختم ہونے پر فوراً اگلے دن سے حج کی عبادت کی تمہید شروع ہوگئی؛ اس لئے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: حج کے تین مہینے ہیں شوال، ذیقعدہ اور ذی الحجہ۔ اگرچہ حج کے مخصوص ارکان تو ذی الحجہ ہی میں ادا ہوتے ہیں؛ لیکن حج کے لئے احرام باندھنا شوال سے جائز اور مستحب ہوجاتا ہے؛ لہٰذا اگر کوئی شخص حج کو جانا چاہے تواس کے لئے شوال کی پہلی تاریخ سے حج کا احرام باندھ کر نکلنا جائز ہے، اس تاریخ سے پہلے حج کا احرام باندھنا جائز نہیں۔ پہلے زمانے میں حج پر جانے کے لئے کافی وقت لگتا تھا اور بعض اوقات دو، دو، تین تین مہینے وہاں پہنچنے میں لگ جاتے تھے۔ اس لئے شوال کامہینہ آتے ہی لوگ سفر کی تیاری شروع کردیتے تھے۔ گویا کہ روزے کی عبادت ختم ہوتے ہی حج کی عبادت شروع ہوگئی اور حج کی عبادت ذی الحجہ کے پہلے عشرہ میں انجام پاتی ہے اس لئے کہ حج کا سب سے بڑا رکن جو ”وقوفِ عرفہ” ہے ۹/ذی الحجہ کو انجام پاجاتا ہے۔
ان دس ایام کی اس سے بڑی اور کیا فضیلت ہوگی کہ وہ عبادتیں جو سال بھر کے دوسرے ایام میں انجام نہیں دی جاسکتیں،ان کی انجام دہی کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسی زمانے کو منتخب فرمایا ہے۔ حج ایک ایسی عبادت ہے جو اِن ایام کے علاوہ دوسرے ایام میں انجام نہیں دی جاسکتی۔ دوسری عبادتوں کا یہ حال ہے کہ انسان فرائض کے علاوہ جب چاہے نفلی عبادت کرسکتاہے۔ مثلاً نماز پانچ وقت کی فرض ہے؛ لیکن ان کے علاوہ جب چاہے نفلی نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ رمضان میں روزہ فرض ہے؛لیکن نفلی روزہ جب چاہیں رکھیں۔ زکوٰۃ سال میں ایک مرتبہ فرض ہے؛لیکن نفلی صدقہ جب چاہے ادا کریں۔ان سے ہٹ کر دو عبادتیں ایسی ہیں کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے وقت مقرر فرمادیا ہے۔ ان اوقات کے علاوہ دوسرے اوقات میں اگر ان عبادتوں کو کیا جائے گا تو وہ عبادت ہی نہیں شمار ہوگی۔ ان میں سے ایک عبادت حج ہے،حج کے ارکان مثلاً عرفات میں جاکر ٹھہرنا، مزدلفہ میں رات گزارنا، جمرات کی رمی کرنا وغیرہ یہ وہ اعمال ہیں کہ اگر انہی ایام میں انجام دیے جائیں تو عبادت ہے اور ان کے علاوہ دوسرے دنوں میں اگر کوئی شخص عرفات میں دس دن ٹھہرے تو یہ کوئی عبادت نہیں، سال کے بارہ مہینے منیٰ میں کھڑے رہناکوئی عبادت نہیں،اسی طرح سال کے دوسرے ایام میں کوئی شخص جاکرجمرات پر کنکریاں ماردے تویہ کوئی عبادت نہیں۔ غرض حج جیسی اہم عبادت کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسی مہینے کو مقرر فرمادیا کہ اگر بیت اللہ کا حج ان ایام میں انجام دوگے تو عبادت ہوگی اور اس پر ثواب ملے گا ورنہ نہیں۔دوسری عبادت قربانی ہے، قربانی کے لئے اللہ تعالیٰ نے ذی الحجہ کے تین دن یعنی دس گیارہ اور بارہ تاریخ مقرر فرمادی ہے۔ ان ایام کے علاوہ اگر کوئی شخص قربانی کی عبادت کرنا چاہے تو نہیں کرسکتا۔ البتہ اگر کوئی شخص صدقہ کرنا چاہے تو بکرا ذبح کرکے اس کا گوشت صدقہ کرسکتاہے؛مگر یہ قربانی کی عبادت ان تین دنوں کے سوا کسی اور دن میں انجام نہیں پاسکتی۔ لہٰذا اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس زمانے کو یہ امتیاز بخشا ہے۔ اسی وجہ سے علماء کرام نے احادیث کی روشنی میں یہ لکھا ہے کہ رمضان المبارک کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والے ایام ذی الحجہ کے ابتدائی ایام ہیں، ان میں عبادتوں کا ثواب بڑھ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان ایام میں اپنی خصوصی رحمتیں نازل فرماتے ہیں”. (ملخص از اصلاحی خطبات:٢/١٢٢)
[email protected]
7987972043
Comments are closed.