ٹوٹے گا طلسم شب تاریک ، نہ گھبرا

محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
اس وقت پوری دنیا میں مسلمان اور خصوصا ہندوستانی مسلمان جن سخت اور مشکل حالات سے دو چار ہیں،وہ سب پر عیاں ہے۔ اس طرح کے حالات ، بلکہ اس سے بھی سخت حالات کا ماضی میں مسلمانوں کو سامنا کرنا پڑا ہے۔ لیکن جب بھی اس طرح کے حالات کا انہیں سامنا کرنا پڑا اور محسوس ہوا کہ اب اسلام کا چراغ گل ہوجائے گا، ایسے موقع پر مسلمانوں نے اپنے عزم و حوصلے، صبر و ضبط اور جرآت و استقلال اور غلطیوں کی اصلاح سے بہت جلد حالات کا رخ موڑ دیا، اور اس قرآنی وعدہ کو ثابت کردیا کہ جو چراغ ہمیشہ جلنے جلنے کے لیے آیا ہے، اسے کوئی بجھا نہیں سکتا۔
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
اور یہ بھی حقیقت ہے کہ
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
جتنا کہ دباؤ گے اتنا ہی یہ ابھرے گا
موجودہ حالات کے بارے میں ایک بڑی تعداد مایوسی اور ناامیدی کی شکار ہے،جب کہ اس طرح کے حالات سے ناامید اور مایوس نہیں ہونا چاہیے، ہاں اس پہلو پر غور کرنا چاہیے کہ یہ مصائب اور حالات آئے کیوں❓ سچ یہ ہے کہ یہ حالات اور مصائب ہمارے اپنے لائے ہوئے ہیں اور یہ حالات اس وقت تک نہیں بدل سکتے، جب تک ہم اپنی خامیوں اور کمیوں کو دور نہ کریں، جو ان حالات کی وجہ بنی ہیں۔ آج سب سے زیادہ انتشار ہماری صفوں میں، عدالت میں سب سے زیادہ فیصد اور تناسب کے اعتبار مقدمات ہمارے، سب سے زیادہ خاندانی جھگڑے اور داخلہ تنازعات مسلم فیملی میں، مدرسہ اور مسجد کے مقدمات بھی سرکاری عدالتوں میں، جبکہ ہمارا دعوی ہے کہ مسلم معاشرہ کے لیے اس کی حیثیت شہہ رگ کی ہے اور یہ رشد و ہدایت کے مراکز ہیں اور یقینا ہیں۔ لیکن جو مرکز اور جگہ مسلمانوں کے لیے سب سے پاکیزہ اور محترم جگہ ہو وہیں اختلاف و انتشار ہو اور وہاں کے مقدمات سرکاری عدالتوں میں ہو، یہ بہت افسوس اور شرمندگی کی بات ہے۔
ضرورت ہے کہ ہم اپنی کمیوں اور خامیوں کو تلاش کریں، اپنا محاسبہ کریں اپنی حقیقی مشکلات کو سمجھیں، کہ احساس زیاں بھی اگر ہمارے اندر نہ ہو تو پھر کر ہی کیا سکتے ہیں اور کیا انقلاب لا سکتے ہیں؟ ۔ ہم اپنی غلطیوں کو پہنچانیں، ان کو نشان زد کرکے ان کی اصلاح کریں۔ ہم محاسبہ کریں, کہ ہم نے خود اپنے تئیں، اپنی ملت کے تئیں اور پوری ملت اور انسانیت کے تئیں وہ کون سی غلطیاں کی ہیں, جن کا خمیازہ آج ہم کو ہر جگہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ہم بہترین امت ہی ,لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہم نے اپنی ذمہ داریوں کے ادا کرنے میں کوتاہی کی ہے، جس عقیدہ اور پیغام کی تبلیغ و ترسیل کے لیے ہمیں بھیجا گیا ہے، اسے ہم نے اپنے تک محدود کر لیا ہے۔ ہم نے اپنی ذمہ داری فرض منصبی کے کیساتھ کوتاہی کی، ساتھ ہی ہم نے دعوت ،تبلیغ اور پیام انسانیت کے کاموں میں سرگرمی نہیں دکھائی، جو تمام نبیوں کا خاص مشن رہا، اب وقت آگیا ہے ،کہ ہم اپنی کمیوں اور غلطیوں کو محسوس کریں، اور پوری جانفشانی کے ساتھ حالات کے مقابلے کے لیے ڈٹ جائیں۔ اس کے لیے ہمیں اولین فرصت میں ان چیزوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
پہلی چیز یہ کہ ہم اپنے اندر سے ناامیدی اور مایوسی کو دور کردیں، اور یہ یقین رکھیں کہ اگر ہم ایمان کے تقاضوں اور شرائط پر کھرے اتر جائیں گے،تو ہمیں سربلند رہیں گے۔
دوسری چیز یہ ہے کہ متحدہ اشوز پر سارے مسلمان متحد ہوجائیں اور سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔ ایک آواز ایک طاقت بن جائیں۔
تیسری چیز ظلم ہنسا کے خلاف چاہیے وہ ظلم کسی کمیونٹی پر ہو ہم سب ایک آواز ہو کر،اس کے خلاف کھڑے ہوجائیں۔
چوتھی چیز ہمیں اس بات کی پوری کوشش کرنی چاہیے کہ مسلمانوں میں جو انتشار و اختلاف ہے وہ ختم ہو، اگر ہم متحد ہوں گے تو ہمارا اپنا وجود اپنے آپ میں ایک قوت کی شکل میں ہوگا، جس کو ختم کرنا دشمن کے لیے ناممکن ہوگاَ – اگر منتشر رہیں گے تو سرے سے ہمارا وجود ہی بے معنی ہوگا۔
پانچویں بات ہمارے پاس متحدہ نصب العین اور پلانگ ہو، ہم اچانک کسی معاملہ اور اشوز کے حل کے لیے کھڑے ہوتے ہیں پہلے سے غور و فکر نہیں کرتے۔ الیکشن ہوجاتا ہے، باطل و فاشسٹ طاقت جیت جاتی ہے تب ہم لائحہ عمل اور تجویز پیش کرتے ہیں۔ پہلے سے ہماری کوئی تیاری نہیں ہوتی۔
چھٹی بات ہم آپس میں ایک دوسرے کی کیھچا تانی اور ایک دوسرے پر الزام تراشی سے بچیں، کسی پر لعن طعن نہ کریں کہ ماضی میں اس نے یہ کیا اور وہ کیا۔ ہم آپس میں متحد ہوکر سیہ پلائی دیوار بن جائیں۔
ساتویں بات ہم جذباتیت کے مظاہرہ سے پرہیز کریں، ہمیں سنجیدگی کے ساتھ کسی بھی معاملہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ سمجھنا ہے کہ اچھے برے حالات زندگی میں آتے رہتے ہیں۔ پہلے بھی آتے رہے ہیں اور آگے بھی آتے رہیں گے۔ سخت حالات میں بھی ہمیں صبر و ضبط اور جرات و ہمت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
آٹھویں بات یہ ہے کہ تعلیم و تربیت کے میدان میں ہم کو دوسری قوموں کے مقابلے میں زیادہ نمایاں رہنا ہے، اس کے لیے مضبوط اور ٹھوس قدم اٹھانا ہے، کیونکہ موجودہ جنگ جیتنے کے لیے سب موثر ہتھیار تعلیم ہے۔
نویں بات ہم کو اس ملک میں رہ کر یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم یہاں ایک داعی کی حیثیت سے ہیں، ہمیں دعوت کے کاموں میں پوری دلچسپی کے ساتھ لگنا ہوگا اور سب تک دوست ہو یا دشمن اللہ کا پیغام پہنچا نا ہوگا۔ ہمیں کبھی اپنی اس حیثیت کو بھولانا اور نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
آخری بات جو مسک الختام ہے وہ یہ کہ قرآنی تعلیم اور ہدایت یہ ہے کہ نازک صورتحال اور مشکل گھڑی میں میں ہمیشہ اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے، توبہ و انابت کرنا چاہیے، ہم ظاہری اور مادی تدبیر تو کرتے ہیں لیکن اللہ کی طرف صحیح طور پر رجوع نہیں ہوتے۔ ہم کو یاد رکھنا ہے کہ اللہ کے حکم اور اس کی مرضی کے بغیر ہم کوئی کام انجام نہیں دے سکتے۔ ہم کو ایسے موقع پر اللہ کی طرف رجوع ہونا گا اس کے بغیر یہ حالات ختم نہیں ہوں گے۔
Comments are closed.