سماجی ہم آہنگی کی بقاء کیلئے خدائی حکم۔

از: محمد اللہ قیصر

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان سکون سے جینا چاہتا ہے، زندگی میں اتھل پتھل سے بچ بچا کر ،اہنے ساتھ اہل خانہ، اور حتی الامکان دوسروں کیلئے خوشگوار زندگی کی خواہش اور کوشش کرتا ہے، لیکن بد قسمتی سے اردگرد کچھ شیطان صفت لوگ جمع ہو جاتے ہیں، جنہیں کسی صورت سماج میں استقرار اور سکون پسند نہیں ہوتا، مختلف وجوہات ہوتی ہیں، کبھی اپنی انا کی تسکین کیلئے وہ سماج میں ابتری پیدا کرتا ہے، کبھی "پدرم سلطان بود” کا فرضی دعویٰ اسے سماج کے پرسکون قلعہ پر حملہ آور ہونے کی تلقین کرتا ہے، بسا اوقات اس کا تکبر، دوسروں کی خوشی، مسرت، چہرے کی مسکان اور ہنستی کھیلتی زندگی کو درہم برہم کرنے پر اکساتا ہے، ایسا انسان ہمیشہ ہی سماج کیلئے انتہائی ضرر رساں ہو تا ہے، وہ ایک انفیکشن، اور مہلک مرض کی طرح ہوتا ہے، جس کا علاج لازمی ہے ورنہ انسانی زندگی کیلئے خطرہ بن جاتا ہے، ایسے لوگوں کی وجہ سے ہی قانون اور سخت اقدامات کی ضرورت پڑتی ہے، ورنہ انسان اپنی فطرت اور دین کے تقاضوں پر زندگی گذارے تو شاید کسی قانون کی ضرورت ہی نہ پڑے، کیوں کہ لاقانونیت کی کوکھ سے ہی قانون کا جنم ہوتا ہے۔

کون انسان ہے جو ایک "ماڈل لائف” نہیں جینا چاہتا، جس میں ہر ایک دوسرے کا دست و بازو بن کر رہے، ہر شخص ایک دوسرے کے دکھ درد، اور پریشانیوں میں شریک رہے، خوشی اور غم بانٹ کر جئے، غور کیجئے تو آج سے دس بیس سال پہلے کا گاؤں اور وہاں کا خاندانی نظام بھی کچھ ایسا ہی تھا، لیکن مرور زمانہ اور دنیا میں مادیت کی مقابلہ آرائی نے انسان کو پہلے خود غرض بنایا، پھر اس کے لازمہ کے طور پر حسد، بغض، کینہ، کپٹ، غرور و تکبر، مفاد پرستی، انا پسندی جیسی روحانی و اخلاقی بیماریوں نے ہر ایک دل کو اپنا مسکن بنا لیا، کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ ہر شخص سر کے بال سے پاؤں کے ناخن تک کینہ کپٹ جیسے مرض کا شکار ہے، دوسرے کے چہرے کی بشاشت، اور ہونٹوں پر مسکان اس کے قلب و جگر کو چھلنی چھلنی کردیتی ہیں، نیز ان کے دلوں کا کینہ ایسے اقدام پر مجبور کرتا ہے جو سماج کی صاف شفاف زندگی مکدر کرنے کیلئے کافی ہوتا ہے۔

سماج کے ایسے بدباطن لوگوں کا علاج صرف یہ ہے کہ ملکی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے، اور بوقت ضرورت ان قوانین کا سہارا لیتے ہوئے، اجتماعی طور پر اس کی مخالفت ہو، اس کے ظلم و تعدی کے خلاف منظم کوشش ہو، سماجی انتشار کی وجہ بننے والے عناصر کی مخالفت صرف متاثر کی ذمہ داری نہیں، وہ سماج کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے، کیوں کہ ظلم کی خاصیت ہوتی ہے کہ وہ آگ کی طرح پھیلتا ہے، ایک فرد کے خلاف ظالم کی کامیابی، اسے حوصلہ مند بنادیتی ہے، پھر وہ ایک فرد تک نہیں رکتی، سامنے جو کچھ آتا ہے اسے بھسم کرتی ہوئی آگے بڑھتی رہتی ہے۔

اگر قرآن کے ایک حکم پر عمل ہو جائے تو چشم زدن میں اس بیماری کا خاتمہ ہو سکتا ہے،

وَاِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَيۡنَهُمَا‌ۚ فَاِنۡۢ بَغَتۡ اِحۡدٰٮهُمَا عَلَى الۡاُخۡرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِىۡ تَبۡغِىۡ حَتّٰى تَفِىۡٓءَ اِلٰٓى اَمۡرِ اللّٰهِ ‌ۚ فَاِنۡ فَآءَتۡ فَاَصۡلِحُوۡا بَيۡنَهُمَا بِالۡعَدۡلِ وَاَقۡسِطُوۡا ؕ‌ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُقۡسِطِيۡنَ ۞

ترجمہ:

اور اگر اہل ِایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دیا کرو۔ پھر اگر ان میں سے ایک فریق دوسرے پر زیادتی کر رہا ہو تو تم جنگ کرو اس کے ساتھ جو زیادتی کر رہا ہے یہاں تک کہ وہ لوٹ آئے اللہ کے حکم کی طرف } پھر اگر وہ لوٹ آئے تو ان دونوں کے درمیان صلح کرا دو عدل کے ساتھ اور دیکھو ! انصاف کرنا۔ بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔

اس خدائی حکم سے چشم پوشی نے سماج میں بے شمار دیمک کو جنم دیا ہے جس نے ہمارے اجتماعی تانے بانے کو تتر بتر کردیا ہے، ہر کوئی خوف زدہ رہتا ہے، کہ بلی کی گردن میں گھنٹی باندھے کون، اور بلی ایک ایک چوہے کو چٹ کرتی جاتی ہے، منتشر رہ کر ایسے ظالموں کا مقابلہ عموما ناممکن ہوتا ہے، وجہ ہے کہ شریف اپنی شرافت کے تحفظ کی خاطر بے جا مسائل میں الجھنا نہیں چاہتا، جبکہ شریر کی شرارت اس کی عادت اور پھر طبیعت بن جاتی ہے، ایسے ظلم و تعدی اور طغیان و سرکشی میں لتھڑ چکی طبیعت کے سدھار کی صرف ایک صورت ہے کہ اس کے دل میں ملکی قانون کا خوف اور سماجی اقدار کا احترام پیدا ہو، محض اصلاح کی کوشش اسے مزید سرکش بنا دیتی ہے، اسے اپنی مفروضہ قوت کا احساس ہوتا ہے اور وہ مزید لوگوں کو نشانہ بنانے کے منصوبہ میں لگ جاتاہے، اس کی نظر میں سماج میں اپنی دھاک بٹھانے کی، صرف یہی صورت نظر ہوتی ہے کہ تشدد کرو، خوف و ہراس پیدا کرو، لوگوں میں یہ احساس جگاؤ کہ فلاں بڑا طاقت ور اور جگر والا ہے، (حالاں کہ عموما ایسے لوگ انتہائی بزدل اور کمزور ہوتے ہیں) اسے یہ احساس ہوتا ہی نہیں کہ خالق کائنات نے اعزاز و اکرام کا اعلان نیک اور متقیوں کےلئے کیا ہے، اللہ کے بندوں سے محبت کرنے والے ہی خدا کی ابدی محبت اور اس کے دوسرے بندوں کی دیرپا محبت کے حقیقی حقدار ہوتے ہیں، اس دنیا سے جاتے ہی اسے ظالم و سرکش اور شریر و خبیث جیسی صفات کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔

ان حیوان صفت لوگوں کی سرکشی پر بندش تبھی ممکن ہے جب کوشش اجتماعی ہوگی، اسلئے اللہ نے بھی صلح جوئی سے بھاگنے والوں کے خلاف یکجا ہوکر ظالم کی سرکوبی کا حکم دیا ہے، ہاں اس کوشش میں یہ خیال رہے کہ ملکی قوانین اور دینی تعلیمات کی مکمل پاسداری کی جائے، ظلم کے خاتمہ کوشش میں خود آپ سے ظلم کا ارتکاب نہ ہونے پائے، تبھی خدائی مدد کا امکان ہے، ورنہ غیر محسوس طریقہ سے مظلوم بھی ظالم کی صف میں کھڑا ہو سکتا ہے

 

ظالم کو یہ احساس کرنا چاہئے کہ جب خدا کا عتاب نازل ہوتا ہے تو پرندے بھی لشکر تباہ کرسکتےہیں۔

Comments are closed.