افغانستان اور اقتدار کی جنگ

تحریر: حسن اقبال
افغانستان میں حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں- امریکا کی زیر قیادت نیٹو فورسز کا انخلا آخری مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔ امریکا نے افغانستان میں اپنا سب سے بڑا فوجی اڈہ بگرام ایئربیس خالی کر دیا ہے اور امریکن صدر جو بائیڈن کے ایک بیان کے مطابق امریکی فوجی 31 اگست تک افغانستان چھوڑ جائیں گے۔ دوسری طرف افغان طالبان کی پیش قدمی بھی جاری ہے، افغان طالبان 400 اضلاع میں سے تقریبا 160 اضلاع پر قابض ہو چکے ہیں اور بہت سے اضلاع ابھی بھی طالبان کے گھیراؤ میں ہیں۔ کچھ اضلاع میں افغان سکیورٹی فورسز بغیر کسی مزاحمت کے چوکیاں خالی کر رہے ہیں۔ سینکڑوں افغان سکیورٹی اہلکار طالبان سے لڑائی کے دوران بھاگ کر تاجکستان کی سرحد پار کر چکے ہیں۔ طالبان نے ایران کی سرحد سے ملحق تجارتی راستہ ”اسلام قلعہ“ پر امارات اسلامی کا پرچم لہرا دیا ہے اس کے علاوہ طالبان ترکمانستان اور تاجکستان کے ساتھ واقع سرحدی تجارتی مراکز تورغونڈی، نصر فراہی اور شیرخان بندر کا کنٹرول بھی حاصل کر چکے ہیں۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ طالبان مختلف شمالی صوبوں پر بھی قابض ہو چکے ہیں جو طالبان مخالف شمالی اتحاد کے مضبوط گڑھ رہے ہیں۔ افغانستان کے دوسرے بڑے شہر قندھار میں –جو کسی دور میں طالبان کا مضبوط گڑھ تھا– افغان سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان لڑائی جاری ہے۔ طالبان کی طرف سے جاری حملوں کے پیش نظر اشرف غنی نے ملکی وزیر دفاع اور وزیر داخلہ تبدیل کر دیے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ وہ ایک اور نسل کو افغانستان نہیں بھیجنا چاہتے۔ امریکی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر 2001 سے ستمبر 2019 تک امریکا کے مجموعی فوجی اخراجات 778 بلین ڈالر تھے اس کے علاوہ تقریبا 2300 امریکی فوجی اس جنگ میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق تقریبا 650 امریکی فوجی کابل کے فضائی اڈے اور سفارتی عملے کی حفاظت کے لیے کابل میں موجود رہیں گے جسے طالبان نے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
افغانستان ایک بار پھر دو راہے پر کھڑا ہے۔ نیٹو فورسز کے افغانستان چھوڑنے کے اعلان کے بعد بظاہر ایسا نظر آ رہا ہے کہ طالبان کابل پر قبضہ کرکے اشرف غنی کی حکومت کو ختم کر دیں گے۔ طالبان اگر کابل پر قبضہ کرکے اپنی حکومت قائم کر لیتے ہیں تو اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ افغانستان میں ایک بار پھر سول وار شروع ہو جائے؛ کیوں کہ طالبان مخالف دھڑے بھی ہتھیار اٹھا چکے ہیں۔ اس صورتِ حال میں واضح نہیں کہ افغانستان میں اقتدار کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
Comments are closed.