یہی وہ دن تھاکہ جب اذان کی تکمیل پر بائیس کشمیری قربان ہوئے

 

عبدالرافع رسول

13جولائی1931 گزشتہ 90 برس سے کشمیری عوام کے احساسات اور جذبات کے آبگینوں پر اپنی ان مٹ نقش ثبت کرچکا ہے۔ تاریخ میں اس دن کو تحریک آزادی کشمیرکا سنگ میل بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ وہ دن ہے جب کشمیری مسلمان جموں کے ہندوڈوگرہ استبداد اوراسکے مداخلت فی الدین کے خلاف اٹھے آوازحق بلندکی اوراس کی پاداش میں اپنے سینوں کو گولیوں سے چھلنی ہوتے ہوئے دیکھا ۔عبدالقدیرنامی ایک مردحر کی للکار نے ایسی غلام قوم جوہندوڈوگرہ فوج کے خوف کے مارے اپنے گھروں میں چاقوتک رکھنے کی تاب نہیں لاتے تھے کو قبائے خون سے لذتِ حریت کی نوید سنائی اور محکومیت کی زنجیروں کو توڑنے کا انمول حوصلہ دیا۔ریاست کی 90فیصد مسلمان آبادی میں ڈوگرہ مطلق العنانیت کے خلاف سینوں میں جذباب ابل رہے تھے لیکن تحریر و تقریر پر پابندی تھی۔ ایسے میںکشمیری مسلمانوں کواپنے دین وایمان کے تحفظ پرابھارنے والے شعلہ بیان مقرر عبدالقدیرڈوگرہ فوج کے ہاتھوں گرفتارہوئے۔سینٹرل جیل سر ی نگر کے درو دیوارکے اندرپھانسی گھاٹ کے متصل اس کاٹرائل ہورہاتھا۔کشمیریوں کواپنے اس ہیروکے ٹرائل کاپتاچلاتوہزاروںکشمیری سینٹرل جیل سر ی نگر امنڈ آئے ۔وہ اپنے ہیروعبدالقدیرکے حق میں اورہندوڈوگرہ کے استبدادکے خلاف نعرہ زن تھے ۔ 13جولائی 1931 کو سرینگر سنٹرل جیل کے سامنے ہزاروں کشمیری مطالبہ کر رہے تھے کہ وہ عبدالقدیر کے خلاف بغاوت کے مقدمہ کی جیل کے اندر ہونے والی سماعت کو دیکھنا چاہتے ہیں۔اپنامطالبہ منوانے کے لئے وہ سراپااحتجاج تھے درایں اثنا نمازظہرکاوقت آن پہنچا۔مظاہرین میں سے ایک بندہ مومن اذان دینے کے لئے اٹھاتوڈوگرہ فوج نے اس پرگولیاں چلاکرشہیدکرڈالا۔مظاہرین کاجذبہ ایمانی اوج کمال پرتھااوروہ اذان کی تکمیل کے بغیررہ نہیں سکتے چنانچہ 22فرزندان توحیدیکے بعددیگرے ہندوڈوگرہ فوج کی گولیوں کاہدف بن کرشہیدتوہوگئے لیکن انہوں نے اذان کی تکمیل کی۔دنیامیں شائدہی کوئی اذان ایسی گونجی ہوگی کہ جس کی تکمیل کے لئے بائیس نفوس کی عظیم قربانی دیناپڑی ہو۔یہیں سے ہندوکی غلامی سے نجات کی تحریک آزادی شروع ہوئی اورآزادی برائے اسلام کاخواب دیکھاگیا جو90برس کا طویل ترین عرصہ گذرجانے کے باوجودتشنہ تعبیرہے ۔

13جولائی1931کے شہدا ء کی روحیںریاست کشمیرمیں جاری اس دورکی بربریت کا نقشہ اور اس میں بسنے والے اپنے پس مندگان کے حالات وکوائف اورجابجامزارات شہداء کا مشاہدہ کررہی ہونگی تو یہ یقینی امرہے کہ وہ روحیں ٹرپ رہی ہوں گی ، ان کی صدائیںفرش سے عرش تک کی تمام مخلوق کو مضطرب کررہی ہوں گی ،وہ پکارتی ہوں گی گی کہ 85برس گذرجانے کے باوجود ابھی تمہیں غلامی سے نجات نہ مل سکی۔وہ کہہ رہی ہوں گی کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ڈوگرہ استبدادکے بعدتمہیں بھارتی استبدادنے جکڑلیاہوگا ۔ تم سے 13جولائی1931 سے آج تک کل ملاکرچھ لاکھ نفوس کی قربانی دیناپڑی اور استبدادسے آزادی کے مشن کی تکمیل نہ ہوسکی ۔یہ قیامتیں جو روز تم پہ ٹوٹ پڑتی ہیں ، ان کا تسلسل ٹوٹتا کیوں نہیں ، بھارتی رام راج کی شکل میںکشمیری مسلمانوں کو چٹ کر نے والا آدم خور کیو ں دندناتے ہر جگہ پھر رہا ہے ؟ یہ متواتر شہادتیں اور یہ جنازے تھمنے کا نام ہی کیوں نہیں لیتے ؟ہم نے یہ شہادتیں مہاراجہ ہری سنگھ کی جگہ نکڑ نکڑ پر ، کونے کونے پر ، کوچے کوچے پر ہزاروں مہاراجوں کو مسلط کرنے کے لئے نہیں دی تھیں، ہم نے ڈوگرہ شاہی تخت کے بدلے رعونت اور استکباریت کے کسی اور تخت کو براجمان ہونے کے لئے اپنے گھروں کویتیم نہیں چھوڑا تھا اور ہاں ریاست کشمیرکی یہ صورتحال دیکھ کر تو ہمارے قبائے خونین اوربھی لہو رنگ ہوتی ہے ۔ یہ جمہوریت کے قصیدے ،یہ لوریاں ،ڈزنی لینڈ میں سنائی جائیں تو کسی کو ان سے تکلیف نہ ہوگی، پران قصیدوں اورلوریوں کے سر میںیہاں تو سروں کی فصل کٹتی ہے ،عصمتیں لٹتی ہیں ۔بھارتی بربریت کایہ خنجر ڈوگرہ شاہی کے استبدادی خنجرسے کہیں زیادہ خونریز،زہرناک اورحیات کش ہے ۔

26جون 1930کو سرینگر کی تاریخی اورقدیمی مسجد شاہ ہمدان میں مسلمانوں کا بڑا اجتماع ہوا تھا ریاست کشمیر کی تاریخ کا یہ پہلا سیاسی اجتماع تھا جس میں 50ہزار کشمیریوں نے شرکت کی تھی اس اجتماع میں ڈوگرہ استبدادکوروکنے کے لئے رائے طلب کی جارہی تھی۔درایں اثنا عبدالقدیرنامی ایک جری نوجوان اچانک سٹیج پر آیا اور مہاراجہ کے خلاف باغبانہ تقریر کر ڈالی ۔اجتماع کے اختتام پرعبدالقدیرکو بغاوت کے مقدمہ میں گرفتار کر لیا گیا اور 13جولائی 1931 کو سنٹرل جیل سرینگر کے اندر اس کے مقدمہ کی سماعت تھی کہ نمازظہرکاوقت آن پہنچا۔اذان دینے کے لئے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے عوامی سمندرمیں سے اذان شروع ہوئی ڈوگرہ فوج نے یہ کہتے ہوئے منع کیاکہ ڈوگرہ مہاراجہ کی طرف سے جیل کے احاطے کے اندر اذان دینے اورنمازاداکرنے کی اجازت نہیں۔مگر یہ کیسے ممکن تھاکہ مسلمانوں کاسمندرموجودہواوراذان اورنمازکی ادائیگی ممنوع قرارپائے ۔بس ہواکہ اذان کومکمل کرتے ہوئے اوراللہ کی کبریائی کاڈنکابجاتے ہوئے کشمیرکے22مردان حرنے اپنی جانوں کانذرانہ پیش کیااورڈوگرہ فوج نے انکے لہو سے سینٹرل جیل سر ی نگر کے فرش اور درو دیوار لہورنگین بناڈالا۔ اسے قبل 1924 میںسری نگرکے ریشم کارخانہ ایجی ٹیشن پر بھی ڈوگرہ شاہی نے شب خون مارا تھااورایک بڑاسانحہ پیش آیاتھا۔ہندوڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ سمجھ رہاتھاکہ کشمیری مسلمان اس کی بربریت اوراس کے معاندانہ روش کے سامنے دب جائیں گے لیکن ایسانہ ہوسکا۔ہندو ڈوگرہ مہاراجہ کومعلوم نہ تھاکہ سری نگرسینٹرل جیل میں بہایاجانے والایہ لہو اور زندانوں میں بے کس اسیروں اور من حیث القوم ستم رسیدہ کشمیریوں کی آہوں اور سسکیوں سے اس کے جبری دور کااس طرح خاتمہ ہوگاکہ گردش زمانہ سے بالآخراسے جلاوطنی کی زندگی میں موت کو لگے لگانا پڑے گا۔

ہرسوسازشوں کاجال بچھنے کے باوجودالبتہ صاف دکھائی دے رہاہے وادی کشمیر کے خونچکاں حالات کشمیریوں کے مستقبل کوسنواررہے ہیںاوراغیارکاعہداسی طرح اپنے انجام بداوراختتام کوپہنچ رہاہے کہ جس طرح عہدڈوگرہ اپنے انجام بداوراختتام کوپہنچا۔ یہ سطور لکھنے کے دوران کشمیر کی زمینی صورت حال نہایت گھمبیرہے لیکن اسلامیان کشمیر کا عزم وحوصلہ اور نامساعد حالات کا مردانہ وار مقابلہ کر نے کا ناقابل تسخیر جذبہ ہے جو انہیں مصائب وشدائد کے باوجودزندہ رکھے ہوئے ہے۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ کشمیرمیں کہیں بھی امن و سکون ہے اورنہ ہی کسی فرد کو ایک پہلو بھی چین اورقرار نصیب نہیں ، مگراس سب کے باوجود اہلِ وادی آلام و مشکلات کی شدت کے سامنے خود سپر دگی کر نے اورسپراندازہونے کوہرگز تیار نہیں ۔ یہ دافسانوی امرموجودہ دنیا کے لئے ایک حیران کن معمہ ضرور ہے مگربہادرکشمیری عوام کے لئے یہ کوئی انہونی بات نہیں ۔وہ گزشتہ تیس برسوں سے بالخصوص بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصانات اور محرومیوں کے باوصف منزل کی تلاش میں ایسی لا زوال اوربے مثال قربا نیاں دے رہے ہیں کہ دنیا کے اہل ضمیرانگشت بدنداں ہیں کہ یہ قوم کس مٹی کی بنی ہوئی ہے ۔ شاید اسی حقیقت کا اظہار بارہویں صدی کے مشہور مورخ کلہن نے کیا تھاکہ’’ اہل کشمیر کو محض بزور بازو سے زیر نہیں کیا جاسکتا‘‘

13جولائی1931کے شہدا کے لہو سے پھوٹنے والی عوامی تحریک جوروظلم اور ناانصافیوں اور حق تلفی یعنی غلامی کے سیاہ دھوں کو اپنے عزم واستقلال کے ہاتھوں سے دھونے اور مٹانے کی ٹھوس مزاحمتی تحریک تھی۔ہندوڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیری عوام پر جو استبدادی نظام مسلط کیا ہوا تھا،اس نظام کے شکنجے میںپھنسے کشمیریوں کو سر اٹھاکر جینے اور اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں سنوارنے کی کوئی گنجائش نہ تھی ۔اس صورحال سے ریاست کشمیرمیںہندوڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف ایک لاواپک رہاتھاجو13جولائی 19931میں پھٹ پڑااورآن واحدمیں 22کشمیری مسلمانوںنے اللہ کی کبریائی بیان کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔تاریخی جامع مسجد سرینگر کے صحن میں ایک جاں بلب شہید آخری ہچکی لیتے ہوئے ٹوٹے پھوٹے اس وقت کی کشمیری قیادت شیخ عبداللہ سے یہ الفاظ میں یہ کہہ رہاتھاکہ’’ صاحب! ہم نے تو اپنا حق ادا کیا، اب یہ تحریک بطور امانت آپ لوگوں کے سپرد ہے‘‘دراصل یہ قیمتی بول اس منزل کی نشاندہی کاواضح تعین تھا جس کا ان مردانِ حر کو پوری طرح ادراک تھا اور بعد میں انہی الفاظ نے کشمیرکے عوامی احتماعات ، مساجد اور خانقاہوں میں بیداری کی تحریک چلائی ۔مگربعد میں شیخ عبداللہ ایفائے عہدنہ کرسکااوراندراعبداللہ ایکارڈ کرکے سرتاپاہندوستان کے پیلے رنگ میں رنگ گیااورشہداء کے لہوسے غدارکی۔

Comments are closed.