Population control Bill آبادی کنٹرول بل(ضبط ولادت)

محمد شعیب ندوی
متعلم :علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
موجود حالات کے پیش نظر حکومت اتر پردیش نے یہ بل تجویز کیا ہے کہ آبادی کو کنٹرول کیا جائے، تاکہ وسائل معاش، اور بھکمری عام نہ ہو مجوزہ قانون کے تحت دو سے زائد بچوں کے باپ کو کسی بھی قسم کی سرکاری اسکیم اور سرکاری سبسڈی کا کوئی فائدہ نہیں ملے گا اور نہ ہی وہ افراد سیاسی میدان میں قدم رکھنے کے اہل ہوگا۔
اس کا مقصد ریاست میں امن و امان خوشحالی وسائل معاش کی فراوانی اور خوشحال زندگی ہے، بظاہر یہ اعلان و قانون خوشنما معلوم ہوتا ہے، ہر فرد اپنی زندگی کے تمام اسباب وسائل آسائش و زیبائش پر قابو پالے گا اور اس کی زندگی جنت نما بن جائے گی۔
عجب قانون و اعلان ہے اور اس کو انجام دینے والے ارباب سیاست پر نظر ڈالی جائے تو ایک لطیفہ سے کم نہیں ہے کیونکہ وہ خود اور ان کا خاندان اس کے مخالف ہے۔
مسئلہ ضبط ولادت کا نہیں ہے بلکہ وسائل زندگی کی صحیح طریقے سے تنظیم و تنسیق اور کسب معاش کے اسباب کی فراہمی بد عنوانی کے خاتمہ، معاشرہ میں عدل و انصاف کا قیام ظلم و جبر و استحصال اور فساد اور لوٹ کھسوٹ اور کام چوری کے خاتمہ کا ہے۔
ضبط ولادت کے متعلق اسلامی نقطہ نظر یہ ہے کہ اللہ رب العزت ہر چیز پر قادر مطلق ہے، وہ کسی جاندار چیز کو پیدا نہیں کرتا مگر اس کا رزق اس کے وسائل زندگی سب روئے زمین پر اتار دیتا ہے ارشاد باری ہے وما من دابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقھا (ہود :6)
اور یہ منشا نبض قرآنی فاسد ہے، کیونکہ خشیت املاق سے اولاد کو قتل کرنا نہایت شنیع فعل ہے ولا تقتلوا اولادکم خشیۃ املاق (إسراء :31)چنانچہ ہر وہ عمل جس سے بخوف مفلسی تحدید نسل ہوتی ہو وہ ناجائز ہے۔
بعض روشن خیال عزل کی روایات کے مد نظر آبادی کنٹرول، برتھ کنٹرول کو جائز قرار دیتے ہیں، حالانکہ ان روایات کا مقصد انفرادی طور پر ضبط ولادت ہے۔
قانون قدرت ہے کہ ہر زمانہ میں پیداوار کی مقدار اس دور کی ضروریات کے مطابق ہوتی ہے تاریخ گواہ ہے کہ ضروریات کے مطابق وسائل کی پیداوار کا نظام نظام قدرت ہی کی طرف سے ہوتا ہے وان من شئ إلا عندنا خزائنہ وما ننزل الا بقدر معلوم (حجر :21)انا کل شئ خلقنہ بقدر (قمر :49) اور بھی بے شمار آیات و احادیث اس پر شاہد ہیں۔
بعض مسلمان تزوجوا الودود و الولد کہ ایسی عورتوں سے شادی کرو جو خوب محبت اور بچے پیدا کرنے والی ہوں۔
یہ ایک اچھی بات ہے اور مستحسن عمل ہے، لیکن ان کی تعلیم و تربیت ان کے درمیان تفریق و امتیاز سے اجتناب کرنا چاہیے لڑکی اور لڑکے میں تفریق و امتیاز قبیح و شنیع عمل ہے،
بہرحال ارباب سیاست کو اس مسئلہ کے بجائے تعلیم کو فروغ وسائل زندگی کی تنظیم اوروسائل زندگی کی فراوانی معاشرہ میں عدل و انصاف کا قیام فساد و بدعنوانی کا خاتمہ صنعت و حرفت کی کثرت جیسے مسائل پر توجہ دینی چاہیےء تبھی قلت معاش اور قلت وسائل کا مسئلہ پیدا نہیں ہوگا ورنہ اس بل کے بے انتہا خطرناک نتائج منظر عام پر آئے گے جو کہ فطرت کے ساتھ کھلواڑ ہوگا فطرت کے ساتھ ظلم و جبر خالق فطرت کو برداشت نہیں ہے۔
Comments are closed.