یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ  حقیقت یا افسانہ

 

 

محمد شعیب ندوی

 

متعلم:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ

 

یکساں سول کوڈ کی بحث کافی قدیم ہے ،درمیان میں اس پر خاموشی طاری رہتی ہے ،لیکن جب بھی ارباب اقتدار کو اپنی کرسی کا خدشہ لاحق ہوتا ہے تو وہ ضرور کچھ اسی طرح کے ایجنڈوں کو ہوا دیتے ہیں، جس سے ان کی ساخت و اقتدار قائم رہےـ

یکساں سول کوڈ کا نفاذ آسان نہیں ہے ؛کیونکہ اس سے دیگر مذاہب کے علاوہ خود برادران وطن کو بہت زیادہ پریشانی لاحق ہوگی ؛کیونکہ آج بھی مختلف طبقات و فرقوں کے تحت رسم و رواج عدالت میں قانونی طور پر قائم ہے اور ہر انسان اپنے رسم و رواج و اقدار سے کبھی سمجھوتہ نہیں کرتا ہےـ

ملک میں امن و امان ،صلح و آشتی مساوات، محبت و مودت بھائی چارگی، اتحاد و اتفاق قائم کرنا ہر شخص کا اولین مقصد ہوتا ہے؛ لیکن ان کے نام پر لوگوں میں خوف و ہراس بے چینی و بدامنی پیدا کرنا سخت جرم ہےـ

یکساں سول کوڈ کے نفاذ سے محبت و مودت مساوات اور قیام امن مقصد ہے تو یہ ایک مستحسن قدم ہے ؛لیکن کیا یہ ممکن ہے؟

اس کے لیے عوامی سطح پر کتنی تیاریاں ہے؟

کتنی رپورٹ اس کے موافق ہے

کیا قانون اس کی اجازت دیتا ہے؟

کیا قانون میں لڑکی و لڑکے کا حصہ برابر قائم کر کے اس کا زمینی سطح پر قیام کتنا حقیقت کتنا فسانہ ہے؟

کیا اس کو بھی دفعہ 370 کی طرح عوام پر تھوپ دیا جائے گا؟؟؟؟

ظاہر ہے ایسا حقیقت میں تو ممکن نہیں ہے، حالانکہ یکساں سول کوڈ میں گوا کی مثال دی جاتی ہے ،حالانکہ وہاں بھی لوگوں کے متنوع مذاہب و فرقوں کی سہولیات کے مد نظر بے شمار استثناء قائم ہےـ مثلا اگر کچھ سالوں میں پہلی بیوی سے لڑکا بچہ پیدا نہ ہوا تو مرد دوسری شادی کر سکتا ہے وغیرہ وغیرہ ـ

اس ایجنڈے کا اعلان و تشہیر کرنے سے پہلے حکومت ایک ماہر مقنین کی کمیٹی تشکیل دے جس طرح 1940 میں ہندو کورٹ بل لانے کے قائم کی گئی تھی ،جو کہ 2005 میں اس پر عمل کیا گیا

ہنود میں جوائنٹ فیملی، لڑکا لڑکی کی وراثت میں مساوات اس طرح کے بے شمار مسائل ہیں ،جن پر قانون بنانے سے پہلے غور و فکر کرنا چاہیے،

اس پر مسلمانوں کو خاموشی اختیار کرنی چاہیے اور کسی بھی اشتعال انگیز سے اجتناب کرنا چاہیے اور اپنے متعلق غور کرنا چاہیے کہ ہم سب ابھی کتنا عائلی قوانین پر عمل پیراں ہیں، کیا ہمارے یہاں لڑکا ولڑکی کو وراثت اسلامی طور پر تقسیم کی جاتی ہے؟

یہاں پر مسلم پرسنل لاء کو بھی مسلم ریفرم پر سنجیدہ نہ ہونے پر غور کرنا چاہیے،

جب 1937 میں مسلم شریعہ ایکشن ایکٹ قائم ہوا تو اس میں وراثت سے متعلق کاشت کاری کی زمین کو کیوں الگ کیا گیا کیا اس میں لڑکی کا حصہ نہیں یا اسلام نے اس کی اجازت دی؟؟؟

اگر مان لیا جائے کہ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی عملی کارروائی شروع کردی جائے اور مسلمانوں سے ان کے مذہب کے متعلق کچھ دفعات طلب کی جائے کیا مسلم علماء اس کے لیے تیار ہیں؟

کیا ان کے پاس قوم و اسلام کی رہنمائی کرنے کا لائحہ عمل تیار ہیں؟

بہرحال ہم کو خاموشی اختیار کرنی چاہیے،

اپنی قابلیت و صلاحیت کو دیگر میدانوں میں صرف کرنا چاہیےـ

اپنی حالت پر کف افسوس ملنے کے بجائے اس کی اصلاح کی فکر ہی نہیں بلکہ عملی اقدام کرنا چاہیےـ

تبصرے بازی سے اجتناب کرنا چاہیےـ

Comments are closed.