قربانی کاتصور ہر مذہب میں عبادت کے طورپررہاہے؟

قاضی محمد فیاض عالم قاسمی
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو سجانے کے لئے مختلف قسم کی مخلوقات پیداکی ہیں، بنیادی طورپران کی تین قسمیں ہیں: (١)جمادات،جیسےمٹی، پتھر،پہاڑ ،سوناچاندی،لوہا، کوئلہ وغیرہ (٢) نباتات: جیسے گھاس پھوس،جھاڑیاں پیڑپودے،درخت وغیرہ(٣) حیوانات: یعنی ایسی مخلوقات جن میں روح ہوتی ہے، جن کی خواہش ہوتی ہےاورجواپنے ارادے سے چل پھرسکتے ہیں، جیسے چرندوپرند، چوپائے،دوپائے، رینگنے والےجانور،گائے بکری، بھینس، مرغی، پرندے،سانپ،پچھو، شیرچیتا وغیرہ۔
اللہ تعالیٰ نے یہ ساری مخلوقات انسان کےفائدے لئے پیداکی ہیں،اللہ تعالیٰ کاارشادہے:ترجمہ:لوگوں کو اپنی پسندیدہ چیزیں جیسے عورتیں، لڑکے،سونے اورچاندی کے جمع کئے ہوئے ڈھیر، نشان لگےہوئے گھوڑے، مویشی اورکھیتی خوشنمامعلوم ہوتی ہیں، حالاں کہ یہ دنیاوی زندگی میں فائدہ اٹھانے کے کچھ سامان ہیں، اوراچھاٹھکانہ تو اللہ ہی کے پاس ہے۔(آل عمران:١٤)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نےجمادات، نباتات،اورحیوانات تینوں قسم کے مال کو ذکرکیاہے۔چوں کہ زمین پر انسان اللہ تعالیٰ کانائب ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے تینوں قسم کی مخلوقات پراسے قبضہ اور ملکیت عطا کی ہے ؛ جس طرح بغیر روح والی مخلوقات جیسے جمادات اورنباتات پر انسان کا قبضہ ہے،اسی طرح روح والے جانور پر بھی قبضہ ہے۔انسان جس طرح بغیرروح والی مخلوقات سے فائدہ اٹھاتاہے اسی طرح روح والے جانوروں سے بھی فائدہ اٹھاتاہے۔ فائدہ اٹھانے کی دوشکلیں ہیں ایک یہ ہے کہ ان سے کام لیاجائے، دوسرایہ کہ ان میں سے جوانسان کے جسم کے لئے مناسب ہیں ان کو اپنی غذاکے طورپراستعمال کیاجائے۔اللہ تعالیٰ کاارشادہے:ترجمہ:اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لئے مویشی پیداکئے، جن میں کچھ پر تم سواری کرتے ہو، اورکچھ کو کھاتے ہو۔ اورتمہارے لئے اس میں اوربھی فائدے ہیں، اوراس لئے بھی پیداکئے کہ تم ان پر سوارہوکراپنی منزل مقصود تک پہونچ جاؤ، اورتم کشتیوں پر سوارکئے جاتے ہو، اللہ تعالیٰ تم کو اپنی نشانیاں دکھاتے رہتے ہیں، تو کیاتم اللہ کی نشانیوں کاانکارکروگے؟ (سورۃ المؤمن:۷۹-۸١)
دوسری جگہ ارشادہے: ترجمہ:اورچوپایوں میں سے کچھ باربرداری کے کام آتے ہیں اورکچھ جانورچھوٹے قدکے ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو عطاکیاہے اس میں سے کھاؤ اورشیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو، کہ وہ تمہاراکھلاہوادشمن ہے۔(سورۃ الانعام:١٤٢)
یہ مخلوقات دراصل دنیاوی فائدے کے لئے پیداکئے گئے ہیں، لیکن اگر کوئی ان کو اللہ کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق استعمال کرے تو ان سے اخروی نفع یعنی ثواب بھی حاصل کیاجاسکتاہے۔مثلااگر ان کو اللہ خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ذبح کیاجائے تو بڑاثواب ملے گا،ان مخلوقات کے ذریعہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں کا امتحان لیتاہے کہ میرابندہ اس کودئے گئے مال کو میرے راستے میں بھی خرچ کر تاہے یا نہیں؟ اورمیرے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق استعمال کرتاہے یانہیں؟ اور کیا وہ بھول چکاہے کہ یہ مال اللہ کا ہے ؟ انسان اس دنیا میں رہ کر مگن نہ ہوجائے اور مال و دولت کی فراوانی اسے اللہ سے غافل نہ کر دے ۔
اس مقصد سےجمادات یعنی روپیہ پیسہ سوناچاندی میں زکاۃ، نباتات یعنی پیڑ،پودے اورزمین کی پیداوارمیں عشراورروح والے مال یعنی جانوروں میں قربانی کوواجب قراردیا؛چنانچہ اللہ تعالیٰ قربانی کے تعلق سےسورۃالحج ارشادفرمایاہے۔ترجمہ : اللہ تعالیٰ کو قربانی کا گوشت نہیں پہونچتا نہ اس کا خون، لیکن اس کے پاس تو تمھارے دل کی پرہیزگاری ہی پہونچتی ہے،اس لئے کہ اللہ نے ان جانوروں کو تمہارے لیے مطیع بنا دیاہے کہ تم اس کی رہنمائی کے شکریئے میں اس کی بڑائی بیان کرو اور نیک لوگوں کو خوشخبری سنادیجئے۔(کہ اللہ ان سے خوش ہیں)۔(سورۃ الحج:٣۷)
بعض لوگ قربانی پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ بلاوجہ خون کا بہانہ اورجانوروں کو ضائع کرناہے۔حالاں کہ قدیم زمانے سے قربانی دینے کاتصوررہاہے،اورہرمذہب میں اس کو عبادت کے طورپرتسلیم کیاگیاہے۔جس طرح قربانی کا ذکر قرآن کریم اوراحادیث میں ہے اسی طرح بائبل، تورات وانجیل میں بھی ہے۔دنیا کے سب سے پہلے انسان سیدنا آدم علیہ السلام کے بیٹوں قابیل اور ہابیل میں کسی بات پر جھگڑا ہوا تو اللہ تعالی نے دونوں سے قربانی مانگی۔ دونوں نے اپنی قربانی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا دی۔ ہابیل کی قربانی قبول ہوگئی اور جانور کو آگ آکر کھا گئی جب کہ قابیل کی قربانی قبول نہ ہوسکی۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کااپنے بیٹےحضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کرنا اوراس کے بدلہ میں مینڈھے کو ذبح کرنے کا ذکر بائبل میں ملتاہے۔یہودیوں اورنصاریٰ کےیہاں تو قربانی کرنے کاتصوراب بھی ہے۔مشرکین مکہ بھی قربانی کے قائل تھے اور گاہے بہ گاہے اپنے جانور خانۂ کعبہ کی بھینٹ چڑھایا کرتے۔ ان کے نام بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام رکھتےتھے۔ اس کے ساتھ ساتھ نذر کے جانور بھی قربان کرتے تھے۔ منٰی میں قربانی کا بندوبست کیا جاتا جس میں سیکڑوں جانور ذبح کیے جاتےتھے۔
ہمارے ہندوبھائی جو اس معاملہ میں سب سے زیادہ اعتراض کرتے ہیں ان کے مذہبی کتابوں میں لکھاہے کہ گوشت کھانا کوئی برانہیں ہے کیوں کہ خدانے کچھ کو کھانے کے لئے اورکچھ کو کھائے جانے کے لئے پیداکیاہے۔(دیکھئے منوسمرتی:5:30)۔خدانے قربانی کے جانورکو قربانی کرنے کے لئے پیداکیاہے۔ ا س لئے قربانی کے مقصد سے ذبح کرنا کوئی قتل کرنانہیں۔(منوسمرتی:5:39-40)۔وشنودھرمتر پران میں تو ہے کہ میت کے ایصال ثواب کے لئے کی جانے والی قربانی کے گوشت کو جو آدمی نہیں کھائے گاوہ جہنم میں جائے گا، منوسمرتی میں دوسر جگہ ہے کہ وہ اپنی اکیسویں پیدائش میں جانوربن کر پیداہوگا۔ (وشنودھرمتر پران: کتاب 1، باب،140، شلوک:49،50)
اسی طرح دوسرااعتراض یہ بھی کیاجاتاہے کہ مسلمان بڑے بے رحم ہوتے ہیں جان اورروح والی مخلوقات کو ذبح کرڈالتے ہیں اورانھیں ہضم کرجاتے ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ خود ان کےپیداکرنے والے نے کھانے کی اجازت دی ہے،تو کھانے میں کیاحرج ہے؟ دوسراجواب یہ ہے کہ آج کل سائنسداں کہتے ہیں کہ نباتات یعنی سبزی وغیرہ میں بھی جان ہوتی ہے تو ان کو بھی نہیں کھاناچاہئے، پھر تو انسان بھوکامرجائے گا۔اس لئے یہ اعتراض بھی درست نہیں ہے۔
بہرحال خلاصہ یہ ہے کہ جانوروں کی قربانی کرناایک عظیم عبادت ہے، اوریہ ہرمذہب میں رہاہے ،اس سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔اوراس پر جو اعتراض کئے جاتے ہیں وہ بلاوجہ ہیں۔
Comments are closed.