موجودہ ہندوستان میں مسلمان اور تعلیم

مولانامحمد انعام قاسمی ندوی

نوٹ: اس مضمون میں مدرسہ اور اسکول، دونوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ فوائد، کمیاں، ضرورتیں، حل اور طریقۂ کار پر گفتگو کی گئی ہے۔
اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے ٭٭٭ شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
یادش بخیر! اب سے تقریبا دو سال پہلے کی بات ہے جب نئی تعلیمی پالیسی کا ڈرافٹ آیا تھا اور پورے ہندوستان میں اس پر گفتگو شروع ہوگئی تھی اور پھر جولائی ۲۰۲۰ء؁ میںوہ پالیسی یونین کیبنیٹ سے منظورہوئی، یوں تو نئی تعلیمی پالیسی کا آنا کوئی خاص با ت نہ تھی،آتی ہی رہتی ہیں اور کچھ نہ کچھ تبدیلیاں بھی ہوتی رہتی ہیں؛ لیکن اس میں دو باتیں خاص تھیں، (۱)یہ تعلیمی پالیسی ایک ایسی حکومت کی طرف سے آئی تھی جو اپنے خاص افکار و نظریات میں مشہور ہے، (۲)اس پالیسی میں کچھ ایسی تبدیلیاں لائی گئی تھی جو بہت اہم اور دور س اثرات رکھنے والی تھیں، اور اس طرح کی تبدیلیاں پینتیس سال کے عرصے میں پہلی بار ہوئی تھیں، کئی چیزیں اس میں قابل ِ توجہ تھیں۔
اہل مدارس کیلئے جوبات سب سے اہم تھی وہ لازمی تعلیم کا قانون تھا؛ جس میں کہا گیا تھا کہ اٹھارہ سال کی عمر تک ہر بچے بچی کو انٹر پاس کرنا ضروری ہوگا، یعنی تعلیم اور عمردونوں کی تحدید کی گئی تھی، اب سب سے بنیادی سوال یہ ہیکہ اہل مدارس اس مسئلہ کو کیسے حل کریں؟ اس مسئلہ کے تین اہم پہلو ہیں(۱) اس قانون کی رو سے مدارس اسلامیہ کے بچے بچیوں کو بھی اٹھارہ سال کے اندر اندر انٹر کرانا ضروری ہوگا اور خدشہ اس بات کا ہے کہ آگے چل کر کہیں ایسا نہ ہوکہ اس قانون کی بنیا د پر انٹر ہونے سے پہلے دیگر کسی بھی طرح کی تعلیم کواسکول کے وقت میں ممنوع قرار دیدیا جائے، ہاں البتہ اسکول کے علاوہ اوقات میں گنجائش رہے یہ ممکن ہے (۲)دوسرا پہلو اس قانون کا یہ بھی ہے کہ اگر بچہ انٹر کی تکمیل اٹھارہ سال کے بعد کرتا ہے تو تکمیل تو ہوجائے گی ؛ لیکن اس شکل میں بچہ یا بچی بہت سے ملکی حقوق اور رعایتوں سے محروم ہو جائے گا، اب ایسی شکل میں اہل مدارس کیا کریں؟(۳) تیسرا پہلو جوایک مدت ِ مدیدہ سے امت میں زیر بحث چلا آتا ہے وہ یہ کہ اہل مدارس کو بھی ضروری حد تک علوم ِعصریہ سے واقف ہونا چاہیے یا نہیں،اگر ایک حلقہ اس کی وکالت کرتا رہا ہے تو دوسرا حلقہ بیزاری کا اظہار کرتا رہا ہے؛ لیکن اب آکر اکثریت نے اس بات کومان لیا ہے کہ ضرورت بھی ہے اور اب مجبوری بھی، دارالعلوم وقف، دارالعلوم دیوبنداور جمعیت علمائے ہند -تمام ہی ادارے اب اس کے حق میں نظر آرہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس مسئلہ کا حل کیسے نکلے، اہل ِمدارس اس مشکل پر کیسے قابو پائیں؟کیا ہی اچھا ہوتا کہ تمام بڑے ادارے اور تنظیمیں سر جوڑ کر بیٹھتے؛ جن میں دینی وعصری ماہرین ِتعلیم بھی ہوتے اور ملت کیلئے ایک مشترکہ لائحۂ عمل تیار کیا جاتا؛ لیکن ایسا نہیں ہوسکا، ادارے اپنے اپنے طورپر کام کررہے ہیں۔
دیگر اہل ِعلم کی آراء
تعلیمی پالیسی پر بہت سے اصحابِ فکر وقلم نے لکھا ؛ جن میں خاص طور پر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب قابل ِذکر ہیں،مولانا کے علاوہ ڈاکٹر طارق ایوبی صاحب، مولانا اجود اللہ صاحب پھولپوری، مولانا اظہار صاحب بستوی اور ان جیسے بہت سے حضرات نے لکھا اور مسائل کے حلول پیش کئے۔ مولانا کی تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ اس تعلیمی پالیسی میں مثبت پہلو بھی ہیں؛ لیکن بہت سے منفی پہلو بھی ہیں،مثلاً(۱) تعلیم کارپوریٹس کے ہاتھوں میں چلی جائے گی اور مہنگی ہوجائے گی(۲) مذہبی اور لسانی اقلیتوں کا نقصان ہوگا، اس پالیسی میں راشٹرواد اور نیشنل کلچر کے نام پر ہندو آئیڈیا لوجی اور تہذیب کو مسلط کرنے کی کوشش کی گئی ہے (۳)مادری زبان میں تعلیم دینے کی بات کہی گئی ہے ؛ لیکن سنسکرت کو بھی لازمی زبان کی حیثیت دینے کی بات کی گئی ہے، بقول مولانا کے ہمارے سامنے تین اہم مسئلے ہیں، (۱)دینی تعلیم کا مسئلہ (۲)فکری واخلاقی تربیت کا مسئلہ(۳)اپنی زبان کا تحفظ۔ ان مسائل کے حل کے لئے مولانا فرماتے ہیں کہ مکتب کا دس سالہ مشترکہ نظام ونصابِ تعلیم بنا یا جائے؛ جس میں دینی وعصری دونوں طرح کے علوم ہوں؛ تاکہ وقت کی یہ ضرورت پوری ہوسکے۔ مولانا کی طرف سے پیش کردہ مزید تجاویز درج ذیل ہیں: (۱)ہندو مذہب کا تنقیدی مطالعہ، ہندی زبان اور سنسکرت سیکھنے کے شعبے جات کا قیام۔ (۲)طلبائے مدارس کے ذہنی افق کو وسیع کرنا، صحیح فکرِ اسلامی سے روشناس کرانا، فکری تربیت کرنا، ان سب چیزوں کیلئے خارجی مطالعہ کا کورس مرتب کرنا اور اس کو عمل میں لانا۔ (۳)مسلکی شدت کو کم کرنا، ادب الخلاف کے موضوع پر کتابوں کا مطالعہ کرانا۔
دیگر حضرات کی باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک مرحلہ تک مدارس میں دینی و عصری تعلیم ساتھ ساتھ ہو،بعض حضرات نے کہا کہ اسکولوں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے وہاں بھی مسلم بچے اور بچیوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے، خاص طور پر مسلم اسکولوں میں دینی تعلیم کا بھی بہتر نظم ہونا چاہئے۔ مدارس کے اندر ٹیچرس ٹریننگ کا بھی مضبوط نظام ہونا چاہئے اور اس کی سند بھی دی جانی چاہئے؛ تاکہ تعلیمی نظام پختہ اور بہتر ہوسکے۔ طلباء کے اندر خود اعتمادی کی بحالی اور احساسِ کمتری کا خاتمہ ہونا چاہئے۔
مدرسہ
ہمارا تعلیمی نظام دو حصوں میں بٹا ہواہے، دینی تعلیم، عصری تعلیم،یا یوں کہہ لیجئے کہ اسکول اور مدرسہ میں منقسم ہے۔ مدرسہ دینی تعلیم کا نمائندہ ہے اور اسکول عصری تعلیم کا۔ تعلیمی نظام دوحصوں میں کب کیوں اور کیسے بٹا؟اور کس نے اس کو بانٹا؟ جب کہ اسلام کے ایک ہزار سالہ دورِ عروج میں نظامِ تعلیم ہمیشہ وحدانی رہا، یہ ایک لمبا موضوع ہے؛ جس پر مستقل مضمون کی ضرورت ہے۔ دونوں نظاموں کا اگر صحیح اسلامی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تومعلوم ہوگا کہ ملت ِاسلامیہ ہندیہ کو اپنے مطلوبہ افراد کہیں سے بھی نہیں مل پا رہے ہیں،اگر فارغینِ مدارس عصری تعلیم کی کمی ،احساسِ کمتری اور معاشی مسائل سے دوچار ہیں تو اسکولی نظام کے پروردہ افراد دینی تعلیم سے بے بہرہ، خدا بیزار، انسانی اقدار سے عاری اور ارتداد کی دہلیز پر کھڑے ہوئے ہیں، تاریخ سے سبق حاصل کرتے ہوئے وحدانی نظامِ تعلیم کا نفاذ وقت کی ضرورت ہے۔ وحدانی نظامِ تعلیم سے جو فوائد حاصل ہوسکتے ہیں وہ انفرادی طورپر دونوں میں سے کسی سے بھی حاصل نہیں ہوسکتے، بطورِ جائزہ ہم دونوں نظاموں کے مسائل پر ایک ایک نظر ڈالتے ہیں۔
مدارس میں موجود مسائل کا تجزیہ ہم کچھ اس طرح کرسکتے ہیں
۱۔ لازمی عصری تعلیم سے محرومی۔
۲۔ فارغین مدارس کثیر علوم پڑھنے کے بعد بھی دنیا اور حکومت کی نظر میں ناخواندہ سمجھے جاتے ہیں۔
۳۔ فارغین مدارس کی دنیا کے سماجی نظام اور حکومت کے نظام میں کوئی خاص شرکت یا حصے داری نہیں۔
۴۔ عالمی زبان سے عدم واقفیت کی وجہ سے عالمی میڈیا، اس کے دجل وفریب ،اس کی تاثیر اور اس کی حقیقت سے عدم واقفیت۔
۵۔ دنیا کے سماجی نظام اور حکومت کے نظام میں عدم شرکت کی وجہ سے سخت مسائل اور مشکلات کا سامنا۔
۶۔ دعوت وتبلیغ اور اصلاح کے کام کا نہایت محدود پیمانہ پر رہ جانا۔
۷۔ اہل ِدنیا کیلئے دیندار حلقے کی نافعیت نہایت محدود۔
۸۔ فارغینِ مدارس کو سخت معاشی مسائل و مشکلات کا سامنا۔
۹۔ ان ساری چیزوں کی بنیاد پرفارغینِ مدارس احساس ِکمتری کا حد درجہ شکار ۔
۱۰۔ اسلام کی نمائندگی صرف دیندار حلقے تک محدود ۔
اسکول
ہمارے ملک میں پائے جانے والے اسکولوں کو اگر ہم کیٹاگرائز کریں تو ہم چار طرح کے اسکول دیکھتے ہیں، (۱)سرکاری اسکولز؛ جنہیں ہم سیکولر اسکول بھی کہہ سکتے ہیں (۲)مشنری اسکولز، جیسے: کانوینٹ اسکولز، ایس ڈی، ڈی اے وی اور آر ایس ایس کے مختلف ناموں سے چلنے والے اسکولز (۳)مسلم منیجمنٹ والے وہ اسکولز جو صرف بزنس مقصد کیلئے کھولے گئے ہیں (۴)مسلم منیجمنٹ والے وہ اسکولز جو کچھ نہ کچھ دینی فکر بھی رکھتے ہیں۔مشنری اسکولزچاہے وہ کانوینٹ ہوں یا ایس ڈی اور ڈی اے وی قسم کے ہوں وہ اپنے مشن کی ترویج واشاعت اور اسلام مخالف اور خدا بیزارذہن تیار کرنے میں نہ صرف مصروف ؛ بلکہ کامیاب ہیں اور مسلم بچے بچیاں بھی ایسے اسکولوں میں ذہنی ارتداد کا شکار ہورہے ہیں۔ سیکولراسکولز کا اگر چہ کوئی خاص فکری مشن نہیں؛ لیکن انکا پور ا نظام کم سے کم لارڈ میکالے کی بنیادوں پر استوار ہے، الحاد، لادینیت اور مادیت پرستی اس کا خاص عنصر ہے۔ اب رہے مسلم مینیجمنٹ والے اسکول تو ان میں سے اکثر کا قیام بزنس کے نقطۂ نظر سے ہے ؛ انہیں دینی تعلیم، اخلاق وتربیت اور بچے کے دین وایمان کے مسئلہ سے کوئی سروکار نہیں؛ اسلئے یہ اسکول بھی ملت ِاسلامیہ کیلئے تقریباً صفر کی حیثیت رکھتے ہیں،ہاں البتہ کچھ وہ مسلم اسکولز جو تعلیم کے ساتھ اسلامی فکر اور اپنے اسکولوں میں کچھ دینی مضامین بھی رکھتے ہیں وہ اس سے مستثنی ہیں۔موجودہ وقت میں مسلم بچے بچیاں اسکولوں میں جن مسائل سے دوچار ہیں وہ حسبِ ذیل ہیں۔

اسکول میں موجود مسائل کا تجزیہ
(۱)لازمی دینی تعلیم سے محرومی(۲)فکری وعملی ارتداد کا مسئلہ(۳) پردہ کا مسئلہ(۴) اختلاط کا مسئلہ(۵)اسلامی فکر سے ناآشنائی (۶) مغربی اور ہندوانہ فکرو فلسفہ کو اپنانا (۷)اخلاقیات اور اقداروروایات کا مسئلہ(۸)مغربی تہذیب کو اپنانا (۹)دین اور دیندار لوگوں کو حقیر سمجھنا(۱۰)مادیت پرستی- پیسے کی ہوس میں ہر طرح کی حددو کو پار کرنا۔
کس نے کیا کیا؟
بہت سے افراد، تنظیمیں اور ادارے مختلف طریقوں سے حل کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں،جمعیت علمائے ہند نے کافی پہلے اپنی عاملہ کی میٹنگ میں اپیل کی تھی کہ اہل مدارس اپنے یہاں حسب ِوسعت اسکولوں کا نظام بھی قائم کریں؛ اسی طرح تعلیمی بیداری تحریک بھی چلائی اور اس کیلئے ایک کتابچہ بھی شائع کیا ؛ جس کا عنوان تھا ’’دینی ماحول میں عصری تعلیم وقت کا اہم تقاضہ‘‘ ساتھ ہی ساتھ مکاتب کی تحریک بھی چلائی، اب اہل ِمدارس کی اسی ضرورت کو پوراکرنے کیلئے جمعیت نے فروری ۲۰۲۱ء؁ میں لاک ڈاؤن کھل جانے کے بعد ’’جمعیت اوپن اسکولنگ‘‘ کا نظام متعارف کرایا جو سرکاری ادارے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ (NIOS) سے وابستہ ہے۔دارلعلوم وقف دیوبند نے اپنی شوریٰ میںتجویز پاس کرکے اسکولی مضامین کو دینی تعلیم کے کورسیز کے ساتھ مدغم کرکے تعلیم شروع کردی ہے، دارالعلوم دیوبند میں بھی نصاب پر کام جاری ہے۔ایک اہم مسئلہ اسکول کی نصابی کتابوں کا ہے، ہندوستان میں اسلامی فکر پر اسکولی کتابوں کو مرتب کرنے کا کام کئی اداروں نے کیاہے؛ لیکن اس میں سب سے بہتر کام مولانا ابوالحسن علی ندویؒ اسلامک اکیڈمی بھٹکل کا ہے۔ جہاں تک خارجی مطالعہ کے نصاب کا تعلق ہے تو ایک نصاب تو ندوہ میں موجود ہے، جو حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کا مرتب کردہ ہے۔ایک دوسرا نصاب مولانا ڈاکٹر محسن عثمانی ندوی نے بھی مرتب کیا ہے، ان نصابوں سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
اصل مسئلہ
لیکن ان تمام کاموں کے باوجود میرا احساس یہ ہے کہ یہ تمام طریقے عارضی اور ناکافی ہیں، دراصل ہمیں لوٹنا چاہیے اپنے ماضی کی طرف اور ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اسلام کے ایک ہزار سالہ دورِ عروج میں ہمارا نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کیا تھا؟ہمیں دیکھنا ہوگا کہ اسلام کے اصول وقواعد کی روشنی میں موجودہ وقت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہم نصاب ونظام کو کتنا جامع اور مفیدشکل میں مرتب کرسکتے ہیں۔ اصل اشکال اس بات پر ہے کہ آج بھی ہم لوگ اس مسئلہ کو روا روی میں حل کرنا چاہتے ہیں،اسکولی تعلیم کو محض خانہ پوری یا سند لینے کیلئے حاصل کرناچاہتے ہیں،نا ہم اس کے بارے میں سنجیدہ ہیں اور نا اسے حقیقی ضرورت سمجھتے ہیں۔ کچھ یہی رویہ دینی مضامین کے ساتھ اہل ِاسکول کا ہے، نہ سنجیدگی ہے اور نہ دینی تعلیم کو حقیقی ضرورت سمجھتے ہیں،بس معاشرہ کے دباؤ میں ان مضامین کو رکھ لیا گیا ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ خانہ پوری کا عمل محض اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے،اگر ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایمان پر باقی رکھنا چاہتے ہیں اور دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات اور کام کرنا چاہتے ہیںتو نہایت مضبوط لائحۂ عمل تیار کرنا ہوگا اور دینی وعصری تعلیم نہایت مضبوط شکل میں اپنے بچوں کو فراہم کرنی ہوگی۔
حل کا طریقۂ کار
ہر نئی آنے والی چیز (شی، افکار ونظریات) کے ساتھ ہمارا رویہ دہرا اور حریفانہ ہوتا ہے، ذاتی زندگی میں وہ ساری چیزیں جائز اور قابل ِقبول ہوجاتی ہیں؛جن کیلئے اسلامی یا اجتماعی زندگی میں ایک لمبے عرصہ تک جدو جہد کرنی پڑتی ہے، یا تو ہم صحیح نقد و تجزیہ نہیں کرسکتے یا کرنا نہیں چاہتے یا پھر ہم صحیح اسلامی فقاہت سے محروم ہیں۔ حالانکہ نئی چیزوں کے ساتھ ہمارا رویہ شریعت کی روشنی میں( خذ ما صفاودع ماکدراورالحکمۃ ضالۃ المؤمن أنیّٰ وجدھا فھو احق بھا )کے تحت ہونا چاہئے۔ہر نئی آنے والی چیز کو ایک دم سے حرام کہدینایا دین سے خارج کردینا کوئی اچھا عمل نہیں ہے۔ موجودہ مسئلہ میں ہمارا طریقۂ کار یہ ہونا چاہئے کہ سب سے پہلے مرض کی تشخیص ہو، اس کے بعد علاج تجویز کیا جائے،پھر عملی طورپر علاج کیا جائے۔ دیکھا جائے کہ ہمارے سامنے مسائل کیا کیا ہیں؟ اور ہماری ضرورتیں کیاکیا ہیں؟ تیسرے نمبر پر حل پیش کیا جائے، حل پیش کرنے میں مدرسہ اور اسکول دونوں پیشِ نظر رہنے چاہئیں؛ کیونکہ مسلم بچے اور بچیاں دونوں ہی جگہ پڑھتے ہیں۔
ہماری موجودہ ضرورتیں
۱۔ ہماری سب سے بنیادی ضرورت یہ ہے کہ ہمارے بچے بچیاں دین و ایمان پر باقی رہیں، ان کے اندر ایسی دینی استقامت ہو کہ کوئی بھی غیر اسلامی تحریک، تہذیب اور فکرو فلسفہ انہیں بہا کر نہ لے جائے، ان کے پاس دین وشریعت کا کم سے کم اتنا علم ضرور ہو کہ وہ اسلام اور غیر ِاسلام کا تقابل کرکے اچھے برے کی تمیز کرسکیں۔
۲۔ اسکول و مدرسہ دونوں جگہوں پر بچے اور بچیوں کو صحیح اسلامی فکر وتربیت ملنی چاہئے۔
۳۔ فارغین ِمدارس کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ لازمی عصری تعلیم بھی ملے۔
۴۔ مدارس میں اسکولی تعلیم کم سے کم لازمی مرحلے تک ہونی چاہئے، یعنی انٹر تک۔
۵۔ اسکولی بچے اور بچیوں کو لازمی دینی تعلیم ہر حال میں ملنی چاہئے۔
۶۔ مسلم منیجمنٹ والے اسکولوں میں لازمی دینی تعلیم کا نصاب اسکولی نصاب کے ساتھ ضم ہونا چاہئے۔
۷۔ موجود ہ وقت میں اخلاقیات اور اسلامی وانسانی اقدر وروایات کی شدید ضرورت ہے؛ کیونکہ سب سے زیادہ انہیں چیزوں کو پامال کیا جارہا ہے۔
حل
(۱)مدرسہ کے نصاب میں ابتدائیہ، ثانویہ اور شعبۂ فارسی کے نصاب کے ساتھ بارہوی کلاس تک کے اسکول کے نصاب کو اس طرح ضم کردیا جائے کہ دونوں میں کوئی خلل واقع نہ ہو اور طالب ِعلم کو دونوں طرح کے مضامین کا بھر پور فائدہ ملے۔ (۲)مدارس کے تحت حکومت سے انٹر تک کے اسکولوں کی منظوری لی جائے؛ تاکہ طلبہ لازمی عصری تعلیم کے سرٹیفیکٹ سے محروم نہ رہیں۔(۳) بارہویں کلاس تک کی یہ تعلیم طالب ِعلم کے عربی درجات میں داخل ہونے سے پہلے پہلے پوری ہوجائے؛ تاکہ حکومت کی طرف سے مقرر کردہ عمر کی حد کے اندر اندر طالب ِعلم کا انٹر کلیر ہوجائے ۔(۴)عا لمیت کا کورس آٹھ سال کے بجائے چھ سال پر مشتمل ہونا چاہئے، چھ سال میں عا لمیت کا کورس نہایت آسانی سے مکمل ہوسکتا ہے، اس کی عملی مثالیں موجود ہیں۔ (۵)کسی بھی تعلیمی ادارے (اسکول و مدرسہ)میں تعلیمی گھنٹے آٹھ ہونے چاہئیں۔ (۶)عا لمیت کا کورس جب چھ سالہ ہو تو اس میں عصری مضامین نہ رکھے جائیں؛ تاکہ عا لمیت میں کمزوری نہ آئے اور پھر جب دو سال کم کردئے جائیں گے تو ویسے بھی گنجائش نہ رہے گی۔ (۷)اردو زبان کو بحیثیت ِمضمون شامل رکھا جائے اور مارکشیٹ میں بحیثیت ِمضمون اس کا اندارج ہونا چاہئے۔ (۸)مسلم منیجمنٹ والے اسکولوں کیلئے لازمی دینی تعلیم کا نصاب مرتب کرنا چاہئے؛ جس میں کم سے کم ناظرہ قرآنِ کریم، بارہویں کلاس تک کی اردو، عقائد، سیرتِ نبوی، دینیات اور تاریخِ اسلام جیسے مضامین شامل ہونے چاہئیں۔
سب سے بہتر حل تو یہ ہے کہ انٹر تک کا دینی اور عصری تعلیم پر مشتمل ایک ایسا مشترکہ اور کامن نصاب تیار کیا جائے جو مدارسِ اسلامیہ اور مسلم منیجمنٹ والے اسکولوں کیلئے بیک وقت مفید، قابل ِقبول اور ضرورت کو پورا کرنے والا ہو؛ کیونکہ انٹر کی سند جیسے اسکول کے طلبا وطالبات کو چاہئے، ایسے ہی وہ مدرسہ کے طلباء وطالبات کی بھی ضرورت ہے، اور دینی تعلیم جیسے مدرسہ کے طلباء وطالبات کی ضرورت ہے، ویسے ہی وہ اسکول میں پڑھنے والے مسلم طلباء وطالبات کی بھی ضرورت ہے؛ چنانچہ جب منزل ایک ہوئی تو راستہ بھی ایک ہی ہونا چاہئے۔اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعاء اور علامہ اقبال کے اس شعر کے ساتھ اپنی بات کو ختم کرتا ہوں۔
نہیں ہے اقبال نا امید اپنی کشت ِویراں سے ٭٭٭ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زر خیز ہے ساقی

نوٹ: مدرسہ اور اسکول سے متعلق اور بھی بہت سے مسائل ہیں؛ جن میں تربیت، کاؤنسلنگ، عا لمیت کا نصاب، تخصصات، کالج اور یونیورسٹی کے مسائل، اور زبان کے مسائل خاص طورپر قابل ِذکر ہیں۔یہ اور دیگر تمام مسائل پر ایک کتابچہ تقریباً تیار ہے جو انشاء اللہ جلد ہی منظرِ عام پر آئے گا۔

Comments are closed.