بھارت، مسلمان اور سیاست

 

از: محمد انعام قاسمی ندوی
ملک کی آزادی کے بعد سے مسلمان آہستہ آہست فعال سیاست سے دور ہوتے چلے گئے، اسی لئے جہاں جہاں مسلمان اثرورسوخ بھی رکھتے تھے وہاں بھی وہ پیچھے ہوتے چلے گئے دوسرے لوگ آگے بڑھتے چلے گئے، مسلمانوں کی نمائندگی گھٹتی چلی گئی، سیاسی نمائندگی کے کمزور ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے حقوق بھی ضائع ہوتے چلے گئے، فکری طورپر بھی کمزور ہوئے، دوسرے لوگوں نے اس کمزوری کو محسوس کیا اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی، حکومت کے سروے اور پورٹس کے مطابق آج مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی کمتر ہوچکی ہے۔
آزادی کے بعد سے عام طورپر مسلمانوں نے گانگریس کا دامن تھامے رکھا، اس کو اپنا مسیحا سمجھتے رہے؛ لیکن کانگریس مسلمانوں کو صرف ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرتی رہی اور اندر اندر سے کھوکھلا کرتی رہی، ہر طرح کے مظالم ان کے ساتھ روا رکھتی رہی، پھر بھی اسی سے وابستہ رہے؛ لیکن اپنا سیاسی وجود بنانے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔ یوپی میں بھی کانگریس کے علاوہ کبھی سپا کے ساتھ اور کبھی بسپا کے ساتھ؛ لیکن جس کے پاس بھی گئے اسی نے دھوکہ کیا، مسلمانو ںکو محض ایک ووٹ بینک کے طورپر استعمال کیا۔ اس پالیسی اور طریقۂ کار کی وجہ سے ایک بڑی تعداد ہونے کے باوجود مسلمان نہایت کمزور اور دوسروں کیلئے لقمۂ تر بنتے چلے گئے، دوسرے لوگوں نے ان پر خوب سیاست کی؛ لیکن ا ن کو سیاسی پہلو سے کوئی راحت نہ مل سکی۔مسلمانوں کی حالت ایک ایسی بے قائد بھیڑ کی ہوگئی کہ جو جدھر ہنکالے جائے۔۔۔! ان کا ووٹ ایک ایسا فلوٹنگ ووٹ بن گیا کہ محنت کرکے جو اپنی طرف جتنا کھینچ لے اتنا ہی اس کا فائدہ، دیگر اقوام کا حال یہ ہے کہ ان کا ووٹ اپنے اپنے قائدین اور اپنی اپنی پارٹی کیلئے مخصوص ہے، حالات کیسے ہی اور کچھ بھی ہوجائیں ان کا ووٹ صرف اور صرف اپنی پارٹی اور اپنی لیڈرشپ کیلئے ہے۔ اور مسلمان پست ہمت، شکست خوردہ، کبھی اس سے امید لگاتے ہیں کبھی اس سے اور ہر جگہ امید ٹوٹتی ہے، سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔بی جے پی سے سخت ہندوگیر نظریات کی وجہ سے دور رہتے ہیںیا رکھا جاتا ہے، کانگریس کے تعلق سے یہ استدلال پیش کیا جاتا ہے کہ کانگریس نہیں تو پھر کون؟
اب سوال یہ ہے کہ اسی طرح کب تک زخم کھاتے رہیں گے؟ اور کب تک ہر فلڈ میں پیچھے جاتے رہیں گے؟ کب تک وہ بغیر قائد کے اسی طرح ادھر ادھر بھٹکتے رہیں گے؟ کیا ہمارے لئے کیرالا، تلنگانہ اور آسام کی مثالیں کافی اور سبق آموز نہیں ہیں؟ کیا ہمیشہ اسی موہوم مفروضے میں جیتے رہیں گے کہ اگر مسلمانوں نے سیاسی پارٹی بنالی تو تمام ہندو متحد ہوجائیں گے۔ یاد رکھیے! ایسا کبھی نہیں ہوگا، اوپر مذکورہ تینوں صوبوں کی مثال اس کا واضح ثبوت ہے؛ جو فارمولا حضرت مولانا اسعد مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے آسام کیلئے مولانا بدرالدین اجمل کو دیا ، وہ فارمولا یوپی ،بہاراور مہاراشٹر کیلئے کیوں نہیں؟ وہ فارمولا ملک کے دوسرے صوبوں کیلئے کیوں نہیں؟ مولانا اسعد مدنیؒ نے اجمل صاحب سے فرمایا تھا کہ اگر آسام میں مسلمانوں کے حقوق اور عزت کی زندگی چاہتے ہوتو سیاست میں آجاؤ اور سیاسی پارٹی بناؤ، اس پر عمل کیا گیا اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
یقینا کوئی بھی چیز ایک دم سے کھڑی نہیں ہوجاتی، اس کیلئے بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے،اس میدان میں بھی بے حد محنت کرنی ہوگی، زمینی سطح پر کام کرنا ہوگا، قوم کو بیدار کرنا ہوگا، میدان کار کیلئے مخلصین تیارکرنے ہونگے، سیاست کے عام ٹرینڈ سے ہٹ کر کام کرنا ہوگا، دنیا میں کامیاب انداز میں کام کرنے والی بڑی بڑی تنظیموں کی تاریخ اور طریقۂ کار سے سبق لینا ہوگا، خود اسلام کا اجتماعی نظام اپنے آپ میں ایک بہترین تنظیم ہے۔ہندوستان کی ایک بڑی اور کامیاب تنظیم آر ایس ایس کو ہی لے لیجئے، اس کے یہا ںایک بنیادی اصول یہ ہے کہ جو بھی تنظیم کا ممبر بنتا ہے اس سے عہد لیا جاتا ہے کہ وہ تنظیم کے کام کو آگے بڑھانے میں اپنا تعاون پیش کریگا، تنظیم سے کبھی کچھ لینے کی کوشش نہیں کریگا، دوسرا اصول یہ ہے کہ تنظیم جو کام اس کو دے گی یا جو ذمہ داری اس کو سپرد کریگی وہ کام کرنا ہوگا، اس ذمہ داری کو نبھان ہوگا، اگر غور سے دیکھا جائے تو تنظیمی کاموں میں پیدا ہونے والے خود غرضی، مفاد فرستی اور موروثیت جیسے بے شمار مفاسد کا سدِّ باب ان دو اصولوں سے ہوجاتا ہے۔
ضرورت اس چیز کی ہے کہ ملکی سطح پر ایک ایسا تنظیمی نظام قائم کیا جائے جو مسلمانوں میں بیداری، اصلاح، قوم اور ملک وملت کے لئے اخلاص ووفاداری کے ساتھ کام کرنے کا جذبہ پیدا کرے۔ مسلکی،گروہی، ذات پات اوربرادری کی تنگ گلیو ںکو چھوڑ کر ملت کے مجموعی اور وسیع تر مفادات و حقوق کی فکر کرے، ملک میں دو ایسی بڑی تنظیمیں موجود ہیں جو اس کام کو انجام دے سکتی ہیں، جمعیت علمائے ہند اور جماعت ِاسلامی ہند،پھر اس نظام کی سرپرستی میں ہر صوبے میں ایک مسلم قیادت والی پارٹی بنائی جائے جو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ پچھڑے اور محروم طبقات کے حقوق کے لئے کام کرے،ہوسکتا ہے کہ کچھ نقصان بھی اٹھانا پڑے اور مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑے؛ لیکن ایسا نہیں ہوگا کہ محنت کریں اور اللہ تعالی اس کا نتیجہ نہ دے۔

Comments are closed.