احکامِ قربانی

سوال و جواب کے آئینے میں
از: مولانا آفتاب اظہرؔ صدیقی
سوال : قربانی کیا ہے؟
جواب: قربانی اللہ کے پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ (یعنی اُن کی سنت) ہے۔
سوال قربانی میں کیا ثواب ہے؟
جواب: قربانی کے (جانور کے) ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے۔
سوال : قربانی کس پر واجب ہے؟
جواب: قربانی ہر اُس عاقل، بالغ، مقیم، مسلمان پر واجب ہے جو نصاب کا مالک ہو یا اس کی ملکیت میں ضرورتِ اصلیہ سے زائد اِتنا سامان ہو جس کی مالیت نصاب تک پہنچتی ہو اور اس کے برابر ہو، نصاب سے مراد یہ ہے کہ اس کے پاس ساڑھے سات تولہ صرف سونا یا ساڑھے باوَن تولہ چاندی یا اُس کی قیمت کے برابر نقد رَقم ہو یا ضرورَتِ اصلیہ سے زائد اِتنا سامان ہو جس کی قیمت ساڑھے باوَن تولہ چاندی کے برابر ہو۔
سوال: کیا گھر کے ایک فرد کی قربانی سب کی طرف سے کافی ہے؟
جواب: جی نہیں! جس طرح زکوٰۃ ہر صاحب نصاب پر الگ الگ لازم ہے اسی طرح قربانی بھی ہر صاحب نصاب پر الگ الگ واجب ہوتی ہے؛ ایک گھر میں اگر چار افراد صاحب نصاب ہوں تو ہر ایک پر الگ الگ قربانی کرنا واجب ہے، صاحب نصاب باپ کی قربانی صاحب نصاب بیٹے کی طرف سے کافی نہیں ہوگی۔
سوال: جو آدمی صاحب نصاب نہ ہو اگر وہ قربانی کرے تو کیا حکم ہے؟
جواب: غیر صاحب نصاب کی قربانی مستحب ہے؛ ثواب ملے گا۔
سوال:کیا قربانی کے مہینے میں کوئی روزہ بھی ہے؟
جواب : جی ہاں! یومِ عرفہ یعنی ۹؍ ذی الحجہ کے روزے کی حدیث میں فضیلت آئی ہے؛ چنانچہ رسول آخری محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عرفہ کے روزہ کے بارے میں فرمایا:یہ گزرے ہوئے اورآنے والے سال کے گناہوں کاکفارہ ہے۔ معلوم ہوا کہ عرفہ کے دن کا روزہ رکھنے سے دوسال کے صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں ۔
سوال: تکبیر تشریق کیا ہے اور اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: تکبیر تشریق کے الفاظ یہ ہیں:”اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر، اللہ اکبر و للہ الحمد”
تکبیراتِ تشریق کا حکم یہ ہے کہ 9 ذوالحجہ کی فجر کی نماز سے لے کر 13 ذوالحجہ کی عصر کی نماز تک (23 نمازوں میں) ہر فرض نماز کے بعد مردوں کے لیے باآوازِ بلند اور عورتوں کے لیے آہستہ آواز سے ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے۔
عید الاضحی کی نماز کے لیے جاتے ہوئے راستے میں باآوازِ بلند تکبیر پڑھنا مستحب ہے۔
سوال : قربانی کا مقصد کیا ہے؟
جواب: قربانی کا مقصد اللہ کا تقرب اور اس کی فرماں برداری ہے۔
سوال: کیا قربانی کرنے والے کے لیے بال کٹوانا منع ہے؟
جواب: حدیث کی روشنی میںاس کو مستحب قرار دیا گیا ہے کہ جس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو اس کے لیے مستحب ہے کہ ماہِ ذی الحجہ کے آغاز سے جب تک قربانی کا جانور ذبح نہ کرے جسم کے کسی عضو سے بال اور ناخن صاف نہ کرے، نیز بلاضرورت کھال وغیرہ بھی نہ کاٹے۔
سوال: قربانی کے جانور کی عمر کیا ہونی چاہیے؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”مُسِنَّہ”جانور کی قربانی کا حکم دیا ہے، عربی زبان میں بکری دنبہ وغیرہ میں ”مُسِنَّہ” اسے کہا جاتا ہے جس کی عمر ایک سال مکمل ہوچکی ہو، اور گائے، بیل، بھینس وغیرہ میں ”مُسِنَّہ”اس جانور کو کہا جاتا ہے، جو دو سال مکمل کرچکا ہو، جب کہ اونٹ میں ”مُسِنَّہ”اسے کہا جاتا ہے، جو پانچ سال مکمل کر چکا ہو، اسی طرح سے اگر بھیڑ فربہ ہو اور اس کی عمر چھ ماہ ہوچکی ہو تو اس کی قربانی کی بھی اجازت دی ہے۔
سوال: کن عیبوں کی بنا پر جانور قربانی کے لائق نہیں رہتا؟
جواب: مندرجہ ٔذیل عیب دار جانوروں کی قربانی درست نہیں ہے:
ایسامجنون جانورجو جنون کی وجہ سے چارہ نہ کھاتا ہو۔
ایساخارش زدہ جانور جو خارش کی وجہ سے بے حد کمزور ہوگیا ہو۔
ایسا جانور جو دیکھ نہ سکتا ہو۔
ایسا جانور جو بہت ہی لاغر اور بالکل بے جان سا ہو۔
ایسا جانور جو قربان گاہ کی طرف خود نہ چل سکتا ہو۔
ایسا جانور جس کا ایک تہائی کان، یا دم، یا بینائی، یا چکتی کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ جا چکا ہو۔
ایسا جانور جس کے پیدائشی کان نہ ہوں۔
ایسا جانور جس کے تھنوں کا سرا کٹا ہوا ہو۔
ایسا جانور جس کے تھن خشک ہوگئے ہوں، (گائے کے دو تھن خشک ہوچکے ہوں اور بکری یا ایک تھن خشک ہوجائے تو قربانی درست نہیں ہوگی)۔
ایسا جانور جس کی ناک کٹی ہوئی ہو۔
ایسا جانور جو خنثیٰ ہو۔
سوال: قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا طریقہ کیا ہے؟
قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جانور کو قبلہ رو لٹانے کے بعد ’’بسم اللہ، و اللہ اکبر‘‘ کہتے ہوئے تیز دھار چھرے سے جانور کے حلق اور لبہ کے درمیان ذبح کیا جائے، اور گردن کو پورا کاٹ کر الگ نہ کیا جائے، نہ ہی حرام مغز تک کاٹا جائے، بلکہ ’’حلقوم‘‘ اور سانس کی نالی اور اس کے اطراف کی خون کی رگیں کاٹ دی جائیں، اس طرح جانور کو شدید تکلیف بھی نہیں ہوتی اور سارا نجس خون بھی نکل جاتا ہے، اس طریقہ کے علاوہ باقی تمام طریقوں میں نہ ہی پورا خون نکلتا ہے اور جانور کو بلا ضرورت شدید تکلیف بھی ہوتی ہے۔جانور کو قبلہ رخ لٹاتے ہوئے جانور کی بائیں کروٹ پر لٹانا پسندیدہ ہے، تاکہ دائیں ہاتھ سے چھری چلانے میں سہولت رہے۔
جب قربانی کا جانور قبلہ رخ لٹالے تو پہلے درج ذیل آیت پڑھنا بہتر ہے:
”إِنِّی وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِینَ، إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ”.
اور ذبح کرنے سے پہلے درج ذیل دعا اگر یاد ہو تو پڑھ لے:
”اللّٰہُم َّمِنْکَ وَ لَکَ” پھر ’’بسم اللہ اللہ اکبر‘‘ کہہ کر ذبح کرے، اور ذبح کرنے کے بعد اگر درج ذیل دعا یاد ہو تو پڑھ لے:
”اَللّٰہُمَّ تَقَبَّلْہُ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ وَ خَلِیْلِکَ إبْرَاہِیْمَ علیہما السلام”.
اگر کسی اور کی طرف سے ذبح کر رہا ہو تو ”مِنِّیْ” کی جگہ ” مِنْ ” کے بعد اس شخص کا نام کہے۔
Comments are closed.