یوپی اسمبلی الیکشن 2022 کے تناظر میں اویسی صاحب کو کچھ مشورے

مظاہرحسین عماد عاقب قاسمی

اویسی صاحب کے حق میں ایک ہی بات اچھی ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں گرجتے ہیں اور برستے ہیں ،ان کے خلاف تین باتیں ہیں۔
1-ان کے پارٹی کے پرانے لیڈران قاسم رضوی وغیرہ پاکستان حامی تھے ، اور ریاست حیدرآباد کو ہندوستان میں ضم کرنا نہیں چاہتے تھے ، انہوں نے لاکھوں رضا کاروں کی فوج بنائی تھی ، ہندوستانی فوج سے لڑے بھی تھے ، شکست کھائی تھی ، کئی سال جیل میں رہے ، پھر حکومت ہند نے اس شرط پر انہیں رہا کیا تھا کہ وہ پاکستان چلے جائیں گے ، قاسم رضوی نے پاکستان جاتے وقت مجلس اتحاد المسلمین کی کمان اسد الدین اویسی صاحب کے دادا عبد الوحید اویسی کے سپرد کردی تھی ،عبد الوحید صاحب نے زندگی سماج کی خدمت میں لگادی ،اور سیاست میں حصہ نہیں لیا ، مگر ان کے صاحب زادے صلاح الدین اویسی صاحب نے سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ، انیس سو ساٹھ میں کارپوریٹر منتخب ہوئے اور انیس سو باسٹھ سے انیس سو چوراسی تک ممبر اسمبلی ،اس کے بعد بیس سال ممبر لوک سبھا،منتخب ہوتے رہے۔
2-وہ حیدرآباد میں صرف آٹھ سیٹوں پر انتخاب لڑتے ہیں ، مگر یوپی میں سو سیٹوں پر، پہلے ان کو یوپی میں صرف پانچ دس سیٹوں پر لڑنا چاہیے ، دوہزار سترہ میں چالیس پر لڑے تھے ، اس تجربے کو دیکھتے ہوئے جہاں جہاں ان کو پچیس تیس ہزار ووٹ ملے تھے ، اور دوسرے یا تیسرے نمبر پر تھے صرف وہیں سے انتخاب لڑنا چاہیے ۔
3- دلتوں اور پسماندہ ہندؤں کی چھوٹی چھوٹی گمنام پارٹیوں سے وہ اتحاد کرتے ہیں ، مگر مسلم پارٹیوں سے وہ اتحاد نہیں کرپاتے ، بستی ،اور گونڈہ میں وہ پیس پارٹی سے اور اعظم گڑھ اور جونپور میں راشٹریہ علماء کونسل سے ان کا سمجھوتہ نہیں ہو پاتا ہے ،انہوں نے سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی سے سمجھوتہ کیا ہے اور اسے ڈیڑھ سو سیٹیں دی ہیں ، یہ پارٹی دوہزار دو سے یوپی اور بہار کے انتخابات میں حصہ لے رہی ہے ، مگر ایک سیٹ بھی حاصل نہیں کرسکی ، دو ہزار سترہ میں یوپی کے اسمبلی الیکشن میں اس نے بی جے پی سے اتحاد کرلیا ، آٹھ سیٹیں اسے دی گئیں اور چار پر وہ کامیاب ہوئی ، سہیل دیو ایک متنازعہ کردار ہے ، اس کردار کے ذریعے فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کے خلاف ہنگامہ کرتی ہیں ، کہا جاتا ہے محمود غزنوی کے زمانے میں یہ بہرائچ کے علاقے کا راجہ تھا ، اور اس کو سید سالار مسعود غازی رحمۃ اللہ علیہ نے شکست دی تھی ،اس لیے سہیل دیو کے ماننے والے مسعود غازی رحمہ اللہ سے اور مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں ، مسعود غازی رح کا مزار بہرائچ میں مرجع خلائق ہے ، س پارٹی کا لیڈر راج بھر ظہور آباد بہرائچ سے دو ہزار سترہ سے ممبر اسمبلی ہے ، وہ دو سال تک دوہزار سترہ تا انیس ہوگی سرکار میں منتری رہا ہے ، وہ بی جے پی کے سہارے زیرو سے چار پر پہونچا ہے ، اور وہ بھی مسلمانوں کے سہارے مایاوتی کی طرح عروج حاصل کرنا چاہتا ہے ، اور وہ یہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں کی مدد سے وہ مزید دس بارہ نشستیں حاصل کرسکیں تاکہ آئندہ بڑی پارٹیوں سے مول تول کرنے میں آسانی ہو ،مجھے ڈر ہے کہ وہ بھی وقت آنے پر مایاوتی کی طرح بی جے پی سے سمجھوتہ کرلے گا ، یا بہار کے اوپیندر کشواہا کی طرح نتیش کمار کا دوست بن جائے گا ،بہار کے اسمبلی انتخابات میں مجلس جس اتحاد میں شامل تھی اس کے وزیر اعلیٰ اوپیندر کشواہا تھے ، ان کی پارٹی کو ایک سیٹ بھی نہیں ملی تو سات سال کے بعد اپنے پرانے دوست اور گرو نتیش جی کے چرنوں میں سر بسجود ہوگئے ، اویسی صاحب نے ان کے امیدواروں کے لیے بھی ریلیاں کی تھیں ،بہار میں ہر جگہ اویسی صاحب کی دھمک سے بہت سارے سیکولر ہندو بھی فرقہ پرست بن گئے ، اور بی جے پی کو کافی فائدہ پہونچا ، اگر اویسی صاحب صرف سیمانچل کی سیٹوں پر انتخاب لڑتے تو بھی وہ ان پانچ سیٹوں پر کامیاب ہوجاتے ،جن پر وہ کامیاب ہوئے ہیں ، مگر بی جے پی کی حکومت نہیں بنتی ، یوپی میں بھی وہ بہار والی غلطی دہرا رہے ہیں ، اور ڈر ہے کہ اس سے بی جے پی کو ہی فائدہ ہوگا ۔
میں نے بہار اسمبلی انتخابات سے قبل بھی مجلس اتحاد المسلمین کو مشورہ دیا تھا کہ وہ کسی بھی پارٹی سے اتحاد نہ کرے ، جس طرح وہ تلنگانہ میں کسی سے اتحاد نہیں کرتی اور ان چند سیٹوں پر انتخاب لڑتی ہے ، جہاں سے اس کے کا میاب ہونے کے امکانات ہیں ، ویسے ہی بہار میں صرف سیمانچل کے علاقے کی دس بارہ نشستوں پر انتخاب لڑے ، پقیہ پر مہا گٹھ بندھن کو سپورٹ کرے یا خاموش رہے ،اور مہاگٹھ کے خلاف کچھ نہ بولے ، اتر پردیش اسمبلی انتخابات کے تناظر میں مجلس کو میرے تین مشورے ہیں ۔
1-صرف ان دس بارہ نشستوں پر انتخاب لڑے جہاں اس کے پچیس تیس ہزار ووٹر ہیں ، اور گذشتہ اسمبلی انتخابات اور حالیہ پنچایت انتخابات سے اسے اندازہ ہوگیا ہوگا ۔
2- پیس پارٹی اور راشٹریہ علماء کونسل سے بات چیت کرے ، اور ان کے امیدواروں کے خلاف اپنا امیدوار نہ کھڑا کرے۔
3- راج بھر کی سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی جیسی چھوٹی پارٹیوں سے اتحاد نہ کرے ، ایس پی ، بی ایس پی ، اور کانگریس جیسی بڑی پارٹیوں سے اتحاد کرنے کی کوشش کرے ، اور وہ اتحاد کو تیار نہ ہوں تو بھی ان چند سیٹوں پر انتخاب لڑے جہاں اس کی پکڑ مضبوط ہو ،کیرل میں مسلم لیگ نے کبھی چھوٹی چھوٹی گم نام پارٹیوں سے اتحاد نہیں کیا ، کوشش کی کہ پرجا سوشلسٹ پارٹی یا کانگریس سے اتحاد ہوجائے ، اتحاد ہوگیا تو بہت اچھا ، نہیں ہوا تو بھی مسلم اکثریت والی سیٹوں پر اکیلے انتخاب لڑا ،اور ایک سو چالیس رکنی اسمبلی کے لیے کبھی بھی پجیس سے زائد نشستوں پر انتخاب نہیں لڑا ، جب کہ کیرل میں ستائیس فیصد مسلمان ہیں ، اور چودہ اضلاع میں سے سب سے بڑے ضلع ملپورم میں سواستر فیصد مسلمان ہیں ، ملپورم کی کل آبادی اکتالیس لاکھ تیرہ ہزار ہے اور اسمبلی کی کل نشستیں سولہ ہیں ، اور صرف اس ضلع سے مسلم لیگ کے گیارہ بارہ امیدوار کامیاب ہوجاتے ہیں ، مسلم لیگ کے بیس سے زیادہ امیدوار کبھی کامیاب نہیں ہوسکے ،یہاں عیسائی بھی انیس فیصد ہیں ، ہندو چون فیصد سے زیادہ نہیں ۔
یوپی کے حالات بہت حساس ہیں وہاں سیاست کرنے کے لیے زیادہ عقل و دانش کی ضرورت ہے ، یوپی میں ہمیشہ سے پچیس فیصد ووٹ فرقہ پرست رہا ہے ، اور جب یہ ووٹ چالیس سے آگے بڑھتا ہے تو بی جے پی کی حکومت ہوجاتی ہے ، وہاں مسلمان صرف بیس فیصد ہیں ، وہاں صرف ایک چھوٹے سے ضلع رامپور میں مسلمان ساڑھے پچاس فیصد ہیں ، تین چار اضلاع میں چالیس پینتالیس فیصد مسلمان ہیں ، وہاں جوش نہیں ہوش سے سیاست کرنے کی شدید ضرورت ہے ۔

Comments are closed.