تاریکی سے روشنی تک

تحریر: محمد برا حسین
جب اللہ رب العزت کسی انسان کو گمراہ کرنے کا فیصلہ کر لیں تو اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور جسے ہدایت دینے کا فیصلہ کرلیں اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا، لیکن یہ بات اٹل ہے کہ ہدایت کے فیصلے اللہ کی جانب سے انسان کی تڑپ دیکھ کر کیے جاتے ہیں۔ جو شخص اپنے نفس کا بندہ اور اپنی خواہشات کا غلام ہو اس کی زندگی کبھی ہدایت کا نور نہیں پا سکتی اور وہ عمر بھر تاریکی اور وحشت کا اسیر ہو کر رہ جاتا ہے، البتہ ہدایت کے نور کو وہی شخص حاصل کر پاتا ہے جس کے اندر گناہوں سے بچنے کی لگن اور تڑپ ہو اور یہی کچھ معاملہ ہندوستان کے شہر مراد آباد سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور شاعر جگر مراد آبادی کا بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جگر مرادآبادی شراب پینے کے اس قدر شوقین تھے کہ اکثر اوقات بعداز مشاعرہ لوگ ان کو اٹھا کر ان کے گھر تک لے جاتے تھے۔ بے شک میکشی تمام برائیوں کی جڑ ہے لیکن شراب نوشی کے باوجود جگر کی صلاحیتوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا تھا۔ شاعر فطرت کہلائے جانے والے جگر مراد آبادی غزل گوئی میں اس قدر مہارت رکھتے تھے کہ ان کے ساتھی شعراء انکے ساتھ مشاعرہ پڑھنا قابل فخر محسوس کرتے تھے اور جگر کو شاعری میں اپنا استاد مانتے تھے۔ سخت نشے کی حالت میں بھی جگر کی آواز اس قدر دم دار اور باوقار ہوتی تھی کہ سننے والے بے قابو ہوجاتے تھے اور یہ خواہش کرتے کہ جگر رات بھر کلام سناتے رہیں۔ گناہوں کے دلدل میں پھنسے ہوئے یہ عظیم شاعر دل ہی دل میں نادم اور افسردہ تھے اور روز ارادہ کرتے تھے کہ آئندہ شراب کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا لیکن جذبات پر قابو نہ رہ پاتا شراب کبھی لہرا کر پی جاتے تو کبھی بل کھا کر پی جاتے، روز خود سے عہد کرتے روز خود سے عہد شکنی کرتے۔ یہ حقیقت بات ہے کہ جب گناہوں سے بچنے کا ارادہ قوی ہو تو اللہ رب العزت کوئی نہ کوئی راہ نکال ہی دیتے ہیں۔ ہُوا کچھ یوں کہ انہی دنوں کہ جب جگر کی شراب نوشی کے ایام عروج پر تھے ”اجمیر” میں ایک نعتیہ مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔ اور دوران انتظمات منتظمین میں ایک عجیب بحث چل پڑی کہ جگر مراد آبادی کو نعتیہ مشاعرے میں بلوایا جائے یا نہیں کیونکہ جگر ایک بے دین اور شراب نوش آدمی ہے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کلمات کیسے ادا کرے گا لیکن بہت بحث و تکرار کے بعد یہ طے پایا کہ وہ مشاعرہ ہی کیا کہ جس میں رئیس المتغزلین جگر مراد آبادی شرکت نہ کریں وقت کے سب سے بڑے شاعر کی غیر موجودگی مشاعرے کو چارچاند نہیں لگا سکتی۔ مشاعرے کے کچھ منتظمین جگر کے پاس گئے اور نعت پڑھنے کی درخواست کی۔ لفظ نعت سن کر حضرتِ جگر ایک دم گھبرا گئے کہ شراب نوشی عروج پر گناہوں کی کثرت اور آقا علیہ السلام کی مدحت کہنے لگے کہ نہیں جناب میں یہ مشاعرہ نہیں پڑھ سکتا۔ منتظمین نے اصرار کیا لیکن جگر یہی جواب دیتے کہ میں ایک گنہگار شرابی انسان اور وہ سیدالانبیاء میں نہیں کر پاؤں گا منتظمین کے بارہا اصرار پر جگر شرکت کے لیے تیار تو ہو گئے لیکن اب ایک الگ اضطراب ان کے اندر جنم لے چکا تھا کیونکہ شراب نوشی کے بغیر رہ نہیں سکتے تھے اور نعت لکھنے جب بھی بیٹھتے تو وہ غزل بن جاتی بالآخر سوچنے لگے کہ جب تک شراب پیتا رہوں گا آقا علیہ السلام کے تعریفی کلمات نہیں لکھ پاؤں گا اور خود ہی خود پر نادم ہوتے رہے اور خود کو ملامت کرتے رہے کہ عمر اس قدر گناہوں میں گزری ہے کہ جب آقا کی مدحت بیان کرنے کا موقع آیا تو بیان ہی نہیں ہو پا رہی۔ شراب ترک کردی جس کیوجہ سے حلق میں کانٹے چبھتے محسوس ہونے لگے لیکن اب قبولیت کی گھڑی آچکی تھی اور اچانک نعت کا پہلا مصرع بن گیا ”ایک رند ہے اور مدحت سلطان مدینہ” اور پھر کرم نوازی ایسی ہوئی کہ دیکھتے دیکھتے پوری نعت وجود میں آگئی۔ ادھر شہر میں دوسری جانب لوگوں نے مخالفت شروع کر دی کہ ہم ایک شرابی اور رند سے نعت نہیں سنیں گے اور اس تحریر کے ساتھ شہر میں جگہ جگہ پوسٹر آویزاں کر دیے گئے۔ بہرحال مشاعرے کا دن آ ہی گیا شعراء اپنی اپنی باری میں نعت سناتے گئے اور جاتے گئے اور بالآخر جگر کا نمبر بھی آگیا اعلان کیا گیا کہ رئیس المتغزلین جگر مراد آبادی کو نعت رسول سنانے کے لئے دعوت دی جاتی ہے انکا نام سن کر لوگ غصہ ہو گئے اور شور مچانا شروع کر دیا کہ ہم ایک شرابی سے حضور کی شان میں کلمات نہیں سن سکتے، لیکن جناب جگر صاحب انتہائی اطمینان کے ساتھ تشریف لائے اور لوگوں کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ لوگ غصہ کس پر ہیں مجھ پر یا اس نعت پر جسے آپ کے سامنے پیش کرنے والا ہوں اور اچانک پہلا مصرع پڑھ دیا ”اک رند ہے اور مدحت سلطان مدینہ” مجمعے پر سکتہ طاری ہوگیا اور جگر روتے روتے نعت سناتے رہے اور نعت مکمل ہوگئی۔ بالآخر مشاعرہ تمام ہوا اس وقت ایک بہت بڑے بزرگ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نور اللہ مرقدہ کے ایک خلیفہ جو کہ بہت مایہ ناز شاعر بھی تھے جن کا نام خواجہ عزیز الرحمن مجذوب تھا ان کی جگر سے ملاقات ہوئی جگر جو کہ پہلے ہی اپنے گناہوں سے توبہ کی طلبگار تھے حضرت مجذوب صاحب سے دریافت کرنے لگے کہ آپ نے اپنی زندگی کس طرح بدلی حضرت مجذوب نے جواب دیا کہ ایک اللہ والے حضرت تھانوی کی صحبت نصیب ہوگئی۔ سو جگر نے بھی حضرت تھانوی صاحب کی خدمت میں جانے کا فیصلہ کیا اور حضرت کی خدمت میں پہنچ کر عرض کیا کہ میرے لئے چار دعائیں فرما دیں پہلی یہ کہ شراب نوشی چھوڑ دوں دوسری یہ کہ داڑھی رکھ لوں تیسری یہ کہ حج کرلوں چوتھی یہ کہ خاتمہ ایمان پر ہو جائے۔ حضرت تھانوی نے یہ دعائیں فرمائی جو کہ قبول ہوئیں اور جگر حج پر تشریف لے گئے اور داڑھی بھی رکھ لی اور شراب نوشی کو خیرآباد کہہ دیا، شراب نوشی چھوڑ دینے کی وجہ سے جگر کی طبیعت خراب رہنے لگی جگر مراد آبادی کو طبیبوں نے مشورہ دیا کہ اگر شراب نوشی اچانک چھوڑ دیں گے تو اس سے جان جانے کا بھی خطرہ ہے لیکن جگر نے یہی جواب دیا کہ اگر شراب نوشی چھوڑ دی تو مزید دس برس زندہ رہ لونگا اور ایک گناہ کبیرہ کے ساتھ دنیا سے چلے جانے کا اندیشہ ہے مجھے وہ موت جو حالتِ ایمان میں آئے زیادہ محبوب ہے۔ حضرت جگر نے توبہ کے بعد جو کلام لکھے وہ اس زندگی میں لکھے گئے کلام سے بہتر پرکیف اور با سرور تھے جب وہ شراب نوشی کیا کرتے تھے۔ بعد از تو بہ تھانوی صاحب نے اپنی خانقاہ میں ایک مرتبہ جگر سے کچھ سنانے کی فرمائش کی تو جگر نے انتہائی سوگوار انداز میں اپنا ایک کلام سنایا
نہیں جاتی کہاں تک فکرِ انسانی نہیں جاتی
مگر اپنی حقیقت آپ پہچانی نہیں جاتی۔۔۔۔۔

Comments are closed.