اخلاقی حمایت

از: محمد اللہ قیصر
انسانی زندگی روز بروز کمزور ہوتی جارہی ہے، صحت بگڑتی جا رہی ہے، اس کے اسباب پر غور کریں تو بہت سارے اسباب میں ایک یہ بھی ہے کہ انسان کی آپسی "اخلاقی حمایت” (مورل سپورٹ)ختم ہورہی ہے، پہلے باپ بھائی بہن اور دیگر رشتہ دار، ایک دوسرے کی حمایت و معاونت کیلئے ہمیشہ کھڑے ہوتے تھے، پریشانی کے وقت یہ احساس ہوتا تھا، کہ میرے پیچھے میرا بھائی یا فلاں رشتہ دار کھڑا ہے، اب اسے ہر لمحہ یہ احساس دلاتا ہے کہ وہ اکیلا ہے ، ماں باپ کے علاؤہ کسی سے یہ تصور نہیں کہ مشکلات کی گھڑی میں وہ اس کے کاندھے سے کاندھا ملاکر کھڑا ہوگا، نتیجۃً انسان ایک انجانے خوف میں جینے لگا ہے، مستقبل دھندلا نظر آتا ہے، اپنے مستقبل میں غور کرتا ہے تو، بے شمار خدشات منہ کھولے کھڑے رہتے ہیں، بچوں کے تئیں فکر مندی اندر سے گھائل کررہی ہوتی ہے، آج کا انسان سوچتا ہے کہ اگر اسے کچھ ہوگیا تو بچوں کا کیا ہوگا، بے شمار خدشات خوفناک اژدہے کی شکل میں ناچ رہے ہوتے ہیں، اور خوف سے انسان کی دفاعی قوت تہس نہس ہو تی رہتی ہے، چناں چہ لازما وہ کمزور پڑ جاتا ہے، کوئی دشواری سامنے آتی نہیں کہ اس پر قابو پانے سے پہلے وہ دہشت میں مبتلا ہوجاتا ہے، کہ آیا وہ قابو پاسکے گا یا نہیں ،اور اگر خدا نخواستہ وہ ناکام ہوگیا تو پھر اس کا اسکے اہل خانہ اور جن کی ذمہ داریاں اس کے کاندھے پر ہے ان کا کیا ہوگا، اس طرح اندر سے ٹوٹتا جاتا ہے، ڈرا ہوا انسان چھوٹی سے چھوٹی پریشانی میں اتنا کمزور ہوجاتا ہے کہ وہ مقابلہ سے پہلے ہی ہار کا اعتراف کر کے بیٹھ جاتا ہے۔
اسلامی تعلیمات جگہ جگہ اپنوں کو مورل سپورٹ دینے پر ابھارتے ہیں، کہیں تمام مؤمنین کو بھائی کہا جاتا ہے، کہیں اہل خانہ کیلئے بہترین انسان کو بہترین مومن، کہیں نیکی میں تعاون کی تلقین ہوتی ہے، تو کہیں ضرورت مند کے تعاون کا حکم دیا جارہا ہے، حدیث پاک میں تمام مؤمنین کو ایک جسم کی مانند کہا گیا، جس کا ایک عضو تکلیف میں ہوتا ہے تو تمام اعضاء اس درد کو محسوس کرتے ہیں، دوسری حدیث مبارکہ میں تمام مؤمنین کو ایک عمارت کی مانند قرار دیا گیا جس ہر حصہ دوسرے کے ساتھ جڑ کر اسے مضبوط رکھتا ہے، گرنے نہیں دیتا، یہ سب کیا ہیں، ایک دوسرے کو مورل سپورٹ دینے کی ہی بات تو ہے۔
اللہ کا انتظام ہی کچھ اس طرح کا ہے کہ سماج میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک کے پاس طاقت، دولت سب کچھ موجود، دوسرا کمزور، عاجز، لاچار، تو صاحب استطاعت کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود سے کمزور کی مدد کرے، اور اسے احساس دلائے کہ میں تمہاری مشکلات میں تمہارے ساتھ ہوں، اس سے انسان کو جو قوت ملتی ہے وہ کہیں اور سے نہیں مل سکتی، اکیلے پن کا احساس "سلو پوائزن” کی مانند کام کرتا ہے، انسان چلتا پھرتا ہنستا کھیلتا اور کارہائے زندگی میں مشغول نظر آتا ہے لیکن وہ رفتہ رفتہ ٹوٹ ٹوٹ کر بھکر رہا ہوتا ہے۔
اس لئے آپ کے پاس اگر کچھ بھی نہیں ہے پھر بھی اپنے بھائی بہن، رشتہ دار،پڑوسی، اور دوست، احباب کو اخلاقی حمایت کی پیش کش کیجئے، ان کو یقین دلائیے کہ ان شاءاللہ تمہاری دشواریوں میں قدم سے قدم ملا کر ساتھ کھڑا نظر آؤں گا، صرف جذبہ مت رکھئے بلکہ جو پریشان نظر آئے ان کے سامنے اظہار کیجئے، یقین کیجئے آپ کا کچھ نہیں جائے گا، لیکن ٹوٹتے ہوئے انسان کو آپ کے دوبول سے جو قوت ملے گی وہ کسی دوا اور کسی علاج سے ناممکن ہے۔

Comments are closed.