Baseerat Online News Portal

ہاں میں دانش صدیقی ہوں۔۔۔! نازش ہما قاسمی

جی ، معروف فوٹوجرنلسٹ، پلترز ایوارڈ یافتہ، محنتی، جفاکش، سرگرم، فعال، مضبوط، اپنے کام سے جنون کی حد تک عشق کرنے والا، چاق وچوبند، نڈر، بے باک، بے خوف، سختی جھیلنے والا، اعلیٰ تعلیم یافتہ، فخر صحافت، اپنے کیمروں سے لی ہوئی تصاویر کو تاریخ کے صفحات میں محفوظ کرانے والا، دانش صدیقی ہوں ، میری پیدائش ۱۹۸۰ میں مہاراشٹر کی راجدھانی ممبئی میں والد اختر صدیقی کے ہاں ہوئی ، میرے والد جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایک شعبے کے سابق ڈین ہیں، میری ابتدائی تعلیم دہلی کے کیمبرج اسکول میں ہوئی، اس کے بعد شہر آرزو جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد اپنی خواہش اور دیرینہ شوق صحافت سے منسلک ہوگیا۔اپنے کیرئر کی ابتدا ہندوستان ٹائمز کے نمائندے کی حیثیت سے کی پھر ٹی وی ٹوڈے نیٹ ورک سے منسلک رہا ۲۰۱۰ میں معروف برطانوی نیوز ایجنسی روئٹرز کے لیے بطور فوٹو جرنلسٹ کام لکرنے لگا اور ہندوستان میں روئٹرز کی پکچر ٹیم کا ہیڈ بن گیا۔ میری شادی جرمنی کی رہنے والی ایک نیک سیرت خاتون سے ہوئی جس سے میری دو اولاد ہیں، ایک چھ سال کا لڑکا اور تین سال کی لڑکی ہے۔
ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جس نے اپنے کیمرے سے دنیا کو سچ دکھایا، جہاں تک حکومت اور عوام کی نظریں نہیں پہنچیں، وہاں میں پہنچ کر دنیا کے سامنے سچ آشکار کیا۔ ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جس نے ۲۰۱۵ میں نیپال میں آئے بھیانک زلزلے کی تصاویر کھینچی اور تباہی وبربادی کے مناظر کے عکس اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر کے دنیا کو متوجہ کیا، ہاں میں وہی ہوں جس نے مشرق وسطی میں جاری بھیانک خانہ جنگی کی تصاویر کھینچی، جس نے ہانگ کانگ سورش کو کوور کیا تھا۔ ہاں میں نے ہی۲۰۱۶۔۱۷ روہنگیا مسلمانوں کے مظالم کی تصاویر دنیا کے سامنے پیش کی، ساحل سمندر ، حالات سے مجبور روہنگیائیوں کی تصاویر جو ملتجی نگاہوں سے دنیا سے سوال کررہی تھیں کہ میرا جرم کیا ہے، میں کیوں بے گھرہوں ان لاچارو بے بس کی تصاویر کھینچی اور روہنگیائی مسلمانوں پر ہورہے ظلم کی انتہا کو اپنے کیمرے میں قید کیا اور جدید دنیا کے سامنے پیش کیا کہ لو یہ تمہارا مکروہ چہرہ ہے جہاں تم انسانیت کی باتیں کرتے ہو؛ لیکن انسانیت سے عاری ہو۔ ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جسے روہنگیائی مسلمانوں پر ہورہے مظالم کی تصویر کشی کے لیے ۲۰۱۸ میں صحافت کے آسکر پلتزر ایوارڈ سے نوازاگیا تھا۔ ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جس نے سی اے اے تحریک کے محرک شاہین باغ والوں کی تصاویر کھینچی اور سی اے اے کے مستقبل میں پڑنے والے خطرناک اثرات دنیا کے سامنے پیش کیا ہا، ں میں وہی دانش صدیقی ہوں جس نے دہلی فسادات میں مارے جارہے مظلوموں کی داد رسی کی، اور ایسی جگہوں سے تصاویر کھینچی جسے بطور ثبوت پیش کیاگیا۔ آپ نے میرے کیمرے سے لی گئی وہ دو تصاویر ضرور دیکھی ہوں گی جس میں ایک انسان سفید کرتا پہنے امن کی دہائی دیتے ہوئے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے پکڑے دوزانوں ہوکر زمین پر اوندھا پڑا ہوا ہے اور بلوائیوں کا ہجوم لاٹھی ڈنڈوں سے جمہوریت کے خون کے چھینٹے اڑا اڑا کر اسے پیٹ پیٹ کر قتل کررہا ہے اور دوسری تصویر وہ جب جامعہ ملیہ میں ایک اندھ بھکت گولی چلارہا ہے اور پیچھے پولس والے حصار بنائے کھڑے ہیں ان کے علاوہ سینکڑوں ایسی تصاویر ہیں جنہیں میں نے کھینچی اور دنیا کے سامنے پیش کیاجسے اگر میں شاید نہ کلک کرتا تو شاید دنیا کو اس کا علم تک نہیں ہوپاتا ۔
ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جب ملک میں اچانک لاک ڈائون کا نفاذ کیاگیا تو مزدور طبقے پریشان ہو ا ُٹھے ، میلوں کا سفر اپنے شیر خوار بچوں کو کاندھوں پر لیے کررہے تھےان کی تصاویر کھینچی اور ملک کے عوام کو ہورہی پریشانیوں سے دنیا کو آگاہ کیا۔ ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جب کورونا کی دوسری لہر آئی، ہر طرف موت رقصاں تھی، شمشان میں لاشوں کوجلانے کےلیے مردوں کو مرنے کے بعد بھی انتظار کرنا پڑرہا تھا، ان کی تصاویر کھینچی، گنگا کنارے مدفون کورونا مہلوکین کی تصاویر کھینچی اور حکومت کو آئینہ دکھایا۔ ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جو اپنے کام میں مخلص اور اپنے جنون میں حد تک گزرجانے والا تھا، میں حال ہی میں افغانستان کی شورش کو کور کرنے گیا تھا وہاں طالبان اور افغانستان فورسیز کے مابین جھڑپوں کی تصویر کشی کررہا تھا ۱۵ جولائی کو قندھار کے اسپین بولدک میں حالات ناسازہوگئے اور میں ان جھڑپوں کی زد میں آگیا میرے سر میں گولی آلگی اور میں جاں بحق ہوگیا۔ میرے انتقال کی خبریں جیسی ہی عام ہوئی ایک کہرام برپا ہوگیا، ہر کوئی میرے تئیں ہمدرد تھا، میرے دشمن بھی میری تعریف کرنے کو مجبور تھے، یہاں تک کہ جن پر میرے قتل کا الزام عائد کیاگیا وہ بھی میرے قتل پر افسوس کا اظہار کررہے تھے۔دو دن بعد میری لاش طالبان نے ریڈ کراس کے حوالے کی اور جسد خاکی ایئر انڈیا کی فلائٹ سے ۱۸ جولائی ۲۰۲۱ کی شام دہلی پہنچا اور میری تدفین دیار شوق جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں سینکڑوں سوگواروں کی موجودگی میں عمل میں آئی۔ لوگوں نے میرے قتل ناگہاں کو صحافت کا عظیم نقصان قرار دیا، میرے چاہنے والے میرے کام کی ستائش کررہے ہیں اور خراج عقیدت پیش کررہے ہیں ، پوری دنیا میں میرے چاہنے والوں کی آنکھیں نمناک ہیں اور مجھے یاد کررہے ہیں اور ان شاء ا للہ رہتی دنیا تک جب جب میرے ذریعے کھینچی ہوئی تصاویر ان کے سامنے آئیں گی مجھے یاد رکھاجائے گا۔ اللہ میری مغفرت فرمائے اور میرےاہل خانہ سمیت مداحوں کو صبر سے نوازے، اور میری ہی طرح کوئی اور جرنلسٹ امت مرحوم کو نوازے جو حقائق کا علمبردار ہو اور سچائی دنیا کے سامنے پیش کرنا اپنا فریضہ سمجھے۔ آمین۔

Comments are closed.