حضرت مولاناقاری سیدمحمدعثمان منصورپوری رحمۃ اللہ علیہ ۔۔ایک باکمال شخصیت

مفتی شبیر احمد قاسمی
خادم جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد
حضرت اقدس مولانا قاری محمد عثمان صاحب نور اللہ مرقدہ ایک باکمال عبقری شخصیت کے حامل تھے، آپ بیک وقت دارالعلوم دیوبند کے اہم استاذ تھے، جمعیۃ علمائے ہند کے صدر تھے اور امیر الہند رابع تھے۔ احقر کا ان سے تقریبا چالیس سال سے تعلق رہا ہے اور چار دہائی کے درمیان لمبی مدت میں والہانہ شناسائی کے ساتھ حب فی اللہ کا تعلق رہا ہے، احقر کے دورہ حدیث شریف یا دارالافتاء کے سال غالبا ۳۰۴۱ ھ میں حضرت کا تقرر دارالعلوم دیوبند میں ہوا۔ احقر کو یاد پڑتا ہے کہ دارالعلوم دیوبند میں ان کے تقرر کا چرچا ہوا، پھر یہ بات بھی گشت کرنے لگی کہ ان کا سابقہ مدرسہ جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ کے ذمہ داروں نے ان کو جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ میں ایک سال تک روکنے کے لیے دارالعلوم دیوبند کے ذمہ داروں سے بات چیت فرمائی ہے، تاکہ سابقہ مدرسہ کو تعلیمی نقصان نہ ہو سکے پھر اس کے بعد حضرت والا دارالعلوم دیوبند تشریف لائے اور تدریسی سلسلہ شروع فرمادیا۔ اور مختصر المعانی، سلم العلوم وغیرہ وسطی کی کتابیں پہلے سال ان کے زیر درس رہیں، ان کا درس تحقیقی ہوا کرتا تھا، پھر اگلے سالوں میں بیضاوی شریف کا درس بھی ان سے متعلق ہو گیا مگر ان کی آواز پست ہونے کی وجہ سے مائک کا استعمال ہونے لگا، اور انہیں ایام میں دارالافتاء سے فراغت کے فورا بعد معین مدرس کی حیثیت سے دارالعلوم دیوبند میں احقر کا بھی تقرر ہوگیا اور دو سال تک دارالعلوم دیوبند میں تدریسی خدمات کے لئے احقر کو بھی موقع ملا، ھدایت النحو، قدوری، کافیہ، اصول الشاشی،شرح جامی، نورالایضاح، وغیرہ پڑھانے کی سعادت نصیب ہوئی، اس لیے قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی صفات کاملہ سے احقر بخوبی واقف رہا۔ان کی زندگی اتباع سنت اور ایک مومن کامل کی صفت کے ساتھ گزری ہے۔اور دارالعلوم دیوبندمیں تقرر کے چند سال کے بعد تحریک ختم نبوت کی ذمہ داری اور ناظم اعلی کا منصب ان کو حاصل ہوا۔ اور احقر جس زمانے میں دارالعلوم دیوبند میں تدریسی خدمات پر مامور رہا ہے اس زمانے میں فدائے ملت حضرت اقدس مولانا اسعد مدنی صاحب نور اللہ مرقدہ نے دو تحریکیں دارالعلوم دیوبند سے جاری فرمائیں۔
(۱)کل ہند رابطہ مدارس اسلامیہ کی تحریک: حضرت نے بڑے کروفر کے ساتھ جاری فرمائی، آگے چل کر جس کا فیض ہندوستان کے سارے مدارس کو حاصل ہوتا گیا، اور رابطہ مدارس اسلامیہ کا صدر دارالعلوم دیوبند کے مہتمم صاحب کو بنایا گیا، اور ناظم اعلی محب محترم ہمارے دوست مولانا شوکت علی بستوی کو بنایا گیا۔
(۲) تحریک ختم نبوت: اس تحریک کا صدر حضرت الاستاذ مفتی سعیداحمد صاحب پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ کو بنایا گیا، اور اس کا ناظم اعلی حضرت والا قاری صاحب نوراللہ مرقدہٗ کو بنایا گیا، اور حضرت قاری صاحب نوراللہ مرقدہٗ میں تحریک ختم نبوت کا جذبہ اس قدر زیادہ رہا ہے کہ ساری ذمہ داری ان ہی کے سر پر رہی، اور پھر آگے چل کر مولانا شاہ عالم گورکھپوری کواپنا معاون اور نائب ناظم کے طور پر منتخب کیا گیا انہوں نیبھی دلچسپی سے اس تحریک میں محنت کی ہے اور آگے چل کر ان کو اس تحریک کی پوری ذمہ داری سونپی گئی، اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ حضرت والا قاری صاحب نور اللہ مرقدہ کا حال ایسا رہا ہے کہ دسیوں سالوں تک ان کا کوئی بیان کوئی تقریر ایسی نہیں رہی ہے جس میں قادیانیت کے خلاف کچھ نہ کچھ گفتگو نہ ہوئی ہو، چنانچہ طلبہ کی انجمنوں میں النادی الادبی العربی کے سالانہ اجلاس میں جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی میں حضرت کو بلایا گیا موضوع عربی زبان سے متعلق تھا تو حضرت نے بجائے عربی زبان اور عربی ادب پر بحث کرنے کے قادیانیت کے موضوع پر ایک گھنٹہ تقریر فرمائی۔ لگ بھگ دیڑھ دہائی پہلے ہمارے تین بزرگوں میں الگ الگ تین چیزوں کی دھن سوار رہی ہے۔
(۱) حضرت اقدس محی السنّہ شاہ ابرارالحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے دل و دماغ پر ہروقت اذان و اقامت کی تصحیح کی دھن سوار رہی ہے، اور ان کا حال یہ تھا کہ ان کو کسی بڑے پروگرام میں بلایا جاتا تھا یا دور دراز علاقے میں کسی بڑے پروگرام میں ان کو بلایا جاتا تو ان کا موضوع اذان و اقامت کی تصحیح کے متعلق ہی ہوتا تھا، اس میں حضرت گھنٹوں گزار دیتے تھے، چنانچہ ان کے بیان شروع ہونے سے پہلے ہی لوگوں میں آپس میں چرچا ہوتا تھا کہ ابھی اذان واقامت کا موضوع شروع ہونے والا ہے۔
(۲) حضرت والا مولانا قاری محمد عثمان صاحب نوراللہ مرقدہٗ جب یہ کسی بھی پروگرام میں پہنچتے اور پروگرام کا موضوع کچھ بھی ہوتا ہو مگر حضرت والا کے بیان کا موضوع قادیانیت اور ختم نبوت ہی ہوا کرتا تھا یہاں تک کہ جمعیۃ علمائے ہند کے بعضے اجلاسوں میں بھی جو ملی تحریک سے متعلق ہے اس میں بھی حضرت کا موضوع قادیانیت سے متعلق ہوتا تھا، کئی پروگراموں میں ان کے بڑے صاحبزادے حضرت اقدس مفتی سلمان صاحبجمعیر پوری مدظلہ اور احقر کی شرکت بھی ہوتی رہی جب حضرت والا کا بیان شروع ہوتا تو ہم ایک دوسرے کی صورت دیکھتے کہ ابھی قادیانیت کے موضوع پر آنے والے ہیں چنانچہ چند منٹ کے بعد قادیانیت پر گفتگو شروع ہوتی تھی ہم لوگ آپس میں مسکراتے تھے۔ چنانچہ سن۱۲۴۱ ھ میں پشاور میں ڈیڑھ سو سالہ دارالعلوم دیوبند کانفرنس منعقد ہوئی جس میں جمعیت علماء ہند کے متعدد افراد اور دارالعلوم دیوبند کے لگ بھگ۰۲، ۱۲ اساتذہ کرام اور جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی سے احقر شبیر احمد قاسمی اور حضرت اقدس مفتی سلمان صاحب منصور پوری مدظلہ کی شرکت ہوئی اور اس وفد کے سرپرست فدائے ملت حضرت اقدس مولانا اسعد مدنی صاحب اور دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت اقدس مولانا مرغوب الرحمن صاحب نوراللہ مرقدہما تھے، اور ہر ایک سے بیانات کرائے گئے جب مشورہ کی مجلس ہوئی تو حضرت قاری صاحب کے ہم عصر اور ہم پلہ بعضے اساتذہ دارالعلوم نیقاری صاحب رحمتہ اللہ سے فرمایا کہ آپ کا موضوع تو پہلے سے ہی قادیانیت متعین ہے ہی اس پر قاری صاحب رحمتہ اللہ نے فوراجواب دیا سب سے اہم موضوع تو یہی موضوع ہے، چنانچہ حضرت کا بیان وہاں پر بھی قادیانیت کے خلاف اور ختم نبوت کے موضوع پرہی رہا ہے،چنانچہ اس دھن کی وجہ سے حضرت قاری صاحب رحمتہ اللہ کو بشارتیں ملی ہیں دارالعلوم دیوبند کے ناظم تنظیم مولانا راشد صاحب نے اپنا خواب بیان کیا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دو تاج آئے ہیں
(۱)حضرت شاہ عطائاللہ شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ کے لیے۔
(۲)حضرت قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے لئے۔
ان دونوں حضرات نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ قادیانیت کے خلاف اور تحریک ختم نبوت سے متعلق گزارا ہے۔
(۳) حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری رحمتہ اللہ علیہ ان کے اوپر لفظ ضاد کی تصحیح کی دھن سوار تھی، چنانچہ اگر حدیث کی عبارت پڑھنے میں بھی طالب علم کی زبان سے لفظ ضاد کی ادائیگی میں کمزوری محسوس کرتے تو ناراض ہو جاتے تھے اور ناراضگی کا حال یہاں تک تھا کہ بعض دفعہ سبق چھوڑ کر چلے جاتے تھے،لیکن حضرت جب قرآن پڑھتے تھے اور اس میں ضاد آتا تھا تو ہماری قوت سماعت کی کمزوری کی وجہ سیہمیں ایسا لگتا تھا کہ حضرت کی زبان سے بھی ادائیگی مکمل نہیں ہو پا رہی ہے، مگر حضرت طلباء سے ناراض ہو کر چلے جاتے تھے کیونکہ ان کو ضاد کی تصحیح کی دھن سوار تھی۔ حضرت قاری صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی بزرگانہ صفات۔ہم نے چار دہائی کے درمیان حضرت والا کو ہم عصر اور ہم پلہ دوستوں کی مجلسوں میں ہنسی مذاق کرتے ہوئے بھی نہیں دیکھا ہے۔ ان کی زندگی عین سنت کے مطابق تھی؛ کبھی بھی جذباتی ہوکر مغلوب الغضب ہوتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ قاری صاحب رحمتہ اللہ علیہ ایک مدبر اور جوہری شخصیت کے حامل ہونے کی وجہ سے حضرت اقدس مولانا مرغوب الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے دور اہتمام میں لگ بھگ دس سال تک نائب مہتمم کے منصب کی ذمہداری بحسن خوبی ادا کی، اور آپ نے اپنے نیابت کے زمانے میں دارالعلوم کے نظم و نسق کو عمدہ ترین ترتیب سے نبھایا ہے۔ آپ جمعیت علمائے ہند کی ورکنگ کمیٹی کے خصوصی ممبر تھے، پھر سن 2008 میں آپ کو جمعیت علمائے ہند کا باقاعدہ صدر منتخب کیا گیا۔ پھر ۲۳۴۱ ھ میں حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب رحمۃاللہ علیہ مہتمم دارالعلوم دیوبند امیر الہند ثالث کی وفات پر ان کی جگہ آپ کو امیر الہند رابع بنایا گیا، اور آپ تا دم حیات جمعیت علماء ہند کی صدارت کے منصب اور امیر الہند کے منصب پر بھی تسلسل کے ساتھ فائز رہے، پھر آپ کو ۱۴۴۱ ھ میں دارالعلوم دیوبند کا معاون مہتمم بنایا گیا، اور جس دن ان کو اس منصب کا ذمہ دار بنایا گیا ہے اس کے دوسرے دن سے ہی پابندی کے ساتھ اہتمام میں حاضر ہو کر اپنی ذمہ داری ادا کرنا شروع کیا ہے اور اہتمام میں تشریف فرما ہونے والے ذمہ داروں میں سب سے پہلے آپ ہی کی حاضری ہوتی رہی، اور پابندی کے ساتھ اپنی مفوضہ ذمہ داری ادا کرتے رہے۔ دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ میں اس قدر پابندِ سنت احقر نے کسی کو نہیں دیکھا ہے۔ اسی وجہ سے ہر استاذ حضرت والا کو بہت ہی احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ احقر نے چھوٹے بڑے علمائاور بزرگوں اور مشائخ کے حلقے میں زندگی کا بڑا حصہ گزارا مگر حضرت اقدس شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا صاحب نوراللہ مرقدہٗ، اور عارف باللہ حضرت اقدس مولانا قاری صدیق احمدصاحب باندوی نوراللہ مرقدہٗ، حضرت محی السنّہ شاہ ابرارالحق صاحب نوراللہ مرقدہٗ، کے بعد سارے علماء میں احقر کو حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب نوراللہ مرقدہٗ سے زیادہ عقیدت اور والہانہ دلی تعلق رہا ہے۔جب ۸ شوال المکرم ۲۴۴۱ھ میں آپ کی وفات ہوئی تو اس وقت احقر مشہور ترین سخت بیماری کووڈ ۹۱ میں مبتلا تھا اس لیے احقر نہ جنازے میں شرکت کر پایا اور نہ ہی تعزیت کے لیے صاحبزادگان کے پاس دیوبند حاضر ہو سکا، اور نہ ہی ان سے متعلق کچھ تعزیتی کلمات لکھنے کا موقع ملا۔
اب طبیعت بحال ہونے پر احقر نے یہ چند کلمات بطور تعزیتی خط کے لکھ دیے ہیں، اللہ تعالی حضرت قاری صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی بال بال مغفرت فرمائے،، اوران کو درجات عالیہ نصیب فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، خاص طور پر دونوں باکمال صاحبزادگان اور صاحبزادی سلمہا اور حضرت شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کی چہیتی صاحبزادی جو حضرت کی اہلیہ محترمہ ہیں۔احقر ان سب کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہے۔
احقر سب ناظرین سے دعا کی گزارش کرتا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو خاتمہ بالخیر نصیب فرمائے۔
والسلام ۔
Comments are closed.