محبت فاتح عالم – – – – -!!

محمد صابر حسین ندوی
علامہ اقبال نے محبت فاتح عالم کہا ہے، اور اسے جہاد زندگانی میں مردوں کی شمشیر سے تعبیر کیا ہے، یہ انسانی زندگی ہے کہ اسے دو تلواریں استعمال کرنے کا موقع دیتی ہے، آپسی اختلافات، انتشار اور شدت کو دور کرنے کیلئے دو اہم ہتھیار فراہم کئے گئے ہیں، ایک ہے تلوار جو طاقت و قوت اور سطوت سے تعبیر ہے، جہاں تک ہو سکے انسان قوت بازو کا استعمال کرے، ذہنی فتور، سیاست، چالبازیاں کرے، اپنی ہنر مندی، صلاحیت کے ذریعے سبھوں کو زیر کر لے، مخالف کو کچل کر رکھ دے، جو سر اٹھائے اسے قلم کردے، جو زبان دراز کرے اسے کاٹ دے، ایسا ہوا بھی ہے، قدیم زمانوں میں سیزر، سکندر اور دارا جیسے نہ جانے کتنے طاقتور پیدا ہوئے جنہوں نے سب کچھ تہہ و بالا کر دیا، تلوار، فوج اور جوش میں صفیں کی صفیں الٹتے چلے گئے، لوگ ہٹلر، مسولینی، لینن کو بھی نہیں بھولتے؛ وہ بھی تاریخ کے صفحات پر تلوار بازوں میں شامل ہیں، مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان سب سے کیا ملا؟ یہی کہ وہ کچھ مدت تک زبر ہو کر رہے، عوام ان کی ماتحتی میں کچلتی رہی، زور دستی میں پِستی رہی اور حقوق سے محروم ہو کر بد دعائیں کرتی رہی، پھر وہ وقت آیا کہ انجانا انقلاب، شورش یا سرکشی کا بگولہ اٹھا اور ان کے سر دھڑ سے الگ کر گئے، وہ ذلیل و خوار ہو کر مرے، بستر مرگ پر سسک کر اور اپنے قرب و جوار کو کھو کر موت کو گلے لگایا، پھر یہ بھی ہوا کہ انہیں جس کسی نے یاد کیا اس نے صرف تلخی اور ترشی کے ساتھ ہی یاد کیا، صفحات پر صفحات لکھے گئے؛ لیکن کہیں بھی ان کی روح پر رحمت کا ایک قطرہ برس جانے کی دعا نہ کی بلکہ جہنم کی آگ دہکنے اور انہیں کروٹ کروٹ بلکنے کی خواہش کی ہے، اس کے برعکس آپ دوسرے ہتھیار محبت پر غور کیجیے! یہ فاتح عالم کیسے ہے؟ یہ اس طرح ہے کہ دنیا کا ہر انسان اس کڑی سے جڑ جاتا ہے، وہ جہاں بھی ہو، جیسا بھی ہو وہ محبت کا رَس پاتے ہی پگھل جائے گا، اس کیلئے کسی بھی زبان کی ضرورت نہیں، نہ کسی خاص حیثیت اور بلندی کی حاجت ہے، بلکہ دل کے خلوص، محبت کا کردار، حسن سلوک اور ہمدردی و رواداری ہی سب کچھ ہے، یقیناً اس میں تاخیر ہوسکتی ہے؛ بلکہ تاخیر ہی رہتی ہے، رفتہ رفتہ ہی پہاڑ ریزہ ریزہ ہوتا ہے، سمندر ندی میں بدلتا ہے اور کڑواہٹ مٹھاس میں تبدیل ہوتی ہے؛ لیکن اس سے کوئی انکار نہ گا کہ اس کی تاثیر دیرپا اور ابدی رہتی ہے، سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی سب سے بڑی مثال ہے، آپ نے تلوار بھی اٹھائی اور محبت بھی جتائی؛ مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ دونوں پہلوؤں میں محبت کی حرارت ہی اصل تھی، یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ہر منصف شخص آپ کو یاد کرتا ہے، اہل ایمان کیلئے تو آپ سر کا تاج ہیں؛ لیکن دشمنان اسلام بھی آپ کی محبتوں پر نچھاور رہتے ہیں اور کہتے کہ محمد پر صرف مسلمانوں کا اجارہ تو نہیں!
دراصل یہ محبت پتھر کو پگھلا دے، لوہے کو نرم کردے اور سخت ترین دل کو موم بنادے، اگر آپ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے علاوہ بھی بعض نام نہاد سیکولر اور مفکرین کی زندگی دیکھیں گے جنہیں آج اچھے کاموں کیلئے یاد کیا جاتا ہے تو اس میں یہی عنصر کارفرما ہے، بہت سے مجددین قوم اسی راہ رو کے شیدا تھے، راقم کا خیال ہے کہ اس سلسلہ میں نیلسن منڈلا بڑی مثال ہیں، ہمارے زمانے میں اگر ان کی زندگی کو بطور نمونہ پیش کیا جائے اور مطالعہ کیا جائے تو بھی اندازہ ہوسکتا ہے کہ ایک راندہ زمانہ شخص کیسے محبت کے گُل بانٹتا ہوا صدارت کے عہدے تک پہنچتا ہے اور زمانے پر چھا جاتا ہے، ایک نمونہ اور آئیڈیل بن کر نقش کالحجر ہوجاتا ہے، اس محبت فاتح عالم کے عنوان پر مرحوم مولانا وحیدالدین خان کی عمدہ تحریر بھی بہترین روشنی ڈالتی ہے، اسے پڑھیے اور اندازہ کیجئے کہ محبت فاتح عالم کیسے ہے؟ آپ رقمطراز ہیں: "محبت ایک طاقت ہے- وه کسی ہتهیار کے بغیر لوگوں کو فتح کر لیتی ہے- ہتهیاروں کا وار انسان کے جسم پر هوتا ہے اور محبت کا وار انسان کے دل پر- اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وه ہتهیار زیاده طاقتور ہے جو دل کو جیت لے- جسم کو ہرانے والا ہتهیار مقابلتہ بے حد کمزور ہے اور اسی کے ساتھ نہایت وقتی بهی- محبت کا یہ اصول زندگی کے تمام معاملات سے تعلق رکهتا ہے- آپ گهر میں هوں یا پڑوس میں- آپ سفر میں هوں یا حضر میں- ہر موقع پر ایسے معاملات پیش آتے ہیں جب کہ آپ کو دوسرے سے کوئی اختلاف یا شکایت هو جائے- ایسے موقع پر اگر آپ رد عمل کا طریقہ اختیار کریں تو یقینی طور پر دونوں فریقوں کے درمیان نفرت اور ضد بڑهے گی- اور نفرت اور ضد معاملہ کو صرف بڑهاتی ہے، وه کسی بهی درجہ میں معاملہ کو گهٹانے والی یا اس کو حل کرنے والی نہیں- اس کے بجائے اگر ایسا هو کہ جب کسی بهی شکایت یا اختلاف کی صورت پیش آئے تو آپ رد عمل کی نفسیات کا شکار نہ هوں- آپ فریق ثانی کے رویہ سے اوپر اٹهہ کر اس کے ساتھ نرمی اور محبت کا معاملہ کریں- اگر آپ ایسا کریں تو آپ دیکهیں گے کہ معاملہ جہاں پیدا هوا تها وہیں وه ختم هو گیا- جو اختلاف بظاہر دوری کا سبب بننے والا تها وه قربت بڑهانے کا ذریعہ بن گیا- کوئی شخص آپ سے کڑوا بول بولے تو آپ اس کا جواب میٹهے بول سے دیجئے- کوئی شخص آپ کو اپنے لیے مسئلہ سمجهے تو آپ یک طرفہ طور پر اپنے آپ کو بے مسئلہ بنا لیجئے- کوئی شخص آپ کے ساتھ بد معاملگی کرے تو آپ اس کے ساتھ اچهے برتاو کا ثبوت دیجئے- کوئی شخص آپ کو بدنام کرے تو آپ اس کا تزکره اچهے الفاظ کے ساتھ کیجئے- کوئی شخص آپ پر غصہ هو جائے تو آپ اس کے لئے برف کی طرح ٹهنڈے پڑ جایئے- کوئی شخص آپ کے ساتھ بد خواہی کرے تو آپ اس کے حق میں خیر خواه بن جایئے- یہی محبت کا طریقہ ہے، اور محبت بلاشبہہ فاتح عالم ہے- ” (الرسالہ، اکتوبر 2000)
7987972043
Comments are closed.