عصبیت

سجاداحمدسہارن
عصبیت کے معنی بےجاطرف داری کرنا، گروہ بندی کرنا، تعصب سے کام لینا، سچ ظاہر ہونے کے باوجود نہ ماننا اسے عصبیت کہتے ہیں۔ مزید براں تعصب کی ایک وجہ دوسروں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنا اسے بھی تعصب کا ہی نام دیں گے۔ پیار کا عنصر انسانوں اور جانوروں میں عملی طور پر موجود ہوتا ہے۔ اگر اس میں بے اعتدالی اور بگاڑ پیدا ہو جائے تو اسے بھی تعصب کا ہی نام دیتے ہیں۔ دوسری جانب اگر کوئی شخص کسی پارٹی، قبیلہ یا عقیدے سے منسلک کسی بھی عقائد کی بلا تردید بات مانے تو اسے عصبیت کہیں گے۔ آج کل عصبیت یا تعصب ناسور کی طرح ہمارے معاشرے میں جڑیں گاڑ چکا ہے۔ تعصب کی بہت سی اقسام ہمارے معاشرے میں داخل ہو چکی ہیں۔ اسی تعصب کی وجہ سے ہمارا معاشرہ لسانی تعصب، سیاسی تعصب، عقائد کا تعصب، رنگ و نسل کا تعصب، اور گورے اور کالے کے تعصب میں مبتلا نظر آتا ہے۔ ہمارا معاشرہ لسانی تعصب کا شکار ہے۔ اگر ایک علاقے میں رہنے والے اپنی علاقائی زبان پر ناز کرتے ہیں تو وہ دوسرے علاقے کی زبان بولنے والوں سے تعصب کرتے ہیں۔ وہ اس بات پر گھمنڈ کرتے ہیں کہ ہماری زبان دوسرے علاقے کی زبان سے فوقیت رکھتی ہے۔ یہ لسانی تعصب ہے۔ دوسری قسم سیاسی تعصب بھی ہے۔ ہر پارٹی دوسری پارٹی کے عیوب اور نقائص نکالنے میں سرگرم نظر آتی ہے۔ ان کے ذہنوں میں یہی بات ہوتی ہے کہ ہماری پارٹی دوسری پارٹی سے بہتر ہے اسےبھی ہم تعصب ہی کہیں گے۔ ہمارے معاشرے میں مسلکی تعصب بھی نمایاں طور پر پایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ایک دوسرے کے دلوں میں نفرت بڑھتی جا رہی ہے۔ مسلکی تعصب نے سب کو ایک دوسرے سے بیگانہ کر دیا ہے تاکہ ہم اسی طرح مسلکی تعصب میں مبتلا رہیں اور کبھی بھی ایک نہ ہو سکیں۔ اسی معاشرے میں مختلف قبائل بھی تعصب میں مبتلا ہیں انکے بقول ہمارا قبیلہ دوسرے قبیلے سے فوقیت رکھتا ہے اور دوسرا قبیلہ ادنیٰ حثیت کا حامل ہے۔ اسی تعصب کی وجہ سے وہ انکے سکھ دکھ میں شریک نہیں ہوتے اور ان سے میل ملاپ بھی ترک کر دیتے ہیں۔ تعصب کی ایک شکل حسب نسب بھی ہے یعنی میں اعلیٰ حسب نسب کا مالک ہوں اور دوسرا شخص حسب نسب میں مجھ سے کمتر ہے۔ گورے رنگ والا کالی رنگت والے سے بھی تعصب رکھتا ہے۔ اس کے بقول میں گورے رنگ والا ہوں اور وہ کالی رنگت والا ہے۔ اس سوچ سے بھی عصبیت نمایاں ہوتی ہے اور اس سے بھی معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ عصبیت کی ہی وجہ سے ہم گروہی، لسانی، مذہبی اور سیاسی تنازعات میں پڑ چکے ہیں۔ تعصب سے بچنا تقریباً ناممکن نظر آتا ہے مگر عقل وفہم اور دانشمندی سے تعصب یا عصبیت سے بچا جا سکتا ہے۔ حجتہ الوداع کے موقع پر ہماری نبی حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح طور پر ساری دنیا کے سامنے انسانی چارٹر پیش کر دیا کہ کسی گورے کو کالے پر، عربی کو عجمی پر، کوئی فوقیت حاصل نہیں سوائے تقوی کے۔ اگر کوئی شخص اچھے اوصاف کا مالک ہے اور انسانیت کا درد دل میں رکھتا ہے تو وہی انسانیت کے معیار پر پورا اترتا ہے۔ والدین اور اساتذہ کی بھی زمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے بھی روشناس کروائیں۔ اور اپنے بچوں کو بتائیں کہ کوئی کسی سے کم نہیں ہر آدمی قابلِ قدر اور قابلِ عزت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اچھے اوصاف اختیار کریں ایک دوسرے کی عزت کریں کسی کو کمتر نہ سمجھیں تو امید ہے کہ اس معاشرے سے عصبیت ختم ہو جائے اور ہم ایک پر امن اور پرسکون معاشرے میں سانس لے سکیں۔
تحریر۔ سجاد احمد سہارن۔ لاہور (پاکستان)
Comments are closed.