ظلم کی پہلی درس گاہ

از: محمد اللہ قیصر
دنیا کی اکثر خواتین اپنے بچوں کو سائشتگی و سنجید گی ، حلم و بردباری، اور بقائے باہم کا درس دیتی ہیں، کوئی خاتون نہیں چاہتی کہ اس کا بچہ لڑائی جھگڑے اور ظلم و تعدی کا عادی بنے، ماں پہلے دن سے کوشش کرتی ہے کہ اپنے بچوں کو دوسروں کے ادب و احترام کا سبق دے، ان کے ساتھ خیرخواہی کےبجذبہ سے آراستہ کرے، وہ ہمیشہ یہ دعا کرتی ہے کہ اللہ میرے بچے کو اخلاق حسنہ کی دولت سے سرفراز فرما، کہیں لڑتا جھگڑتا دیکھتی ہے تو ایک مشفقہ ماں اپنے بچے کی تنبیہ سے بھی باز نہیں آتی ، جس بچے کے پاؤں میں ایک کانٹا گوارا نہیں، اسس کو ڈانٹ پھٹکار کے ساتھ کبھی کبھی مارنے سے بھی گریز نہیں کرتی، عقل مند ماں بچوں کی لڑائی میں کبھی اپنے ان کی پشت پناہی نہیں کرتی کہ مبادا اسے یہ احساس نہ ہو جائے کہ لڑائی غلط بات پر کروں یا صحیح پر ماں میری پشت پر ہے، کون ماں ہے جو اپنے بچے کو اعلی مقام پر نہیں دیکھنا چاہتی، لیکن اس کی خواہش ہوتی ہے کہ بچہ پڑھ لکھ کر، تہذیب و ثقافت ،اور اخلاق حسنہ کو اپنا زیور بناکر دنیا میں بلند ترین مقام حاصل کرے، جب وہ کہیں سے گذرے تو لوگ اس کی شرافت پر رشک کریں، وہ معاملہ کرے تو اس کے کریمانہ برتاؤ اور شریفانہ سلوک پر تحسین کے نعرے بلند ہوں، وہ کسی محفل میں ہو تو لوگ شہادت دیں کہ وہ نبوی اخلاق سے آراستہ ہے، کوئی ماں نہیں چاہتی کہ بچہ بڑا ہوکر اپنی بدبختانہ حرکتوں سے شہرت پائے، ظلم و تعدی اور شریفوں پر زیادتی کی لعنت اس کے گلے کا تعویذ بنے، کسی ماں کی خواہش نہیں ہوتی کہ چھوٹوں پر زیادتی اور بڑوں کے ساتھ بدسلوکی اس کے بچے کا شعار ہو۔
لیکن کچھ مائیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو پتہ نہیں کیوں اپنے بچوں کو لڑنے بھڑنے، سب و شتم اور ظلم و تعدی کے علاؤہ کچھ نہیں سکھاتی، بد کرداری و بد اعمالی کی سبق دیتی ہیں، وہ کھڑی ہو کر پاس پڑوس کے لوگوں کو گالیاں دلوائےی ہیں، زیادتی پر داد دیتی ہیں، لڑنے بھڑنے پر اکساتی ہیں، خود بچوں کے سامنے لڑتی ہے، جھگڑتی ہے، اور بچہ انہیں صفات سیئہ کو اپنے لوح پر نقش کرتا چلانا یے۔
ہم نے دونوں قسم کی ماؤں کو قریب سے دیکھا ہے، ماں اگر درست تربیت کا ارادہ کرلیتی ہے تو شیطانی صفات میں ممتاز گھرانوں کے بچے فرشتہ صفت بن جاتے ہیں، اور ان کی شرافت دوسروں کیلئے قابل رشک بن جاتی ہے، لیکن ماں اگر خود غرور و تکبر اور انانیت پسندی کی دیوی ہو تو بچہ ابلیس کو مات دینے والا شیطان صفت انسان بن جاتا یے، ظلم اس کی خوراک ہوتی ہے، کہ اگر کسی کو گالی نہ دے، کسی پر ظلم نہ کرے، کسی کو نہ ستائے، کسی کے ساتھ بد سلوکی نہ کرے، کسی کا حق نہ دبائے، حرام خوری نہ کرے، تو جیسے اس نے دنیا میں کچھ حاصل کیا ہی نہیں، دوسروں کے ساتھ بدتمیزی اور بدسلوکی ان کا نشان امتیاز ہوتی ہیں، وہ اپنی بلندی تبھی محسوس کرتا ہے جب دوسرا زمین پر گر جائے، بلندی پر چڑھنے کیلئے اچھے اعمال کو زینہ نہیں بناتا، فقط دوسروں کو زیر کرنے پر اس کی نگاہ ہوتی ہے، سماج کیلئے ایک لعنت ہوتا ہے، تعلیم و تربیت سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا، تہذیب اسے چھوکر نہیں گذرتی، تمدن سے اس کی دشمنی ہوتی ہے، وہ دوسروں کو بڑھتا دیکھتا ہے تو حقدو حسد اس کے وجود کو خاکستر کر دیتے ہیں، ایسی تربیت پر ہزار لعنت ہو۔
کاش میری بات ان ماؤں تک پہونچتی جنہوں نے اپنے بچوں کی بری تربیت کرکے اپنی عاقبت خراب کی ہے، وہ جان لیں کہ ان کی گود میں بچے، اللہ کی امانت ہیں، اللہ نے انہیں بچے کی پرورش کا ذمہ دار بنایا ہے، تو ان پر لازم ہے کہ بچے کی ایسی پرورش کریں جو اس کا خالق چاہتا ہے، جو اس کے مالک کا حکم یے، جو اس کے رازق کی مرضی ہے، بچوں میں خدا کے وجود کا یقین پیدا کرنے کے ساتھ اس ایمان کو راسخ کریں کہ اعمال حسنہ ہر خدا انعام سے نوازتا ہے تو غلط کاری پر اس کا قہر بھی نازل ہوتا ہے، خدا کی قہاری و جبروت ہر ایسا ہی پختہ ایمان ہو جیسا اس کی غفاری پر ہے، اس کی گھٹی میں پیوست کردیں کہ امن و امان، اخوت و بھائی چارہ، محبت و شفقت، اور باہمی احترام
بچوں کو ظلم و زیادتی کا سبق دینے والی یاد رکھیں اس شیطانی عمل کا وبال صرف بچہ پر نہیں، والدین کو بھی جھیلنا ہوگا۔
Comments are closed.