اگر ارتداد کی لہر روکی نہ گئی تو۔۔۔۔!

 

نازش ہما قاسمی

ملک میں جب سے بھگوا طاقتوں کو اقتدار کی باگ ڈور ملی ہے تب سے ہی گھر واپسی، لو جہاد، ہندوستان کے مسلم دراصل ہندو ہیں سبھی کا ڈی این اے ایک ہے وغیرہ کے شوشے چھوڑ کر خاص کمیونٹی کو نشانہ بنایا جارہا ہے، ایک طرف پوری پلاننگ کے ساتھ خاندان کے خاندان کو ہندو بنانے کا عمل جاری ہے تو وہیں دوسری جانب مسلم لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسا کر ان کو اسلام سے پھیرنے کا سلسلہ زور پکڑنے لگا ہے۔ مسلم نوجوانوں کو لو جہاد کی آڑ میں پکڑا جارہا ہے اور مسلم اعلی تعلیم یافتہ اور معروف شخصیتوں کو ہندو لڑکیوں کی محبت میں پھنساکر ان کا دین دھرم خراب کیا جارہا ہے۔ ہندوستان میں ایسا پہلے سے ہی ہوتا آرہا تھا؛ لیکن ۲۰۱۴ کے بعد اس میں شدت آگئی ہے۔ بھگوائیوں کے لوٹرپ کا نشانہ بننے والی مسلم لڑکیوں کی زندگی ہی اگر عبرت کے لیے پیش کی جائے تو یہ کافی ہے؛ لیکن عشق و محبت کے جال میں پھنسی، بنیادی دینی تعلیم سے دور دوشیزاؤں کو یہ سمجھ میں نہیں آتا؛ لیکن جب خود پر بیتتی ہے تو جب تک وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ حال میں ارتداد کے واقعات اتنی تیزی اور شدت سے بڑھتے جارہے ہیں کہ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو مسلمانوں کو مستقبل میں انتہائی تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑے گا۔ بھگوائی ہر محاذ پر سرگرم ہیں؛ لیکن ہم مسلمان صرف ایک دوسرے کو کافر ایک دوسرے پر طعنہ زنی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسرے کو نااہل ثابت کرنے میں لگے ہیں۔ بھگوائیوں کا حوصلہ اتنا بڑھا ہوا ہے کہ وہ ٹرینوں سے مسلم دوشیزاوں کو اغوا کررہے ہیں، ان کے ساتھ آگے کیا ہوتا ہوگا یہ سوچ کر ذہن کانپ جاتا ہے۔ بھگوائی مرد ہی نہیں عورتیں بھی میدان میں نکلی ہوئی ہیں اور مسلم خواتین کو اپنی دوستی کے سہارے ان کی عصمت و عفت تار تار کرکے انہیں بے دست و پاکررہی ہیں۔ گزشتہ روز ایک واقعہ ہوا کہ ایک خاتون نے اپنی مسلم سہیلی کو اپنے گھر مدعو کرکے مشروب پینے کو دیا، جس میں نشہ آور چیز تھی، وہ مشروب پیتے ہی بے ہوش ہوگئی، اس کے بعد اس خاتون نے مسلم خاتون کی اپنے بیٹے اور اس کے دوستوں سے عصمت دری کروائی۔ اللہ کی پناہ۔۔۔۔ان سب واقعات سے دل رنجور ہے، دل دہل جاتا ہے، آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں کچھ ایسے بھی واقعات گردش کررہے ہیں کہ “غیر مسلم لڑکے بے غیرت مسلم دلالوں کو پیسے دے کر غریب مسلم لڑکیوں سے ان کے اہل خانہ کو دھوکہ میں رکھ کر شادی کر رہے ہیں”۔ بلکہ ایسی بھی خبریں ہیں کہ ان بھگوائیوں کو مسلم لڑکیوں سے شادی کرنے پر لاکھوں کا انعام دیاجاتا ہے اور ان کے رہن سہن کا تنظیمیں خرچ بھی برداشت کرتی ہیں۔

ایک طرف تو وہ مکمل تیاری میں ہیں اور دوسری طرف ہم بے غیرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خواب غفلت میں مدہوش ہیں۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کی اکثریت یہ سوچ کر ان واقعات کو بھلاکر آگے نکل جاتی ہے کہ ہماری بچیاں ایسا نہیں کرسکتی ہیں، ہماری بچیاں بھاگ کر شادی نہیں کرسکتیں، ہماری بچیاں ہندو لڑکوں کی محبت میں گرفتار نہیں ہوسکتیں۔ اتنا بتادوں کہ جو لڑکیاں گرفتار ہوئی ہیں ان کے والدین بھی کبھی ایسا ہی سوچتے رہے ہوں گے؛ لیکن آج ان جو پر بیت رہی ہے اسے ہم نظر انداز کررہے ہیں اور سبق نہیں لے رہے۔ میں اس سے پہلے بھی کئی مضامین اس سلسلے میں لکھ چکا ہوں جب تکلیف کا احساس اور حالیہ واقعات پر نظر پڑتی ہے تو پھر لکھنے کو مجبور ہوجاتا ہوں کہ شاید کسی لڑکی کے والدین کو سمجھ میں آجائے، کسی مسلم دوشیزہ کی سمجھ میں آجائے کہ وہ کیا کررہی ہے اور کہاں جارہی ہے، محبت کے نام پر اپنے دین حنیف سے رشتہ توڑ رہی ہے اور والدین تعلیم کے نام پر اپنی بیٹیوں کو آزاد چھوڑ رہے ہیں، ان کی کوئی گرفت نہیں کرتے؛ لیکن جب معاملہ حد سے بڑھ جاتا ہے تو خون کے آنسو روتے ہیں۔

۲۰۱۴ کے بعد ہی بھگوا تنظیموں نے اعلان کیا تھا اور ایک حد مقرر کی تھی وہ حد صرف یوپی کی تھی کہ ہم اتنی تعداد میں مسلم لڑکیوں کو بہو بنائیں گی وہ حد کب کی پوری ہوچکی ہے اور صرف یوپی ہی نہیں بہار، بنگال، جھارکھنڈ، گجرات و مہاراشٹر سمیت پورے ملک میں اب ارتداد کی لہر ہے، بڑی تعداد میں مسلم لڑکیاں ہندو بن رہی ہیں، بڑی تعداد میں گھر اجڑ رہے ہیں کنواری لڑکیوں کے ساتھ ساتھ شادی شدہ مسلم خواتین بھی اپنے شوہر کے ساتھ بے وفائی کرتے ہوئے دامن کفر میں جارہی ہیں۔ ہم ان سب واقعات کے لیے کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہراتے، کسی تنظیم کو لعن طعن نہیں کرتے، نہ جدید تعلیم کا اسے شاخسانہ قرار دیتے ہیں؛ لیکن یہ اپیل ضرور کرتے ہیں کہ خدارا جلد اس ضمن میں سوچیں اپنی بچیوں کو بچائیں۔۔۔۔خدارا جلد اس پر قابو پائیں اور ان کو ارتداد سے محفوظ رکھیں؛ ورنہ اس تاریک دن کے لیے تیار رہیں جب آپ کی بیٹیاں بڑی تعداد میں کافر بچوں کو جنم دیں گی اور وہ بچے کفر کا دامن تھامے آپ سے اشتعال انگیزی کرتے ہوئے کہیں آپ کی لنچنگ کررہے ہوں گے، کہیں آپ کی بچی ہوئی لڑکیوں کی عصمت دری، تو کہیں ٹرین سے اغوا کرکے اسے نشانہ بنا رہے ہوں گے۔ اب بھی وقت ہے ملی تنظیمیں، والدین اور خود ہر مسلمان اس پر غور کرے اور اس کے سدد باب کے لیے تال میل کے ساتھ انتہائی منظم طور پر اس آندھی کو روکنے کی ہم سب کوشش کریں، اللہ ہماری ماؤں، بہنوں کی عصمت و عفت کی حفاظت فرمائے اور انہیں ارتداد سے بچائے رکھے۔۔۔آمین۔

Comments are closed.