تو اللہ کو بخشنے والا اور خوب مہربان پائے گا

 

محمد صابر حسین ندوی

 

انسان گناہوں کا پلندہ ہے، وہ عصیان و نسیان کا بندہ ہے، اس کی خمیر میں خطا پوشیدہ ہے، ایسا ممکن ہی نہیں کہ ایک شخص زندگی کا اوسطاً حصہ گزارے اور دامن پر کوئی چھینٹ نہ ہو، کوئی کتنا ہی بڑا بزرگ، صوفی، سنت اور تقشف کا پیکر ہو، غاروں، پہاڑوں، ٹیلوں اور آبادیوں سے دور رہ کر ریاضت و ضرب میں مشغول ہو، قرآن و حدیث کا شیخ، استاذ کل اور ولایت اعلی کے درجے پر فائز ہو، تصنیف و تالیف، تحقیق و تدقیق کے میدان کا شہہ سوار ہو، تقریر و خطابت اور انمول باتوں کا خازن ہو؛ بلکہ کردار کا بھی غازی ہو، عملی میدان میں کسی طور کوتاہی نہ کرتا ہو، ہر وقت للہیت و خشیت اور تضرع کے احساس میں ڈوبا رہتا ہو، بلکہ یہ بھی ہو کہ وہ مسجد کی چہار دیواری میں رہے، شب و روز اللہ اللہ کی صدائیں لگائے، روح کو پاکیزہ رکھنے، نفس اور ہوس کو مارنے اور خواہشات کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہو، اس کے باوجود یہ ضمانت دی جاسکتی ہے کہ پھر بھی وہ گناہ کرے گا، اگر ایسا نہ ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس سے محفوظ رہتے، وقت کے بڑے بڑے اولیاء اور بزرگاں دین کے ماتھے داغدار نہ ہوتے، مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’والذی نفسی بیدہ لو لم تذنبوا لذھب اللّٰہ بکم ولجاء بقوم یذنبون فیستغفرون اللّٰہ فیغفر لھم‘‘۔ (صحیح مسلم،باب سقوط الذنوب بالاستغفار، رقم :۷۱۴۱ ) ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے،اگر تم گناہوں کا ارتکاب نہ کرو تو اللہ تعالیٰ تمہیں ختم کر کے ایسی قوم کو لے آئیں گے جو گناہ کرے گی اور اللہ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرے گی تو اللہ ان کی مغفرت فرما دیں گے”– سنن ِترمذی اور سننِ ابنِ ماجہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’کل بني آدم خطاء وخیر الخطائین التوابون ‘‘۔(سنن الترمذي، کتاب صفۃ القیامۃ، رقم :۲۴۹۹) ’’ تمام بنی آدم خطا کار ہیں اور بہترین خطا کار توبہ کرنے والے ہیں ‘‘ …مگر ساتھ ہی ساتھ ایک مومن عاجزی و انکساری، خود کو جھکا دینا، اپنے رب کے سامنے اپنی بے بضاعتی، کم مائیگی، اور بے ثباتی کو تسلم کرلینا بھی اسی کا حق ہے، اس لئے وہ ہمیشہ توبہ و استغفار کرتا رہتا ہے، اپنی بھول چوک، لاپرواہی اور عمداً و نسیانا کئے گئے اعمال کی تلافی اسی راہ سے کرنے کی کوشش کرتا ہے،آنکھوں سے آنسو بہا کر اپنے وجود کو اسی در پر ڈال کر درگزری کا خواہاں ہوتا ہے.

یہ توبہ کوئی عام. بات نہیں بلکہ اپنے آپ میں بھی ایک عبادت ہے، بندگی ہے، ابنِ قیم رحمہ اللہ فر ماتے ہیں: ’’توبہ انسان کی پہلی، درمیانی اور آخری منزل ہے، بندہ سالک اُسے کبھی اپنے سے جدا نہیں کرتا، مدت تک توبہ اور رجوع کی حالت میں رہتا ہے۔ اگر ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف سفر اختیار کرتا ہے تو توبہ اس کا رفیق ہوتا ہے جہا ں وہ جائے، پس توبہ بندہ کی ابتدا بھی ہے اور انتہا بھی، بلکہ ابتدا کی طرح موت کے وقت اس کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔‘‘( مدارج السالکین، صفحہ: ۱۴۱) توبہ دل کا نور ہے، نفس کی پاکیزگی ہے، توبہ انسان کو اس حقیقی زندگی کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ: اے غافل انسان! آؤ! قبل اس کے کہ زندگی کا قافلہ کوچ کر جائے اور موت اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ آموجود ہو، توبہ کرنے والوں کی ہم نشینی اختیار کر لیں؛ کیونکہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ قبر محض ایک گڑھا نہیں، بلکہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔ (کما رواہ الترمذي في سننہ عن أبي ھریرۃ ؓ،کتاب صفۃ القیامۃ:۲۴۶۰ ) پس جس کی ابتدا توبہ اور رجوع سے روشن اور چمکدار ہوگی، اس کی انتہا بھی نور مغفرت سے منور ہوگی، جو اللہ کی طرف رجوع اور توبہ میں اخلاص اور سچائی کو اختیار کرے گا، اللہ تعالیٰ اُسے خاتمہ بالخیر کی تو فیق عطا فرمائیں گے؛ یہاں پر یہ غلط فہمی بھی کرلینی چاہیے کہ توبہ صرف گناہوں کیلئے ہوا کرتا ہے، نہیں توبہ صرف گنہگاروں کے ساتھ خاص نہیں؛ بلکہ ہر ایک ایمان والوں کو توبہ کا حکم دیا گیا ہے، اللہ رب العزت کا ارشادِ گرامی ہے : ’’وَتُوْبُوْا إِلٰی اللّٰہِ جَمِیْعًا أَیُّہَا الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ‘‘۔(النور :۳۱) "اورتوبہ کرو اللہ کے آگے سب مل کر اے ایمان والو! تاکہ تم بھلائی پائو‘‘- صحیح مسلم میں حضرت مزنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اے لوگو! گناہوں سے باز آجاؤاور اللہ کی طرف رجوع کر لو اور میں ایک دن میں سو مرتبہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم، باب استحباب الاستغفار والاستکثار منہ، رقم:۷۰۳۴)

واقعہ یہ ہے کہ انسان کی حالت گناہ و ثواب کے ارد گرد رہتی ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی نیکیوں کی راہ پر لگا رہے اور بدی اس کے پیچھے نہ پڑے، ایسا بھی ممکن نہیں کہ کوئی محض بداعمالیوں میں ہی ملوث رہے، خواہ کوئی کتنا ہی سیاہ کار ہو؛ لیکن یہ یقینی ہے کہ وہ کہیں نہ کہیں نیکیاں بھی کماتا ہوگا، اس کے برعکس شیطان گناہوں سے تعبیر ہے، تو وہیں فرشتے اطاعت ہی اطاعت ہیں، بَس ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان غلطیوں پر پشیمان ہو اور معافی کا طلبگار ہو، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا (نساء:١١٠) "اور جو برا عمل کرے یا اپنے آپ پر ظلم کرے ، پھر اﷲ سے مغفرت کا طلب گار ہو ، تو اﷲ کو خوب بخشنے والا اور مہربان پائے گا”. ایک اور مقام پر فرمایا گیا ہے: وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهاً آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَاماً يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَاناً إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلاً صَالِحاً فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَحِيماً (الفرقان: ٦٨-٦٩-٧٠) _”وہ اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کی پوجا نہیں کرتے اور کسی ایسے شخص کوقتل نہیں کرتے ، جس کے قتل کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے ، ہاں ، مگر حق کی بناپر (یعنی حکم شرعی کے مطابق ) ،اور وہ زنا بھی نہیں کرتے ، جو ایسا کرے گا ، وہ گنہگار ہوگا، قیامت کے دن اس کو دوگنا عذاب دیا جائے گا اور وہ ذلیل و خوار ہوکر ہمیشہ اسی میں رہے گا، قیامت کے دن اس کو دوگنا عذاب دیا جائے گا اور وہ ذلیل و خوار ہوکر ہمیشہ اسی میں رہے گا”—- ایک دوسری جگہ اللہ تعالی نے توبہ کے ساتھ ایک شرط کا بھی ذکر کیا ہے کہ وہ اپنے گناہوں پر مصر نہ بلکہ اسے تسلیم کرتے ہوئے اللہ کی رضا چاہے، فرمایا گیا: وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَہُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِہِمْ ۪ وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ ۪۟ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَ ہُمْ یَعْلَمُوْنَ (آل عمران: ١٣٥) "اور وہ لوگ کہ جب کوئی گناہ کر گذریں یا اپنے حق میں زیادتی کر جائیں ، تو اﷲ کو یاد کریں اور اپنے گناہوں کی معافی کے طلب گار ہوں —اور اﷲ کے سوا ہے بھی کون جو گناہوں کو بخشے ؟ — نیز جو گناہ (ایک انسان کی ہونے کی حیثیت سے )کر بیٹھتے ہیں ، اور اس پر جانتے بوجھتے اصرار نہیں کرتے” – – – یہ آیت تو حد درجہ قابل اطمینان اور امید افزاں ہے، ایک مومن کیلئے اس سے بڑی کیا بات ہوسکتی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعاً إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (زمر:٥٣) _”آپ کہہ دیجئے : ( اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ) اے میرے وہ بندو ! جو اپنے آپ پر زیادتی کر گذرے ہیں ، اللہ کی رحمت سے نااُمید نہ ہو ، بے شک اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو معاف فرمادیتے ہیں ، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بے حد معاف کرنے والے اور بڑے ہی مہربان ہیں”.

 

 

[email protected]

7987972043

Comments are closed.