مسلم لڑکیوں کو فتنۂ ارتداد سے محفوظ رکھیے

عاطف شبلی
فتنۂ ارتداد طوفان کی طرح تیز رفتاری سے ملک کے گوشۂ گوشہ میں پھیل رہا ہے، ہماری ماؤں بہنوں اور دوشیزائے اسلام کی عصمت و عفت کو تار تار کیا جارہا ہے، محبت و شیفتگی کے دام فریب میں اہل ہنود جس قدر مسلم خواتین اور نوخیز لڑکیوں کو آئے دن پھنسا کر انکی آبرو ریزی کر رہے ہیں، انکی عزت انکی عفت انکے آبرو کو سر بازار نیلام کر رہے ہیں، سنگھ پریوار کی دسیسہ کاریوں، مکاریوں، فریب کاریوں کا شکار ہو کر اسلامی دوشیزائیں دین اسلام کو خیرباد کہہ کر بھگوا عیاروں سے شادیاں رچ رہی ہیں، جو کہ بہت ہی سنگین ترین اور حیا سوز واقعات ہیں۔
یہ محض لادینیت، دین اسلام سے ناآشنائی، مغربیت سے شناسائی، اور بازاروں میں عریاں لباس زیب تن کر اپنے جسم کو مرکز نگاہ بنانے کا اور یونیورسٹیوں، کالجوں، غیر مسلم اسکولوں کے ماحول اور وہاں کی تعلیمی نظام اور وہاں کی تہذیب و تربیت سے آراستہ ہونے کا، اسلام دشمنوں کی تعلیم گاہوں میں بھیجنے کا، وہاں کے ماحول سے متاثر ہونے کا نتیجہ ہے جہاں انکی ذہن سازی کی جاتی ہے، ہندوتوا کا درس دیا جاتا ہے، مذہبی ترانے رٹوائے اور یاد کرائے جاتے ہیں، جسکا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کسی بھی ایرے غیرے کے فریب محبت میں آکر اپنا دین، اپنا مذہب، اپنا شعار، اور اپنے اسلامی تہذیب و تمدن، ثقافت و ثقاہت سے دستبرداری اختیار کر غیروں کے بستر گرم کرنے پر آمادہ ہوجاتی ہیں، جو کہ نہایت ہی شرمناک و ناپاک عمل اور ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
سنگھ پریوار اس مشن ارتداد کو نہایت منظم انداز میں بہت تیزی سے بڑھاوا دے رہے ہیں، مسلم خواتین اور نوخیز لڑکیوں کو محبت کا جھانسہ دیکر، ان پر عشق کا جال بچھا کر، ان سے عشق و محبت کی باتیں کر کے، اپنی چرب زبانی فحش گوئی سے انکو مسحور و محصور کرکے اس طرح ان کے اذہان و قلوب پر قابض ہوجاتے ہیں کہ ان لڑکیوں کے لیے اپنا دھرم اپنا مذہب ترک کرنا اور شرپسندوں کے دام عشق میں پھنس کر انکے ساتھ ہاتھ پیلے کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے، لڑکیوں کے والدین بھی اپنی لادینیت کا اظہار کرتے ہیں، وہ اپنی بچیوں کو لاوارث چھوڑ دیتے ہیں، وہ کہاں جارہی ہیں، کس سے ملاقات کر رہی ہیں، اہل خانہ اس سے بیخبر رہتے ہیں، جسکا یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلم لڑکیاں گھر والوں کے بتائے بغیر کسی مندر میں رسم شادی ادا کرلیتی ہیں، تو کچھ ہندؤں کے ساتھ بھاگ کر اپنی زندگی کی باگ ڈور شرپسندوں کے ہاتھوں میں تھام دیتی ہیں، اسکے بعد جب شادی کے تقاریب مکمل ہوجاتے ہیں، اور والدین جب اپنی بچیوں کے اس حرکت سے خبردار ہوتے ہیں تو انگشت بدنداں ہوجاتے ہیں، ساکت و صامت بیٹیوں کی حرکت پر خون کے آنسو بہا رہے ہوتے ہیں، لیکن اس وقت کا پچھتاوا بیکار ہے، اب نہ خون کے آنسو سے مسئلے کا حل ہو سکتا ہے نہ مار پیٹ سے آپکی بیٹی دام فریب سے نجات پاسکتی ہے۔
یہ سنگھی تنظیمیں فاسشسٹ حکومت کی پشت پناہی میں بل کہ حکومت کی سربراہی میں منظم انداز پر ایک انتہائی خطرناک مشن ہے جو بھگوا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے شدت اختیار کر چکا ہے، انکا مطمح نگاہ مسلم دوشیزائیں ہیں، انکا مقصد مسلمانوں کی آبرو کے ساتھ کھلواڑ کرنا ہے، مسلمانوں کو بھڑکا نا ہے، اس سے بڑھ کر یہ کہ ہندو راشٹر بنانے کی تیاری ہے، انکے اس مشن کے لیے باقاعدہ ہوس پرست لڑکوں کو تیار کیا جاتا ہے، کہ پہلے مسلم لڑکیوں کو محبت کا جھانسہ دیا جائے، اسکا مذہب تبدیل کرایا جائے، پھر اس سے شادی رچی جائے، اور اسکو ہندو گھر کی بہو بنایا جائے، ایسا کرنے پر بڑی بڑی سنگھی تنظیمیں ان لڑکوں کو انعامات سے نوازتی ہیں، جو کسی مسلم لڑکی سے شادی رچتا ہے اور اسے ہندو مذہب کا پیروکار بنا دیتا ہے، ایسے لڑکوں کو باقاعدہ انعامات سے نوازا جاتا ہے، اور اسکی قدر کی جاتی ہے، اسکی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، اسکے لیے رہائش گاہوں کا نظم ونسق کیا جاتا ہے، اسکو عزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے، گویا اسکے اس عمل کو خوب سراہا جاتا ہے۔
اندازہ لگائیں کہ کس طرح منظم انداز میں مسلم خواتین کو ارتداد کے دلدل میں پھنسایا جارہا ھے، انکی زندگیوں کو جہنم بنا دیا جارہا ہے، انکی عزت نفس کو تار تار کیا جارہا ہے، انکے ساتھ عصمت دری کا معاملہ کیا جارہا ہے، لیکن ہم خواب غفلت میں مدہوش ہیں، خاموش تماشائی بنے اپنی بہن بیٹیوں کے عزت و آبرو کو غیروں میں لٹاتے دیکھ رہے ہیں، لیکن جسم متحرک نہیں ہوتا، زبانیں گنگ ہیں، آنکھوں پر نیند غفلت کا پہرا ہے، ہم اپنی بہن بیٹیوں کو موبائل فون دیکر بازاروں میں عریاں لباس زیب تن کرکے بھیج دیتے ہیں، کہ اپنے جسم کی نمائش کرتی پھرے، کسی ہوس پرست کی نگاہ کا مرکز بنے۔
نہ انکے جسم پر اسلامی لباس ہوتا ہے نہ دل و دماغ میں اسلامی تعلیمات، نہ قرآن و حدیث سے کوئی وابستگی ہوتی ہے، نہ نماز و مصلے سے کوئی ربط، تو پھر کیوں نہ ہم غیروں کو کوسنے کے ساتھ ساتھ خود کو بھی کوسیں کہ بہت بڑی غلطی ہماری قوم کی بھی ہے، اگر انہیں اسلامی تعلیمات سے روشناس کیا جاتا، انکے اذہان و قلوب میں اسلامی روح پھونکی جاتی، تو یقینا انہیں مذہب اسلام سے دین محمدی سے وابستگی ہوتی، خدا و رسول سے شیفتگی و فریفتگی ہوتی، قرآن و سنت سے محبت ہوتی، پھر ہرگز آج ہمیں اس رسوا کن لمحات کا سامنا نہ کرنا پڑتا، اس طرح ذلتیں برداشت نہ کرنی پڑتی۔
ابھی بھی وقت ہے اگر ہم اپنی بیٹیوں بہنوں کے ہاتھوں سے موبائل ضبط کرلیں، انکو بازاروں میں گھومنے سے روک لیں، اغیار کے اسکولوں کالجوں یونیورسٹیوں اعلی تعلیم کے نام پر اسلام سے پہلو تہی، بے التفاتی برتنے کے بجائے مکاتب و مدارس سے انکو وابستہ کریں، نقاب پوشی کا عادی بنائیں تو ممکن ہے اس طوفان سے اس فتنہ سے اپنی بہو، بیٹیوں بہنوں کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے اور انکو غیروں کے بھینٹ چڑھنے سے اور ارتداد کے طوفان میں بہنے سے بچایا جا سکتا ہے۔
Comments are closed.