فکر ولی اللہی کے ترجمان مولانا بشیر احمد امینی، گھاسیڑہ

 

 

محمد تعریف سلیم ندوی

جامعہ صدیقیہ عین العلوم، ہوڈل روڈ، نوح

 

ابتدائیہ:

مولانا بشیر احمد گھاسیڑہ ایک علمی خاندان کے چشم و چراغ ہیں، جو سن 1955ء میں پیدا ہوئے، مولانا عبدالکریم گھاسیڑہ آپ کے تایا اور معروف عالم دین مولانا حبیب الرحمٰن گھاسیڑہ آپ کے رشتہ میں چاچا لگتے ہیں۔

آپ کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے مشہور معلم مولانا رمضان صاحب کے یہاں ہوئی، کچھ مدت جامعہ معین الاسلام نوح میں رہے، پھر عالمیت کے لیے مدرسہ سبحانیہ کا قصد کیا، اسی ادارے سے آپ کا میلان تصوف و سلوک کی طرف مائل ہوا، خانقاہ رائے پور سے اس ادارے کا دیرینہ ربط تھا، رائےپور کے اکابر کی آمد مولانا عبدالقادرؒ کے زمانہ سے جاری ہے؛ لہذا آپ طالب علمی کے زمانہ میں ہی مولانا شاہ عبدالعزیز سے 1970 میں بیعت ہو گئے، 1976 میں آپ مدرسہ امینیہ سے فارغ ہوئے۔

 

درس و تدریس:

فراغت کے بعد آپ نے داؤد پور الور میں مفتی جمال الدین صاحب کے ہاں مدرسہ اشرف العلوم الور میں ڈیڑھ سال پڑھایا، کچھ ان بن ہونے کے باعث آپ وہاں سے لوٹ آئے، آپ بیان کرتے ہیں کہ جب میں دوبارہ سامان لینے گیا تو مولانا صدیق صاحب اٹاوڑی رحمہ اللہ کو ساتھ لےکر گیا وہ مفتی صاحب سے غصہ میں سرخ ہو گئے، بتاتے ہیں کہ انہیں میں نے زندگی میں خلافِ معمول دو بار غصہ ہوتے ہوئے دیکھا اور دونوں بار انہیں ایک ہفتہ بخار رہا، بعد ازاں آپ نے بارہ سال بیکانیر (راجستھان) کے دو مدرسوں میں صرف کیے، جہاں آپ سے طالبان علوم نبوت کو خوب فیض پہنچا۔

پھر آپ 1992 میں مولانا صدیق صاحب اٹاوڑی کی دعوت پر جامعہ صدیقیہ تشریف لے آئے اور وہاں آپ نے بارہ سال تک بغیر فصل و کسل کے پوری توجہ و تندہی سے تعلیم دی۔

 

خانقاہ رائے پور میں:

جامعہ صدیقیہ میں دورانِ تدریس آپ کی رائے پور آمد و رفت میں اضافہ ہوا، مولانا شاہ سعید احمد رائےپوریؒ جب پڑوسی ملک پاکستان سے وطنِ عزیز تشریف لاتے تو آپ خدمت میں پہنچ جاتے، چالیس رمضان آپ نے خانقاہ میں ہی ذکرِ الہی میں منہمک ہو کر گزارے ہیں، ماہانہ تین دن کا معمول ہوتا، اگر آپ ایک ماہ یا دو ماہ نہیں جا پاتے تو پھر تین دن کے حساب سے اکٹھا وقت لگاتے تھے۔

 

اجازت:

وسنْت وِہار مدرسہ میں مولانا شاہ سعید احمد رائےپوریؒ نے مولانا الیاس کوٹ اور موصوف کو اجازت سے نوازا، تاہم خلافت نہیں دی، البتہ مولانا موصوف کے مطابق شاہ سعید احمد صاحب مرحوم مولانا الیاس کوٹ کو آگے بڑھانا چاہتے تھے، تاکہ میوات میں ان کے ذریعے یہ فیض جاری رہے اور مولانا بشیر صاحب کو ہر ممکن تعاون کی ہدایت دی۔

خانقاہِ رائے پور میں اجازت و خلافت دونوں کا یکبارگی حاصل ہونا ایک وقت طلب و محنت طلب امر ہے راہِ ارادت کے راہی کو کئی امتحانات کی وادیوں سے گزار کر یہ اعزاز و امتیاز نصیب ہوتا ہے۔

 

تصنیفات:

خانقاہِ رائے پور میں قیام کے دوران آپ کے علمی شوق اور ذوقِ مطالعہ کو دیکھتے ہوئے آپ کے احباب نے کچھ چیزیں جمع کرنے کو کہا، پہلے تو آپ نے ٹال مٹول کی اور اپنی کم مائیگی و بے بضاعتی کا اظہار کیا؛ لیکن جب ان کے اصرار پر لکھنے بیٹھے تو ایک سال کی مختصر مدت میں سات کتابیں قارئین کے ہاتھوں کی زینت بنی جن میں ”جدید دور میں فکرِ ولی اللہی کی اہمیت“، ”ارشادات حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری قدس سرہ“ اور ”فیضانِ مشائخ رائے پور“ وغیرہ مذکورہ کتابیں اور ما بقیہ بھی در اصل مضامین و مجالس کا مجموعہ ہے، جسے مولانا موصوف نے پوری دلجمعی و عرق ریزی سے جمع کر دیا ہے۔

آپ نے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی کتب کو خصوصی طور پر زیرِ مطالعہ رکھا ہے جس کا اثر آپ کی مجالس میں صاف جھلکتا ہے، تھوڑی سے دیر کے بعد سامعین و حاضرین کی عقل کا امتحان شروع ہو جاتا ہے، آپ بہت جلد سیاست و معیشت کے موضوع پر سیر حاصل بحث شروع کرتے ہیں جس کا آخری حصہ پکڑ سے دور ہی جاتا ہے۔

 

موجودہ مشغلہ:

آپ اپنے گاؤں گھاسیڑہ ہی میں قیام پذیر ہیں عمر پچپن کو پار کر گئی ہے، ذکرِ الٰہی میں مشغول امت مسلمہ کی فکر میں ڈوبے ہوئے رہتے اور طابینِ علوم و واردینِ تصوف کو اپنی زندگی بھر کی علمی و روحانی کمائی سے مالا مال کرتے ہیں، لاک ڈاؤن کی مدت میں متخرجين مدارس کی ایک مخصوص جماعت کو آپ نے ”حجة الله البالغة“ کا درس دیا۔

آپ نے شاہ سعید احمد رائےپوریؒ سے حرفاً حرفاً حجة الله البالغة پڑھی ہے، آپ اس کتاب کے مطالعہ میں ایسے مستغرق ہوئے کہ اسرار و رموز کا ایک حصہ وافر مقدار میں آپ کو میسر آیا۔

مولانا محترم نے ایک عرصہ تصوف و سلوک اور خانقاہ و خلوت گاہ میں گزارا ہے، وہیں مسندِ درس کو بھی ایک مدتِ مدید تک زینت بخشی، آپ کے شاگرد و طالبین کے فہرست طویل ہے۔

آپ علم کے شیدا، دوائے دل کے دلدادہ، خانقاہِ رائے پور پر فریفتہ اور شاہ ولی اللہ کے شیفتہ ہیں۔

 

نیز خانقاہِ رائے پور کی مجلسِ شوریٰ کے مشورہ سے خانقاہ کے موجودہ سجادہ نشین منشی عتیق صاحب مد ظلہ نے مولانا الیاس صاحب کوٹؒ کے انتقال کے بعد آپ کو بیعت کی اجازت دے دی ہے (اجازت و خلافت کا مسئلہ میری سمجھ میں نہ آ سکا یہ مبہم و معمہ ہی رہا اور مجھ پر اس کی حقیقت واضح نہ ہو سکی) آپ خاموش و خلوت پسند ہیں، آپ کی شخصیت پوشیدہ ہے؛ لیکن فیض آپ سے اٹھایا جا سکتا ہے۔

Comments are closed.