منطقی طرز استدلال کی ضرورت

محمد صابر حسین ندوی
یہ دور دلائل و براہین کا ہے، کوئی بھی بات بغیر دلیل اور حوالے کے کہنا اپنی نادانی کے مترادف ہے، اب یہ دلائل دو طرح کے ہوسکتے ہیں اول: قرآن مجید، احادیث۔ دوم: کامن سینس۔ Commonsense : اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اصل دلیل تو نصین ہی ہیں؛ لیکن ہر بات ان میں براہ راست نہیں ہے، قرآن مجید میں جو کچھ بلاواسطہ نہ ہو اسے احادیث میں نقل کیا گیا ہے اور احادیث کی تشریح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کی ہے، ایک مؤمن کیلئے قرآن و حدیث سے فرار ممکن نہیں، اگر کوئی نصین کے کسی حکم کا منکر ہے، یا پھر بےجا تاویل کرتا ہے جو اس کے مفہوم و معانی سے کوسوں دور ہے، ہوا و ہوس پر مبنی ہے یا مطلب برآری کا پہلو ہے تو پھر اس کے ایمان پر خدشہ ہے، اہل ایمان سے یہ کہیں تک تصور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ نصین سے دور ہوں گے، اسے اپنی ذاتی رائے، فکر اور مرضیات پر ترجیح دیں گے؛ جبکہ دوسرا طرز استدلال کامن سینس ہے، اگر غور کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ اجماع، قیاس اور دیگر ادلہ کا تعلق اسی سے ہے، مگر انہیں الگ الگ تعبیر سے ادا کیا گیا ہے، فقہی مباحثہ میں الگ زاویے سے پیش کیا گیا ہے؛ لیکن یہ بہت ضروری امر ہے کہ اس جنس کا صحیح استعمال ہو، انسان اپنی فطرت پر ہو، اسلامی طرز زندگی سے دور نہ ہو، خشیت و للہیت کے ساتھ نصوص پر گہری نظر رکھتا ہو، وہ دنیاوی چمک کا شیدائی اور خدا بیزار، نفس پرست نہ ہو، انسانی اور خدائی دائرے سے واقف ہو، ساتھ ہی استدلال کی صلاحیت سے بھی پُر ہو، حالات حاضرہ کا صحیح تجزیہ، مسائل کی تحلیل اور نصوص کی تطبيق سے واقف ہو، اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو منطقی اور کامن سینس کی آڑ میں ہوس رانی کا دروازہ کھل سکتا ہے، قدیم دور میں مرجیۂ، قدریہ، جبریہ، معتزلہ نامی متعدد فکری مکاتب نے اسی راہ میں غچہ کھایا ہے، فکری پرواز میں بنیادوں سے مصلحت یا تشدد اور تعصب نے انہیں کہیں سے کہیں پہنچا دیا، مگر اس کے منفی اثرات سے بچتے ہوئے مثبت پہلوؤں پر غور کیجئے! تو عصر حاضر میں اس کی ضرورت دوچند محسوس ہوتی ہے، تعلیمی رجحان، تحقیق و تجزیہ کا مزاج اور سائنسی دور میں منطقی طرز استدلال ایک اچوک ہتھیار کی مانند ہے، جس سے مد مقابل شکست کھا سکتا ہے، سوچنے، سمجھنے اور اسلامی تفوق و برتری پر کان دھرنے کیلئے مجبور ہوسکتا ہے، بارہا یہ دیکھا جاتا ہے کہ قدیم طرز بحث پر بات بگڑتی ہے، صرف شدت اختیار کرنے اور علمی تبادلہ خیال نہ کرنے اور عام فہم گفتگو کے بجائے گنجلک طرز استدلال، اجتہاد اور تشریح سے بعد پیدا ہوتا ہے، افہام و تفہیم میں دقت پیش آتی ہے، اجنبیت حائل ہونے لگتی ہے اور فرسودہ باتیں کہہ کر ٹال دینے کی کوشش ہوتی ہے؛ لیکن اگر اسی کو زمانے کی زبان اور اذہان کے مطابق رکھا جائے تو توجہ حاصل ہوتی ہے۔
علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کا وہ جملہ یاد آرہا ہے کہ ہمارے پاس سونا ہے مگر ہم اس کی دکان ایسی جگہ لگائے بیٹھے ہیں جہاں لوگوں کا گزر نہیں یا پھر اس جگہ کو کوئی اہمیت حاصل نہیں، وقت ہمیشہ الگ الگ تقاضے لاتا ہے، ایک داعی اور مبلغ کا کام یہ ہے کہ وہ زمانے کی نبض پر ہاتھ رکھے، لوگوں تک اپنی بات پہنچانے کیلئے ان صلاحیتوں کا استعمال کرے جس کی ضرورت فی الفور درکار ہے، اگر اس دور میں جدید اذہان کو متوجہ کرنا ہے تو بلاشبہ منطقی طرز استدلال، عقلی دلائل اور کامن سینس پر مبنی باتیں کرنی ہوں گی، محض لفاظی، جوش و خروش اور چیخ و پکار سے کام نہ چلے بلکہ کام بگڑ جائے گا، مولانا وحیدالدین خان مرحوم منطقی طرز استدلال پر بڑی عمدہ بات کہی ہے، جو سمجھنے اور سوچنے نیز اپنانے سے تعلق رکھتی ہے آپ رقمطراز ہیں: ” ایک عالم سے گفتگو ہوئی۔ میں نے کہا کہ حدیث میں آیا ہے : استفت قلبک( مسند احمد، حدیث نمبر : 18006 ) یعنی اپنے دل سے پوچھ لو اس سے معلوم ہوا کہ دین کے تقاضے معلوم کرنے کا ایک ذریعہ قرآن اور حدیث کے علاوہ ہے، اور وہ کامن سنس ( common sense) ہے۔ اسلام دین فطرت ہے۔ اس لیے جو چیز فطری تقاضے کے مطابق ہو، وہ بھی اسلام میں داخل سمجھی جائی گی۔ مثال کے طور پر ہر شخص اپنے ماں باپ سے محبت کرتا ہے۔ وہ اس کو دین کے مطابق سمجھتا ہے۔ حالاں کہ قرآن اور حدیث میں کہیں بھی لفظی طور پر یہ لکھا ہوا موجود نہیں ہے کہ………… اپنے ماں باپ سے محبت کرو۔ انھوں نے میری بات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ماں باپ سے محبت کرنے کا حکم قرآن میں موجود ہے، پھر انھوں نے یہ آیت پڑھی : وقضی ربک الا تعبد الا آیاہ و بالوالدین احسان- ( الاسرار : 23) میں نے کہا کہ اس آیت سے آپ کا مدعا ثابت نہیں ہوتا۔ اس آیت میں جس چیز کا حکم دیا گیا ہے، وہ ماں باپ کی محبت نہیں ہے، بلکہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک ہے، یعنی ماں باپ کے ساتھ تمام انسانی اور اخلاق تقاضے پورے کرنا۔ یہ ایک غیر منطقی استدلال ہے کہ جس آیت میں اخلاقی سلوک کا ذکر ہو، اس سے قلبی محبت کا حکم نکالا جائے۔ منطقی استدلال کیا ہے۔ منطقی استدلال ( logical argument) دراصل درست ریز ننگ( correct reasoning) کا نام ہے۔ یعنی وہ استدلال جو حقائق پر مبنی ہو۔ جس میں متعلق ( relevant) اور غیر متعلق ( irrelevant) کے فرق کو پوری طرح ملحوظ رکھتے ہوئے بات کہی جائے۔ ایسا استدلال جو مخاطب کے مسلمہ پر مبنی ہو، نہ کہ کسی یک طرفہ مفروضے پر، جس کی بنیاد قطعی امور پر ہو، نہ کہ ظنی امور پر، جو جذباتی طرز فکر سے بالکل پاک ہو، جس میں کامل موضوعی فکر ( objective thinking) پائی جائے- ایسے ہی استدلال کا نام منطقی استدلال ہے- اور منطقی استدلال ہی دراصل درست استدلال ( correct reasoning) کا درجہ رکھتا ہے۔ (الرسالہ- مارچ 2016)
Comments are closed.