یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے

محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ، نور الاسلام،کنڈہ، پرتاپ گڑھ
حضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوری رح ( پ ۱۹۰۸ء ۔ و ۱۹۷۷ء) اپنی عبقریت ،جلالت شان اور اپنی علمی عظمت و کمال کے اعتبار سے ماضی قریب کی چند نابغئہ روز گار ہستیوں میں ایک تھے ۔ ان کے علم میں وسعت بھی تھی، اور گہرائی و گیرائی بھی، ان کی ذات کا سب سے بڑا علمی امتیاز علمی اعتبار سے جامعیت اور ہمہ گیریت ہے ۔ فقہ اور اصول فقہ کے رمز شناس تھے، علوم قرآن پر بڑی عمیق اور گہری نظر تھی ۔ اسلام مخالف فتنوں اور سازشوں سے پوری طرح باخبر اور آگاہ تھے، جدید عربی انشاو ادب کے شہسوار بھی تھے۔ علم حدیث ان کا اصل میدان تھا، جس میں ان کے معاصرین میں کم ہی شخصیتیں ان کی ہمسر ہوں گی ۔ علم حدیث میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ "معارف السنن”ہے، جو ترمذی شریف کی عربی شرح ہے، جس میں آپ نے اپنے استاد مولانا انور شاہ کشمیری رح کے افادات سے بہت استفادہ کیا ہے اور بڑی داد تحقیق دی ہے ۔ مولانا درحقیقت اس مصرع کے مصداق تھے :
*علم و فن سے عشق تھا جن کی طبیعت کا خمیر*
مولانا بنوری رح نے مصر کے مشہور ،عالم، ادیب اور قرآن مجید کے شہرئہ آفاق مفسر علامہ طنطاوی سے ان کی تفسیر قرآن کے سلسلہ میں بالمشافہ گفتگو کی اور ان پر مدلل تنقید فرمائی، اس موقع پر علامہ طنطاوی کے لئے اپنی غلطی، اور مولانا یوسف بنوری رح کی علمی عبقریت کا اعتراف کے بغیر چارہ نہیں رہا اور انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے آپ کو ہمارے لئے فرشتئہ اصلاح بنا کر بھیجا ہے ۔ ( مستفاد وہ جو بیچتے تھے دوائے دل از مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ العالی صفحہ ۲۶۰)
مولانا بنوری رح میدان علم و تحقیق کے شہسوار تو تھے ہی، قوم و ملت کی قیادت اور میر کارواں کے وہ سارے اوصاف و کمالات بھی ان کے اندر بدرجہ اتم موجود تھے اور علامہ اقبال مرحوم کے اس شعر کے صحیح مصداق تھے :
نگہ بلند ،سخن دلنواز جاں پرسوز
یہی رخت سفر میر کارواں کے لئے
حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی حضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوری رح کی دعائے نیم شبی و نالئہ نیم شبی ،نیز مولانا کی قوم و ملت کے لئے درد و کرب کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: کوئٹہ کے سفر میں احقر علامہ بنوری رح کے ہمراہ تھا، یہاں مولانا کو کل چوبیس گھنٹے ٹہرنا تھا ۔ جس میں تین مجلسوں سے خطاب کرنا تھا،ایک پریس کانفرس تھی ،گورنر بلوچستان سے ملاقات تھی اور عشاء کے بعد جامع مسجد میں ایک عظیم الشان جلسئہ عام تھا۔ سارا دن مولانا کو ایک لمحہ بھی آرام نہ مل سکا ،اور رات کو جب ہم جلسہ سے فارغ ہوکر آئے تو بارہ بج چکے تھے، خود میں تھکن سے نڈھال ہو رہا تھا ،مولانا تو یقینا مجھ سے زیادہ تھکے ہوئے ہوں گے ۔ اس کے بعد میں سو گیا ،رات کے آخری حصے میں آنکھ کھلی تو دیکھا کہ مولانا کی چارپائی خالی ہے اور وہ قریب بچھے ایک مصلی پر سجدے میں پڑے ہوئے سسکیاں لے رہے ہیں، اللہ اکبر! ایسے سفر،اتنے تکان اور مصروفیت میں بھی نالئہ نیم شبی اور آہ سحر گاہی جاری تھا،یہ دیکھ کر مجھے تو ایک طرح سے ندامت ہوئی کہ مولانا اپنے ضعف ،علالت اور سفر کے باوجود بیدار ہیں اور ہم صحت مند اور نو عمری کے باوجود محو خواب! اور دوسری طرف یہ اطمنان بھی ہوا کہ جس تحریک (تحریک ختم نبوت) کے قائد کا رشتہ ایسے ہنگامہ دار و گیر میں اپنے رب سے اتنا مستحکم ہو،ان شاء اللہ ناکام نہیں ہوگی۔اس زمانے میں ملک بھر میں مولانا کا طوطی بول رہا تھا، اخبارات مولانا کی سرگرمیوں سے بھرے ہوئے تھے اور ان کی تقریریں اور بیانات شہ سرخیوں میں شائع ہوتے تھے ـ
چناچہ جب صبح ہوئی، تو میزبانوں نے اخبارات کے ایک پلندہ لاکر مولانا کے سامنے رکھ دیا ،یہ اخبارات مولانا کے سفر کوئٹہ کی خبروں، بیانات ،تقریروں اور تصویروں سے بھرے ہوئے تھے ،مولانا نے یہ اخبارات اٹھا کر ان پر ایک سرسری نظر ڈالی اور پھر فورا انہیں ایک طرف رکھ دیا ،اس کے بعد جب کمرے میں کوئی نہ رہا تو احقر سے فرمایا : آج کل کوئی تحریک دین کے لئے چلائی جائے، اس میں سب سے زیادہ فتنہ نام و نمود کا فتنہ ہے ۔ یہ فتنہ دینی تحریکوں کو تباہ کر ڈالتا ہے ،مجھے بار بار یہ ڈر لگتا ہے کہ میں اس فتنے کا شکار نہ ہوجاوں اور اس طرح یہ تحریک ڈوب نہ جائے ،دعا کرو کہ اللہ تعالٰی اس فتنے سے ہم سب کی حفاظت فرمائے ورنہ ہمارے اعمال کو تو بے وزن بنا ہی دے گا ،اس مقدس تحریک کو بھی لے کر بیٹھ جائے گا۔ یہ بات فرماتے ہوئے مولانا کے چہرے پر کوئ تصنع یا تکلف کے آثار نہ تھے ،بلکہ دل کی گہرائیوں میں پیدا ہونے والی تشویش نمایاں تھی ۔ (نقوش رفتگاں از مولانا محمدتقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی)
آج امت کو ایسے ہی مخلص روح رواں، میر کارواں ، امیر شریعت ،اور قائدین کی ضرورت ہے، جو نگہ بلند، سخن دلنواز اور جاں پرسوز جیسے اوصاف و کمالات سے متصف ہوں، جو ذاتی اور خاندانی و موروثی مفادات و اغراض سے اٹھ کر صرف امت کی کامیابی و کامرانی، فوز و فلاح اور اقبال و ترقی کے لئے کوشاں رہتے ہوں ، جو ذاتی مفادات و اغراض، شہرت اور نام و نمود سے کوسوں دور ہوں اور جن کو مال و دولت اسباب و راحت اور عہدہ و منصب کی حرص و طمع بالکل نہ ہو ۔ یقینا اس امت میں آج بھی ان صفات کے حامل افراد و اشخاص موجود ہیں ،کوئی زمانہ ایسے لوگوں اور ایسے افراد سے خالی نہیں رہا ہے، لیکن ان دنوں ان کی تعداد بہت کم ہے یا نہ کے برابر ہے ، آج طبقئہ خواص میں بھی جو اخلاقی زوال اور روحانی پستی آئی ہے، وہ بہت بڑا مسئلہ اور المیہ ہے ، علماء اور خواص امت کے بارے میں عوام الناس اور انگریزی داں طبقہ میں جو تبصرہ اور چرچاہے سن کر آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں ، ان کو یہ موقع ہم نے خود فراہم کیا ہے ، ہماری عہدہ و جاہ طلبی اور حب جاہ ومنصب نے ،اور اس کے حصول کے لیے ہر طرح کی چھل ،بل اور کل کے استعمال اور سطحی حرکت نے ،اب ہمیں کہیں کا رہنے نہیں دیا ہے ، ہر جگہ علماء کے کرادر اور شبیہ پر لوگ انگلیاں اٹھانے لگے ہیں ،امارت شرعیہ کے موجودہ قضیہ نے ہمیں ہر جگہ رسوا کردیا ہے ، اور یہ آوازیں اٹھنے لگی ہیں کہ جب خواص امت کی یہ حالت ہے ،تو عوام کی حالت کیا ہوگی ،آج ایک صاحب کا تبصرہ تھا کہ مولانا صاحب! امیر شریعت کا انتخاب ہو رہا ہے کہ امیر شرارت کا ،؟ ہم خاموش رہے اور ہم نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ ایک صاحب کہنے لگے کہ جن کی خود اصلاح نہیں ہے وہ لوگوں کی کیا اصلاح کریں گے، وغیرہ وغیرہ ۔۔۔
اس لئے ضرورت ہے کہ ہم خواص، جو علماء کہلاتے ہیں ،خود اپنی اصلاح کریں، اپنا جائزہ لیں، اپنا محاسبہ کریں اور صرف لفاظی اور اور زور خطابت کا مظاہرہ نہ کریں، بلکہ عمل اور کردار کی کسوٹی پر کھرے اتریں ، خود غرضی ،نفسانیت ذاتی مفاد ،اقربا پروری ، تعصب، علاقیت ،وطنیت ،موروثیت ،حرص و طمع اور باہمی کشمکش اور کشاکش نیز نزاع اور تفرقہ سے بچیں، ورنہ یاد رکھیں کہ عوام الناس اور انگریزی داں طبقہ کے پاس بھی ہمیں تولنے اور پرکھنے کا آلہ اور تھرما میٹر ہے ،جس سے وہ ہمیں آسانی سے پرکھ لیں گے اور امتحان لے لیں گے کہ ہم کہاں ہیں اور کس موڑ اور سطح پر ہم آگئے ہیں ۔
( شائع کردہ مولانا علاء الدین ایجوکیشنل سوسائٹی،دگھی،گڈا،جھارکھنڈ)
Comments are closed.