معاشرتی بگاڑ اور دین اسلام

 

نوشین فاطمہ حاصل پور

معاشرتی بگاڑ ہر گزرتے دن کے دوش بدوش مہنگائی کی طرح بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ایسے ایسے واقعات اور حادثات رونما ہو رہے ہیں کہ انسانی عقل متحیر رہ جاتی ہے۔

بھائی بھائی کا دشمن بنا بیٹھا ہے، چوری چکاری اور ڈاکہ زنی تو عام سی بات ہے۔مال و زر تو ایک طرف عزت و ناموس تک محفوظ نہیں، ہر دن کسی مریم کسی زینب یہاں تک کہ بے زبان جانور (بلی کے بچے)تک کو سفاکیت اور حیوانیت کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔دھوکہ ڈھڑی اور غبن کا چولہ پہنے ہوئے اپنے ہی اپنوں کو کسی دیو قامت اژدھے کی طرح سالم نگلنے کو تیار ہیں۔

شعر!

نہ کھائیں پھر کیسے نہ دھوکہ یہ تیرے سادہ لوح بندے

بنا کے چہرہ موسی یہاں فرعون بیٹھے ہیں

نئی نسل اور طلباء کو قائد اعظم محمد علی جناح نے قوم کے معمار کہا تھا کہ یہ ملک و قوم کی ترقی کا ذریعہ بنیں گے۔مگر افسوس یہی معمار اصل مقصد سے بھٹک چکے ہیں۔

پیارے آ قاحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ:

"گود سے گور تک علم حاصل کرو”

جس عمر میں قوم کے معماروں کو کامیابی کی لت لگنی چاہیے نئے نئے نشوں کی لت لگائے پھرتے ہیں۔جو گور تک ان کا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔رہی سہی کسر جدید میڈیا نے پوری کر دی ہے۔جس عمر میں قرآن و سنت پر عمل کر کے زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔اس عمر میں ہماری قوم و نسل اندھا دھند ٹک ٹاک سنیک ویڈیو اور ان جیسی دوسری ایپس پر آ کر ایسے ایسے نازیبا کارنامے سر انجام دے رہی ہے کہ اپنی دنیا تو دنیا آ خرت بھی تباہ کر رہی ہے۔

پہلے پہل تو تعلیمی اداروں میں سالانہ علم و ادب کے مقابلے منعقد کروائے جاتے تھے۔جو طلباء کے ذہنوں کو عقل و فہم اور شعور کی نئی بلندیوں سے روشناس کرواتے تھے۔اب انہی درس گاہوں میں بھرپور تیاریوں کے ساتھ ناچ گانے کے مقابلے منعقد کروائے جاتے ہیں۔ایسی تعلیم کا کیا فائدہ جو آپ کو اچھے برے کی تمیز ہی نہ سکھا سکے۔اگر آپ کو خواندہ ہو کر بھی اچھے برے کا شعور نہیں تو آپ کی ڈگریاں خواہ وہ کیمبرج٫اوکسفورڈ٫لمس٫پنجاب یا اسلامیہ سے ہی کیوں نہ ہوں ردی کے ڈھیر سے زیادہ کچھ نہیں۔

ان سب برائیوں کی بڑی وجہ الله پاک اور دین اسلام کے احکامات کی خلاف ورزی ہے۔ جب اللہ رب العزت اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی نا فرمانی کی جائے گی تو معاشرتی برائیوں میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

احساس اور انسانیت کی کمی بھی اس کی وجہ ہے۔انسان کو انسان نہیں سمجھا جاتا۔صرف ذاتی مفاد دیکھا جاتا ہے۔خواہ اس کے لیے کتنے ہی معصوموں کو کیوں نہ روندھنا پڑے۔اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے خاندان تباہ کر دیے جاتے ہیں۔چند لمحوں کی جھوٹی خوشی حاصل کرنے کے لیے معصوموں کو عمر بھر کا حزن و کرب دے دیتے ہیں۔

اپنے لمحے سنوارنے کے لیے

میری صدیاں بگاڑ دی تم نے!!!

یہی سب تو معاشرتی بگاڑ ہے۔جس کی وجہ انسان کے اندر کا بگاڑ اور سوچ کی پستی ہے۔پہلے انسان کے اندر کے بگاڑ کو ختم کیاجائے پھر ہی معاشرتی بگاڑ پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

اگر اسلامی قوانین اور اللّٰہ پاک کے احکامات کے مطابق زندگیاں بسر کی گئیں ہوتیں تو آ ج ہمارا معاشرہ اس قدر بگاڑ کا شکار نہ ہوتا۔ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ہمیں اپنے اصل کی طرف واپس لوٹنا چاہیے اللہ رب العزت پر کامل یقین سے۔انسان کو ہر وقت اللّٰہ پاک کی موجودگی کو محسوس کرنا چاہیے اور خوف خدا رکھنا چاہیے۔اس سے انسان بڑا تو دور چھوٹے سے چھوٹا گناہ کرنے کے بارےمیں سوچ بھی نہیں سکتا۔

اس کے دوش بدوش قانون کا نفاذ بھی مکمل طور پر ہونا چاہیے۔یہاں بہت سے جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی نامی گرامی ہستیاں کر رہی ہوتی ہیں۔ ایسی سزائیں منتخب کی جائیں جنہیں دوسروں کو ملتے دیکھ کر ہی کوئی ایسا جرم کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔جیسا کہ ریاست مدینہ میں چوری کرنے والے کے ہاتھ کاٹ دیے جاتے تھے۔قتل کی سزا قتل تا کہ لوگ سیکھیں۔

یہاں جرم کے بعد سزا پا کر مجرم دوبارہ اس سے بڑا جرم کر کے سامنے آ تا ہے۔اس لیے قانون کی پاسداری کو ہر خاص و عام کے لیے یقینی بنایا جائے۔

کوشش یہ کریں کے کچھ غلط نہ کریں۔لیکن اگر کچھ غلط کر بیٹھے ہیں تو اسے طول دینے کی بجائے رب کے حضور معافی کے طلب گار ہوں۔

قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ!

"جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی بہکانے والا نہیں”۔

Comments are closed.