ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہوں جسے

( مفتی) شفیع احمد قاسمی ،خادم التدريس جامعہ ابن عباس احمد آباد
تاريخ ١٩ / ذی الحجہ ١٤٤٢ھ مطابق 30 /جولائی 2021 عیسوی بروز جمعہ کو ایک المناک اور غم انگیز خبر موصول ہوئی کہ ایشیا کا عظیم ادارہ مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم حضرت الاستاد مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ واسعۃ کی رحلت ہوگئی ہے، انا للہ وانا الیہ رجعون
حضرت الاستاذ کی اس وقت کوئی خاصی عمر نہیں تھی، لیکن کائنات کے مالک کا اٹل اور دوٹوک فیصلہ ازل میں صادر ہوچکا تھا، جس سے کسی نفر کو مفر نہیں ،اور بھلا خدا کی اس تقدیری فیصلے کے سامنے کس کا بس چل سکتا ہے، یہ تو تکوینی حکم ہے، جس میں بندے کو قطعاً کوئی اختیار نہیں ہوتا ہے، بہرحال حضرت الاستاذ کی جدائی اور فراق سے دل پر گہرا غم چھایا ہوا ہے، اور کچھ دنوں سے ہمارے مؤقر اساتذہ کرام کی موتوں کا تانتا بندھا ہوا ہے، اموات کا یہ تسلسل و تواتر ہم سے ہماری ان نایاب موتیوں کو چھین کر بھی تھمتا دیکھائی نہیں دیتا، ایک کے بعد ایک سالار قافلہ کھسکتے جارہے ہیں، اور صف علماء کے آفتاب و مہتاب ہمیں چھوڑتے چلے جاتے ہیں، ابھی ایک کے غم واندوہ کا زخم مندمل نہیں ہوپاتا کہ دوسرے غم کا گہرا زخم لگ جاتا ہے، اور پھر اس دوسرے زخم کا بھراؤ ابھی آدھا ہی ہو پاتا ہے کہ تیسرا گہرا گہاؤ لگ چکا ہوتا ہے، اور اس میں شبہ نہیں کہ رفتہ رفتہ ہم ایسی عظیم ہستیوں اور سپوتوں سے محروم ہوئے جا رہے ہیں، اور ان کی رحلت سے جو خلا پیدا ہورہا ہے، ان کی بھرپائی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں ان کا بدل بلکہ نعم البدل عطاء فرمائے
حضرت الاستاذ کی پیدائش ہندوستان کے زرخیز علاقہ مغربی یوپی کے قصبہ سنبھل ضلع مرادآباد میں 4/جنوری 1950ء: کو ہوئی، آپ کے والد محترم کا نام نصیر احمد تھا، وہ ایک خوش مزاج بلند اخلاق متواضع اور رقیق القلب انسان تھے، اور ایک اچھے شاعر بھی تھے، آپ نے گھر کے قریب کا مدرسہ؛ خیر المدارس میں اپنی تعلیم کا آغاز کیا، کچھ دنوں کے بعد مفتی آفتاب علی خان صاحب کی معیت میں مدرسہ شمس العلوم منتقل ہوگئے، آپ نے وہاں حافظ فرید الدین صاحب کے پاس حفظ قرآن پاک کی تکمیل کی، اور فارسی، ابتدائی عربی سے لیکر شرحِ جامی تک کی تمام کتب حضرت اقدس مفتی آفتاب علی خان صاحب سے پڑھی، پھر 1968؛ میں مادر علمی دارالعلوم دیوبند پہونچے، اور اپنی علمی پیاس بجھانے میں ہمہ تن مصروف ہوگئے، کم و بیش پانچ سال آپ دارالعلوم دیوبند میں رہے، اور اس دوران آپ نے اپنے تمام اوقات کو علمی مشاغل میں صرف کیا، آپ کی کتب متداولہ کی تکمیل وقت کے اساطین علم کے سامنے ہوئی، جس میں بخاری شریف حضرت مولانا فخر الحسن صاحب مرادآبادی، حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب، حضرت مولانا مفتی محمود الحسن صاحب، حضرت مولانا شریف الحسن صاحب سے پڑھی، اور حضرت مولانا نصیر احمد خان صاحب سے طحاوی شریف وغیرہ پڑھی، اور 1972/ میں دورہ حدیث شریف میں تیسری پوزیشن سے کامیابی حاصل کی،
ادب میں دلچسپی آپ کی شروع سے تھی، اسلئے فراغت کے بعد ایک سال تکمیل ادب میں رہ کر وقت کے ادیب بے مثال حضرت مولانا وحید الزمان صاحب کیرانوی سے خصوصی استفادہ کیا، اور ادب میں اپنی صلاحیت میں نکھار پیدا کیا، آپ کی تدریسی زندگی کی افتتاح 1973 میں خادم الاسلام ہاپوڑ سے ہوئی، چھ سال تک آپ نے اپنی علمی ضیا پاشیوں سے یہاں کی فضا کو منور کیا، اس دوران آپ کی تدریسی صلاحیت میں مزید نکھار پیدا ہوا،
1979 میں مدرسہ جامع الہدی مرادآباد کی خدمت کے لئے منتخب کر لئے گئے، تین سال تک بحسن و خوبی یہاں تدریسی ذمہ داری کو نبھایا، اب آپ کے علمی چرچے و غلغلے بہت دور تک ہونے لگے تھے، جس کی وجہ سے ازہر ہند دارالعلوم دیوبند میں تدریس کے فرائض انجام دینے کے لئے 1982 میں آپ کو منتخب کر لیا گیا، اس وقت سے آج تک 39: سال دارالعلوم دیوبند میں خدمات انجام دیں،
حضرت والا کامیاب مدرس بہترین قلم کار ہونے کے ساتھ بہت اچھے مقرر بھی تھے، متعدد بار آپ دارالعلوم دیوبند کے ناظم امتحان بھی رہے، اور برسوں دارالعلوم کے نائب مہتمم بھی رہے، آپ نے کئی موضوعات پر قلم اٹھایا ہے، چنانچہ کئی عمدہ تصانیف آپ کے رشحات قلم سے صادر ہو کر منظر عام پر آچکی ہے، اور علمی حلقوں سے خوب داد و تحسین حاصل کرچکی ہیں، ان میں فتاویٰ عالم گیری کتاب الایمان کا ترجمہ؛ تحسین المباني فی علم المعانی میں ضمیمہ کا اضافہ؛ اور پانچ حصوں پر مشتمل رد مودودیت پر محاضرے؛ وغیرہ
حضرت الاستاذ کی علمی پختگی و رسوخ اور معلومات کی گہرائی و گیرائی ان سے پڑھنے والے جانتے ہیں، وہ ہر فن پر مہارت تامہ رکھتے تھے، اور زبان تو لاجواب تھی، نہ صرف عربی ادب بلکہ اردو ادب میں بھی درجہ کمال پر فائز تھے، زبان میں اس قدر شیرینی اور مٹھاس تھی کہ جب وہ بولتے تو لوگوں کے کانوں میں رس گھولتے، درس میں جب آپ تقریر فرماتے، تو طلبہ بہت محظوظ ہوتے، ایک طرف اگر علمی نکات کو انڈیلتے، تو دوسری طرف آپ کی پرکشش اور دلوں کو موہ لینے والی زبان و بیان ہمیں آپ کی طرف ہمہ تن متوجہ کرتا جاتا، ویسے تو آپ کی ہر تعبیر عمدہ وچست ہوتی، لیکن بسا اوقات آپ کے کچھ جملے انوکھے اور البیلے انداز کے ہوتے، تو طلبہ ان کو دوہراتے، اور ان کو یاد کرنے کی کوشش کرتے، اور گاہ بگاہ آپ مقفیٰ و مسجع تعبیرات کی بھرمار کر دیتے، جن سے طلبہ حیرت میں ڈوب جاتے،
درس کی کچھ انوکھی باتیں دوران درس کبھی کسی لفظ کا آپریشن کرتے، اور اس کی وجہ تسمیہ تک کو بیان کرتے، چنانچہ ایک موقعہ پر فرمایا؛ پاخانہ کا لفظ بظاہر گندا معلوم ہوتا ہے، لیکن اس کی اصلیت جاننے کے بعد تمہیں احساس ہوگا کہ یہ کتنا خوبصورت لفظ ہے، پاخانہ کی اصل پائین خانہ ہے، جس کے معنی ہیں گھر کے پیچھے، اور یہ قضائے حاجت سے کنایہ ہے، بھلا بتائیں کہ اب اس کی خوبصورتی وحسن میں کیا کلام ہوسکتا ہے، لیکن ضابطۃ مسلم ہے کثرت استعمال تخفیف کا متقاضی ہے، اس قاعدہ نے پہلے تو صرف نون کو حذف کیا، تو پائیخانہ بنا، اور اس میں کسی قدر کراہت آئی، پھر مزید کثرت نے رفتہ رفتہ ہمزہ کو بھی چلتا کر دیا، پاخانہ بن گیا، اب اس میں پہلے سے دگنی کراہت معلوم ہونے لگی، اور فرمایا کہ ایسے ہی پیشاب کی اصل پیش آب ہے جس کے معنی ہیں آگے کا پانی، چھوٹے استنجاء سے کنایہ ہے، اس میں بظاہر کوئی قباحت و شناعت نہیں تھی،بلکہ یہ بھی خوب صورت لفظ تھا، یہاں بھی اسی قانون کثرت نے الف مد سے مد کو چلتا کردیا، پیشاب بن گیا، ایک موقع پر فرمایا کہ کمرہ کے معنی ہیں کم رہ ، لیکن ہمارے عزیز طلبہ درسگاہ کی نسبت کمرہ میں زیادہ پڑے رہتے ہیں، حالانکہ کمرہ کم رہنے کی جگہ ہے،
پھر فرمایا، کہ دارالعلوم میں طلبہ کی تین قسمیں ہیں، ایک گروہ تو وہی ہے جو سابق میں گزرا، یہ لوگ آکر پڑھتے نہیں بلکہ کمرہ میں پڑے رہتے ہیں، طلبہ کا دوسرا طبقہ پھڑنے آتا ہے، وہ دیوبند کے بازاروں میں پھڑا کرتا ہے اور طلبہ کا تیسرا جتھہ پڑھنے آتا ہے ، واقعی وہ پابندی سے درس میں حاضر ہوتا ہے ، سبق کو بغور سنتا ہے ، محنت و عرق ریزی سے اپنی علمی پیاس بجھاتا ہے، ، حضرت الاستاذ درس میں اس طرح کے نکتے گاہ بگاہ بیان کیا کرتے تھے، اور ہم طلبہ ان جیسے نکتوں سے خوب محظوظ ہوا کرتے تھے،
مبدأ فیاض نے حضرت والا کو حسن صورت کے ساتھ سیرت کی پاکیزگی بھی خوب عطاء فرمائی تھی، تقوی و طہارت، للہیت و خلوص، انابت و رجوع الی اللہ، خوف و خشیت، شفقت و رأفت، تواضع و انکساری، نرمی و رحم دلی اور گناہوں سے بعد و دوری ان تمام عمدہ صفات کے حامل تھے، لیکن خصوصاً ان کے اخلاق کے دسترخوان پر نرمی و رحم دلی اور تواضع و انکساری گل سرسبد کی حیثیت رکھتی تھی، رحم دلی کا تو یہ عالم تھا کہ طبقہ طلبہ میں یہ بات مشہور و معروف تھی کہ حضرت والا بڑی آسانی کے ساتھ سفارش کر دیتے ہیں، چنانچہ جب طالب علم کو کوئی مطلوبہ کمرہ ملنا مشکل نظر آتا، یا اور کوئی مسئلہ درپیش ہوتا، تو فوراً حضرت سے سفارش کرالیتے، میرا خیال ہے کہ کبھی کسی کو انکار نہیں کیا ہوگا، گویا کہ آپ لفظ نا سے ناآشنا تھے۔
حضرت الاستاذ سے زانوئے تلمذ تہ کرنے والے جانتے ہیں کہ وہ اپنے طلبہ پر کس درجہ شفیق و مہربان ہوتے تھے، ان کی شفقت و رأفت کا یہ حال تھا کہ ایک مرتبہ راقم الحروف کے مشکوۃ کا سال تھا، حضرت والا سے ہدایہ رابع کتاب الشفعۃ متعلق تھی، گھنٹہ میں تشریف لائے اور اپنے معمول کے مطابق حاضری لینی شروع کی، دوران حاضری کھٹ پٹ کی کسی قدر تیز آواز آئی، اور یہ آواز درحقیقت حاضری بول کر فرار ہونے والے طلبہ کے پاؤں دروازے کے ایک پٹ سے ٹکرانے اور زنجیر کی حرکت کرنے سے پیدا ہوئی تھی، جس سے حضرت الاستاذ سمیت سارے طلبہ اُدھر متوجہ ہوگئے، اس وقت حضرت نے برجستہ یہ فرمایا کہ بھائی اُدھر نہ دیکھو، یہ ابھی تقاضے سے جارہے ہیں ابھی آیا چاہتے ہیں، سبحان اللہ؛ طلبہ کے ساتھ کیسی شفقت تھی، اور کس قدر ان کی رعایت
کرتے تھے، اگرچہ یہاں یہ احتمال موجود ہے کہ بعض طلبہ گھنٹہ ترک کرنے کی نیت سے بھاگنا چاہتے ہوں ، لیکن اس دوسرے احتمال سے بھی قطعاً انکار نہیں کیا جاسکتا ہے، کہ واقعی کچھ طلبہ اپنی طبعی ضرورت سے جارہے ہوں، تو حضرت نے اسی دوسری جانب کو ترجیح دیا، تاکہ وہ شرمسار ہونے سے بچ جائیں، اور کوئی بعید نہیں کہ حضرت کے اس نرالے انداز سے بھاگنے والے بھی بیٹھ جائیں گے،
راقم سطورحضرت الاستاذ کی کیا مدحت و توصیف کرسکتا ہے، اگر ان کی ستائش کی تو واقعہ یہ ہے کہ میں اس مقولہ کا صحیح مصداق قرار پاؤں گا؛ مداح آفتاب مادح خود است؛ دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی تقصیرات و کوتاہیوں اور لغزشوں کو عفو و درگزر فرمائے، ان کی سیئات کو حسنات سے مبدل فرمائے ،اور اپنی شایان شان جزا و بدلہ نصیب فرمائے ،آمین

Comments are closed.