مسلمانوں نے کیوں رکھا ہے مسلمانوں کو اندھیرے میں؟

تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاوید اختر بھارتی
تحفظ اوقاف تحریک کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھا جائے ،وقف ترمیمی قانون کے تعلق سے جاری تحریک کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے جلسے اور کانفرنسوں کا انعقاد کیا جائے ، بڑے بڑے اسٹیج لگاکر مجمع سے خطاب کیا جائے ، ہر جمعرات کو روزہ رکھا جائے ، جمعہ کو کالی پٹی باندھ کر نماز جمعہ ادا کیا جائے اور ہفتہ کے دن رات میں فلش لائٹ جلاکر احتجاج درج کرایا جائے ،، اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا سارے مسلمان اس بات سے واقف ہیں کہ وقف کیا ہے ، وقف کی جائیداد کیا ہے اور اس کی نوعیت کیا ہے ، اس کا مالک کون ہے؟؟
آج بھی نہیں بتایا جارہا ہے کہ آخر وقف کی جائیداد وجود میں کیسے آئی ،، بس بڑے بڑے اسٹیج لگائے جارہے ہیں اور کھوکھلی دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ وقف سے چھیڑ چھاڑ ہم برداشت نہیں کرسکتے ،، آخر کیسے برداشت نہیں کرسکتے آپ کے پاس برداشت نہ کرنے کے لئے کوئی اختیار ہے ، کوئی پاور ہے ، کوئی طاقت ہے جواب تو یہی ہے کہ نہیں نہیں اور نہیں ۔
ذات برادری کا جھگڑا مسلمانوں کے اندر ، اونچ نیچ ، بھید بھاؤ کا جھگڑا مسلمانوں کے اندر ، مسلکی اور فرقہ بندی کا جھگڑا مسلمانوں کے اندر ، مساجد ومدارس کے بٹوارے کا جھگڑا مسلمانوں کے اندر ، مناظرے کے نام پر جھگڑا مسلمانوں کے اندر ، پیری مریدی کے نام پر جھگڑا مسلمانوں کے اندر ،، جب اتنے سارے جھگڑے مسلمانوں کے اندر خود مسلمانوں کے ہیں تو پھر کسی نئے قانون کو برداشت نہ کرنے کی بات کہنا فضول نہیں تو اور کیا ہے۔
علاوہ ازیں مسلمانوں کے نام پر بنی تنظیموں میں بھی اب جھگڑے شروع ہو گئے ہیں ان تمام باتوں سے تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ بس عام مسلمانوں کے یا غریب مسلمانوں کے جذبات ابھار کر انفرادی اور مخصوص در مخصوص سطح پر ایک پہچان بنی رہے ، مسلمان استقبال کرتا رہے ، نعرہ لگاتا رہے ، دعوت تواضع کرتا رہے ،، اور آزادی کے بعد سے آج تک مسلمانوں کے ساتھ یہی ہو رہا ہے ۔
دوران سفر لوگ بحث کررہے تھے کہ سارے جہان کا مالک اللہ ہے ، ساری مخلوق اس کی ملکیت ہیں اور ہر مخلوق اللہ کی محتاج ہے اور اللہ غنی ہے ، وہ ہر چیز پر قادر ہے اس کی قدرت یہ ہے کہ اسے کوئی چیز بنانی ہوتی ہے تو وہ صرف حکم دیتا ہے اور وہ حکم دو لفظ دو حروف ہیں ک اور ن یعنی وہ کہتا کہ کن یعنی ہوجا تو فیکون یعنی وہ ہوجاتی ہے۔
اب اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جو ہر شے پر قادر ہے اسے انسان زمین دے یا اس کے نام پر وقف کرے یہ تو سمجھ سے پرے ہے ہاں مساجد ومدارس کے نام پر زمین وقف کرنا سمجھ میں آتا ہے ، غریبوں کے لئے وقف کرنا سمجھ میں آتا ہے ، سرکاری یا نیم سرکاری یا مختلف قسم کے اداروں کے قیام کے لئے زمین وقف کرنا سمجھ میں آتا ہے لیکن اللہ کے لئے زمین وقف کرنا اللہ کے نام پر زمین وقف کرنا یہ بات تو سمجھ میں نہیں آتی اور اللہ کے نام پر زمین وقف کرنے کا مقصد کیا ہے اس سے کیا فائدہ ہے،، یہ مسلہ یہ معاملہ کوئی بتاتا بھی نہیں ہے اور کوئی سمجھاتا بھی نہیں ہے اس سے تو یہی لگتاہے کہ یا تو کسی کو حقیقت معلوم نہیں ہے یا پھر بتانا نہیں چاہتے بس احتجاج کرنے کو کہا جاتا ہے کالی پٹی باندھنے کو کہا جاتا ہے اور دین و شریعت میں مداخلت کا معاملہ بتاکر جذبات کو ابھارا اور للکارا جاتاہے ۔
یہ بھی ایک خاص بات ہے کہ وقف کی جائیداد پر کسی غریب مسلمان نے قبضہ بھی نہیں کیا ہے اور جس طرح ہندوؤں میں ذات برادری ہے بیک ورڈ فارورڈ ہیں اسی طرح مسلمانوں میں بھی ذات برادری اور بیک ورڈ فارورڈ ہیں لیکن بیک ورڈ مسلمان بھی وقف کی جائیداد پر قابض نہیں ہیں اس طرح دیکھا جائے تو جو لوگ غریب مزدور بیک ورڈ مسلمانوں کو وقف کے تحفظ کے لئے للکار رہے ہیں وہی لوگ وقف کی جائیداد پر قبضہ بھی کئے ہوئے ہیں اس سے تو یہی ثابت ہوتاہے کہ مسلمانوں کا فارورڈ طبقہ اپنی برتری قائم رکھنے کے لئے وقف کے تحفظ کے نام پر غریب بیک ورڈ مسلمانوں کو استعمال کررہا ہے ۔
اب بتائیے غیر کو اس طرح کا تبصرہ کرنے کا موقع کیسے ملا ، کس نے دیا ؟ کیا وقف کی آمدنی سے مدارس اسلامیہ چلایا گیا؟ کیا وقف کی آمدنی سے اسکول اور کالج اور یونیورسٹیاں بنوایا گیا ؟ کیا وقف کی آمدنی سے ائمہ مساجد کو تنخواہ دیاگیا؟ کیا وقف کی آمدنی سے یتیموں ، مسکینوں ، غریبوں کے لئے کالونی بنوایا گیا ؟ کیا وقف کی آمدنی سے مسافر خانہ بنوایا گیا ؟ کیا وقف کی آمدنی سے غریبوں کی اجتماعی شادی کرایا گیا ؟ شائد جواب یہی ہے کہ نیل بٹا نیل اور صفر بٹا صفر ،، پھر بھی کہا جائے گا کہ وقف دین کا معاملہ ہے ، شریعت کا معاملہ ہے ، ملی تشخص کا معاملہ ہے جس کا تحفظ مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے تو غیر بالکل تبصرہ کرے گا بلکہ عنقریب وہ نام نہاد مسلم تنظیموں کے ذمہ داران کا گریبان پکڑ کر سوال بھی کرے گا اور ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا کیونکہ وقف کے نام پر مسلمانوں نے ہی مسلمانوں کو اندھیرے میں رکھا ہے اور بے وقوف بنایا ہے۔
اور وقف اگر مسلمانوں کے حقوق کا معاملہ ہے تو پھر ریزرویشن سے متعلق دفعہ 341 پر لگی مذہبی پابندی یہ بھی تو مسلمانوں کے حقوق کا معاملہ ہے ،، کیوں نہیں کہا جاتا ہے کہ جب مذہبی بنیاد پر ریزرویشن نہیں ہے تو مذہبی بنیاد پر ریزرویشن پر پابندی کیوں ہے ؟ اس کی مخالفت میں بازؤں پر کالی پٹیاں کیوں نہیں بندھوا یا جاتا ؟ لائٹ بند کراکر اندھیرا کیوں نہیں کرایا جاتا؟ بڑا بڑا اسٹیج کیوں نہیں لگایا جاتا ؟
دفعہ 341 کے تحت بہت سی برادریوں کے پارلیمانی ، اسمبلی و بلدیاتی اور پنچایتی انتخابات کی نشستیں محفوظ ہیں لیکن 10 اگست 1950 میں ایک آرڈیننس جاری کرکے پیرا 3 لگاکر اسی زمرے میں آنے والی مسلم برادریوں کو محروم کردیا گیا ،، اگر ایسا نہ کیا گیا ہوتا تو حلال خور، نٹ ، بنجارہ ، بھانٹ، کھٹک ، دھوبی وغیرہ جیسی مسلم برادریوں کو بھی محفوظ نشستوں والی سہولت فراہم ہوتی اور وہ بھی پارلیمنٹ و اسمبلی میں آسانی کے ساتھ منتخب ہوکر جاتے پھر سارے مسائل حل ہوتے ۔
اب بھی وقت ہے ہوش کے ناخن لیں اور پہلے اپنی صفوں سے اونچ نیچ بھید بھاؤ کا خاتمہ کریں اور مضبوطی کے ساتھ آواز بلند کریں اور ریزرویشن پر مذہبی پابندی ہٹانے کا مطالبہ کریں اور اس وقت تک تحریک چلائیں جب تک مسلم دلتوں کو مذکورہ مخصوص سہولیات مل نہیں جاتیں۔
++++++++++++++++++++++++++++++
جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی
Comments are closed.