ہرشخص کو اپنے نفس کا محاسبہ ضرور کرنا چاہیے۔

 

 

مفتی محمدقمرالزماں ندوی

(جنرل سیکرٹری: مولانا علاء الدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ)

 

آج کے ماحول میں انسان کے لئے سب سے زیادہ ضروری یہ کہ ایمان کی مضبوطی کے ساتھ عمل صالح پر توجہ اور دھیان دے اور اپنے آپ کا،اپنے نفس کا اور اپنے اعمال و کردار کا محاسبہ کرتا رہے۔

اپنی ذات اور زندگی سے بے خبر ہوکر صرف دوسروں کی فکر اور دوسروں کی اصلاح کی فکر کرنا یہ کوئی سمجھ داری اور عقلمندی کی بات نہیں ہے، سارے جہاں کی فکر اور اپنی جہاں سے بے خبر، یہ ماحول اور دور ہے، آج کا، اس لیے سب سے زیادہ ضروری ہے، کہ انسان خود اپنا بھی محاسبہ کرتا رہے اور اپنی کوتاہی، کم عملی اور بے راہ روی پر نظر رکھے اور اپنے اندر تبدیلی پیدا کرے۔ اپنی ذات اور اپنے نفس کا محاسبہ یہ ایمان والوں کا طریقہ ہے۔

حضرت مولانا محمد علی مونگیری رح کے بارے میں آتا ہے کہ ایک بار جمعہ کے دن جمعہ کی تیاری کرکے اپنے کمرے میں کچھ کاغذات وغیرہ دیکھ رہےتھے اور اس میں اتنا مصروف ہوگئے کہ پتہ نہیں چل سکا کہ کب جمعہ کی اذان ہوگئی، جب کام سے فارغ ہوئے تب تک تاخیر ہوچکی تھی، تیزی سے مسجد مامو بھانجا کی طرف بڑھے، دیکھا جماعت ہوچکی ہے اور لوگ مسجد سے نکل رہے ہیں، مسجد کے دروازے پر گر پڑے اور بے ہوش ہوگئے، پوری زندگی اس کا صدمہ اور ملال رہا اور اپنے نفس کو کوستے رہے، اس طرح کے ہزاروں واقعات تاریخ کے صفحات میں درج ہیں۔

محاسبہ نفس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے کئے ہوئے اعمال کا بھر پور اور سختی کے ساتھ حساب لے۔ اپنے اعمال و افعال کا جائزہ اور محاسبہ کرے ۔ یہ محاسبہ اور جائزہ و حساب اعمال کی کمیت اور کیفیت دونوں اعتبار سے لینا ضروری ہے۔ کمیت کی معنی یہ ہیں کہ اس پر کتنے کاموں کی ذمہ داری تھی اور اس نے کتنے کام انجام دیئے اور کیفیت کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح ان کاموں کو انجام دینا چاہیے تھا اسی طرح انجام دیے ہیں یا کوتاہیاں ہوئی ہیں یہ جائزہ اور محاسبہ ایمان والوں کو روزانہ کرنا چاہتے چاہیے قرآن مجید میں متعدد جگہ ایمان والوں کو اعمال کے جائزے اور محاسبہ نفس کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک موقع پر اللہ تعالٰی نے فرمایا : یا ایھا اللذین آمنوا اتقوا اللہ و لتنظر نفس ما قدمت لغد و اتقوا اللہ ان اللہ خبیر بما تعملون

اے ایمان والو! اللہ تعالٰی سے ڈرو ہر شخص کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کل (قیامت) کے لئے کیا بھیجتا ہے اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔

اس آیت کریمہ میں یہ دیکھنا اور اس پر غور کرنا کہ انسان نے کل قیامت کے لئے کیا بھیجا ہے اور کیا بھیج رہا ہے محاسبئہ نفس ہے، اس آیت کریمہ میں محاسبہ کے ساتھ شروع میں بھی تقوی کا حکم دیا گیا ہے اور آخر میں بھی تقوی کا حکم دیا گیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا اور یہ پتہ چلا کہ جب تک انسان کے دل میں اللہ تعالٰی کا خوف اور خشیت نہ ہو گی وہ محاسبہ نفس اور اپنے اعمال و افعال اور کردار و اوصاف کے جائزے کے لئے تیار اور آمادہ ہی نہیں ہوسکتا اور آیت کے اخیر میں دوبارہ تقوی اور طہارت نفس کا حکم دیکر اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ محاسبہ اور اعمال کا جائزہ بھی انسان کو ڈرتے ڈرتے کرنا چاہیے ورنہ انسان کا نفس اتنا عیار اور مکار ہے کہ وہ سو بھیس بدلتا ہے اور طرح طرح کے بہانے اور عذر لنگ تراش کر انسان کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی احادیث میں بھی بے شمار جگہوں پر محاسبہ نفس کا تذکرہ ملتا ہے۔ شداد بن اوس رضی اللہ عنہ حدیث کے راوی ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الکیس من دان نفسہ و عمل لما بعد الموت و العاجز من اتبع نفسہ ھواھا و تمنی علی اللہ ( ترمذی / ابن ماجہ)

دانا اور عقلمند وہ شخص ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور موت کے بعد کے لئے عمل کرے اور نادان وہ شخص ہے جو اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرے اور اللہ سے غلط آرزوئیں وابستہ رکھے۔

شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ یہ حد درجہ نادانی کی بات ہے کہ آدمی حق اور راستی کو چھوڑ کر پیروی تو باطل خواہشات کی کرے اور امید اس کی رکھے کہ خدا اسے آخرت میں درجئہ بلند اور رتبئہ عالی عطا فرمائے گا اور اسے طرح طرح کی نعمتوں اور اکرام و انعام سے نوازا جائے گا حالانکہ آخرت کی کامیابی و کامرانی اور سعادت انہی لوگوں کے لئے ہے جو ہر حالت میں اور ہر موقع پر اور زندگی کے تمام شعبوں اور گوشوں میں حق کے متبع ہوتے ہیں اور خواہشات نفس کے غلام نہیں ہوتے۔

ازالة الخفاء میں محاسبئہ نفس کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا گیا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ۰۰ اس سے پہلے کہ قیامت میں تمہارا حساب کیا جائے اپنے نفس سے محاسبہ کرو اور اس سے پہلے کے میزان حشر میں تمہارے اعمال تولے جائیں یہاں دنیا میں اپنے اعمال تولو، اور اللہ تعالی کے سامنے اس بڑی پیشی کے لئے اپنے آپ کو تیار کرو ،جب تم خدا کے سامنے پیش کیے جاو گے اور تمہاری کوئ چیز مخفی نہیں رہے گی۔ ( ازالة الخفاء جلد دوم بحوالہ ماہنامہ زندگی رام پور اکتوبر ۱۹۷۲ء)

محاسبہِ نفس کا حاصل ،لب لباب اور اس سے مقصود یہ ہے کہ انسان جس طرح کاروبار اور تجارت و بزنس میں اپنے خادم یا شریک اور پاٹنر کے ساتھ کوئی کام کرتا ہے تو اس کے لئے کچھ اصول و ضوابط طے کرتا ہے، پھر ان کی پابندی کرتا ہے اور ہمیشہ اس پر نظر رکھتا ہے اور آخر میں حساب اور آدیٹ کرتا ہے تاکہ معلوم ہو اور پتہ چلے کیا ابھی تک کیا کھویا اور کیا پایا کیا نفع ہوا اور کیا نقصان، ٹھیک اسی طرح انسان کو اپنے نفس کا حساب لینا چاہیے کہ آج دن میں کتنی نیکیاں اور خیر کے کام ہوئے اور کتنی برائیوں اور خلاف شریعت کاموں سے جن سے بچنا چاہئے تھا بچے اور اس سے اجتناب کیا۔

ہم میں سے ہر شخص کو روزانہ یہ جائزہ لے کر اپنی زندگی گزارنی چاہیے۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی زندگی میں ہم یہ اوصاف و کمالات کما حقہ پاتے ہیں کہ وہ ہمیشہ اپنی زندگی کا محاسبہ کرتے تھے اور اپنے اعمال کا جائزہ لیتے رہتے تھے۔ اس سلسلے کے سینکڑوں واقعات احادیث اور تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں۔ صرف ایک دو واقعات قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ ایک دن اپنے باغ میں نماز پڑھ رہے تھے اتنے میں ایک پرندہ اڑا اور باغ سے نکلنے کی جگہ تلاش کرنے لگا باغ اتنا گھنا تھا کہ اسے نکلنے کی کوئ جگہ نظر نہیں آرہی تھی۔ ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کو یہ منظر بڑا اچھا لگا اور وہ تھوڑی دیر تک پرندے کو ادھر ادھر پرواز کرتے دیکھتے رہے ۔ پھر جب اپنی نماز کی طرف متوجہ ہوئے تو یہ بھول گئے کہ انہوں نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں ۔ اب انہیں احساس ہوا کہ وہ اپنے باغ کی وجہ سے ایک فتنہ میں مبتلا ہوگئے۔ نماز سے فارغ ہوکر وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ کہہ سنایا اس کے بعد کہا یا رسول اللہ! وہ باغ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے آپ جہاں چاہیں اسے صرف (خرچ) فرمائیں۔

ایک بار حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی نماز عصر کی جماعت فوت ہو گئی اس کے کفارے میں انہوں نے اپنی ایک قیمتی زمین صدقہ کردی ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حال یہ تھا کہ جب رات ہوتی تو اپنے قدم کو درے پر رکھتے اور اپنے نفس سے کہتے کہ آج تو نے کیا کیا ہے۔

اگر کبھی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی نماز عشاء کی جماعت چھوٹ جاتی تو وہ رات بھر عبادت کرتے۔

ایک بار حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اتنی دیر میں نماز مغرب ادا کرسکے کہ ستارے نکل آئے تھے اس کے کفارے میں انہوں نے دو غلام آزاد کیے۔

حضرت تمیم داری کے بارے میں آتا ہے کہ ایک بار ان کی تہجد کی نماز قضا ہوگئی تو وہ سال بھر تک زیادہ جاگ کر اس کی تلافی کرتے رہے ۔ (مستفاد: ماہنامہ زندگی رام پور اکتوبر ۱۹۷۲ء)

اللہ تعالٰی ہم سب کو محاسبئہ نفس کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ آج پوری دنیا میں جو فساد اور انارکی پھیلی ہوئ ہے اس کی ایک اہم اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم میں کوئی بھی اپنے دامن کو نہیں دیکھتا ایک لمحہ بھی اپنے گریبان میں جھانکنے کے لئے تیار نہیں ہم میں سے ہر شخص کی نظر دوسروں کی برائی اور خرابی پر رہتی ہے ۔ جب کہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ پہلے ہم خود اپنے آپ کی اصلاح کریں۔

آج اگر دنیا میں اس پر عمل ہوجائے تو دنیا میں امن و سکون کا ماحول نظر انے لگے اور امیر و غریب چھوٹے اور بڑے طاقتور اور کمزور گورے اور کالے سب کے مسئلے حل ہوجائیں ۔ بس شرط یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہے اور اپنے اعمال کا حساب کرتا رہے اور خدائ اصول و ضوابط پر عمل کرنا شروع کر دے۔

Comments are closed.