پنچایتی الیکشن، توقعات، و خدشات

از: محمد اللہ قیصر
ہمارے ملک میں پنچایتی الیکشن حکومتی منصوبوں کو سماج کی نچلی اکائی تک پہونچانے کا ایک بہترین فارمولہ ہے، مکھیا، "سمیتی” اور "وارڈ ممبر” جیسے عہدے دبے، کچلے، اور سماجی طور پر محروم طبقہ کو سرکاری منصوبوں سے استفادہ کا موقع دینے کیلئے بہت اہم ہیں، یہ تمام عہدیدار مقامی ہونے کے ساتھ اسی سماج کا حصہ ہوتے ہیں،لہذا ان لوگوں تک وہ خود پہونچ سکتے ہیں، نیز ان لوگوں کو پارلیمنٹ یا اسمبلی میں بیٹھنا نہیں ہے، اسلئے یہ ہردم لوگوں کے درمیان ہوتے ہیں، یہ گاؤں کی گلی گلی سے واقف ہوتے ہیں، کہاں کیسی ضرورت ہے ان سے زیادہ کسی کو پتہ نہیں ہوتا، ان کا دائرہ کار بھی چھوٹا ہوتا ہے تو تقریبا ہر ممبر کی ضروریات سے واقف ہوتے ہیں، اور سرکار سے ملنے والی بنیادی ضروریات بھی انہیں کے واسطہ پہونچتی ہیں، خلاصہ یہ کہ یہی عہدیداران ہیں جو سماج کی نچلی اکائی تک پہنچنے آسان ترین راستہ ہیں، اور جہاں محروم ترین شخص کی رسائی سب سے زیادہ آسان ہے، ، ان سے کھیت، کھلیان، دوکان، سڑک کہیں بھی مل کر اپنی ضرورت پیش کی جا سکتی ہے، کسی خوف ،رعب و دبدبہ کا کوئی اندیشہ نہیں۔
یہ سب تب ممکن ہے جب ووٹر کسی ایسے شخص کا انتخاب کریں جو زمین سے جڑا ہو، کام کا نیک جذبہ رکھتا ہو، غریبوں کی ہمدردی اسے بے چین رکھتی ہو، گاوں کی گلیوں میں گھومتے ہوئے گاؤں کی ضروریات کا احساس اسے بے چین کرتا ہو، تعلیم یافتہ اور منصوبہ ساز ہو، گاؤں کی کس پریشانی کا کیا حل ہے اسے خوب سمجھتا ہو۔
لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ گاؤں کا ووٹر یہاں بھی خائب و خاسر اور ناکام رہتا ہے، ایک طرف سماج دشمن عناصر امیدوار بنتے ہیں، جن کا مطمح نظر "سرکاری منصوبوں” کو ہڑپنے کے علاؤہ کچھ نہیں ہوتا، ان کا مقصد "عوامی خدمت” کے بجائے، ذاتی ملکیت میں اضافہ ہوتا ہے، ان کا حقیقی ہدف سماج میں شہرت اور عہدہ کا حصول ہوتا ہے، وہ ہر حال میں الیکشن جیتنے کیلئے "دام، سام، دنڈ بھید” سب کچھ اپناتے ہیں، ووٹ کیلئے ڈرانے دھمکانے کے علاؤہ پیسوں کا بے تحاشا استعمال کرتے ہیں، ووٹر کو دھمکا نا ان کا بڑا ہتھیار ہوتا ہے، اگر کوئی کھل کر مخالفت کرے تو دشمنی کی آگ بھڑک جاتی ہے، عموما دیکھا جاتا ہے کہ اس الیکشن میں کوئی شریف انسان حصہ نہیں لیتا، سماجی تانے بانے کو ادھیڑ نے والے ہی اس میں امیدوار بنتے ہیں۔
اس پریشانی کا حل صرف عوام کے پاس ہے، وہ اگر ٹھان لیں کہ صرف ایسے شخص کا انتخاب کرنا ہے جس کا ماضی سماجی انتشار کا سبب بننے والے گناہوں سے محفوظ ہو، ضرورت مندوں کا تعاون جس کا نصب العین ہو، لڑائی جھگڑا، تانا شاہی اور دبنگئی کو گناہ سمجھتا ہو، اگر عوام نے ان صفات کے حاملین کو ترجیح دینا شروع کیا تو یقین جانیں حالات بہتر ہو سکتے ہیں اور آئندہ امیدواری کا خواب دیکھنے والے بھی ان بیماریوں سے خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش کریں گے، کیوں کہ منصب کے حصول کا ہر ذریعہ معیار بن جاتا ہے، چناں چہ اگر کوئی شخص ناجائز طریقے اپناکر کسی منصب کو حاصل کرتا ہے تو وہ ناجائز طریقہ معیار بن جاتا ہے اور اگر جائز طریقے اپنائے جاتے ہیں تو نسل نو اسی پر چلنا چاہتی ہے۔
آپ نے کسی کو نہیں دیکھا ہوگا کہ وہ پیسہ چھینٹ کر یا سماج میں انتشار پھیلا کر آئی ایس یا پروفیسر بننے کا خواب دیکھتا ہو، ہر انسان جانتا ہے کہ تعلیم اگر مضبوط ہوگی تو اس مقام تک پہونچتے سکتے ہیں ورنہ آئی ایس یا پروفیسر بننے کی خواہش کی حیثیت، دیوانوں کے خواب سے زیادہ نہیں، ہاں اگر کوئی سیاست میں اپنا مستقبل بنانا چاہتا ہے تو سب سمجھتے ہیں کہ سماج میں بد امنی، دبنگئی، ظلم و تعدی، اور فتنہ انگیزی ایک "شارٹ کٹ” ہے جس پر چل کر وہ سیاست کی اعلی ترین کرسی پر براجمان ہو سکتا، لہذا وہ یہی کرتے ہیں۔
آج کی سیاست کا المیہ ہے کہ ناخواندہ اور غنڈہ گردی کا مزاج رکھنے والے دبنگ، پیسہ کے زور پر ہر چیز حاصل کرنے کے خواہش مند افراد، اور سماج میں فساد برپا کرنے والے سیاست کے اعلی مقام تک پہونچتے ہیں اسلئے سیاست کو اپنا کیرئیر بنانے کی خواہش رکھنے والا ہر فرد انہیں راستوں پر چلتا نظر آتا ہے، اس کے برعکس اگر عوام سنجیدہ اور صالح فکر کے حاملین کو منتخب کرتے تو غنڈہ گردی کا مزاج رکھنے والے بھی حالات کے پیش نظر خود کو سدھارنے کی فکر کرتے۔
اسلئے بڑے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے سیاست میں گندگی عوام کی مرہون منت ہے، عوام میں خود ایک قسم کی منافقت ہے کہ اپنے گھروں میں بیٹھ کر جس گندگی کا رونا روتے ہیں، الیکشن میں اسی گندگی کو اپنے سر پر لئے گھومتے ہیں، کچھ اپنے مفاد کی خاطر، کچھ ڈر کے مارے، اور کچھ اسلئے کہ وہ ان باتوں میں دلچسپی نہیں رکھتے کہ ہمارا ذمہ دار کون اور کیسا ہے۔
گاؤں میں بسنے والے دبنگ اگر کسی ایک کو اپنے ظلم و زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں تو دوسرے تماشہ دیکھتے ہیں، حتی کہ الیکشن میں اس ظالم کو ووٹ بھی دیتے ہیں، پھر ایک دن وہ خود تماشہ بن جاتے ہیں، تب ان کا پرسان حال بھی کوئی نہیں رہتا، اس کے بجائے اگر پہلے دن ظالموں کا تعاقب کریں اور الیکشن یا کسی بھی سماجی کام میں ان کا بائیکاٹ کریں تو غنڈہ گردی کا مزاج رکھنے والوں کے حوصلے خود بخود ٹوٹ جائیں گے، اس طرح سماج کا ہر فرد فسادیوں کی دست درازی سے محفوظ رہ سکتا ہے نیز انہیں نمائندہ بھی ایسا ملے گا جس کو عوام کے دبے کچلے طبقہ کی فکر ہو۔

Comments are closed.